نوئیڈا جھگی باشندگان کی صورتحال

الیکشن دکھاتا ہے نہ جانے کیا کیا کرشمے !!

عالم ِ جمہوریت کا سب سے معروف تہوار ہوتا ہے الیکشن ۔ اعلٰی عہدیداروں کو بھی ادنیٰ باشندہ کے ساتھ مل کر بڑے تزک واحتشام سے اسے منا نا چاہئے ۔ مگر زمانہ الیکشن کے قریب آتے ہی دھماچوکڑی اورہڑ بونگ کا عجیب وغریب ماحول ہو جا تاہے ۔ فضا مکدر ہونے لگتی ہے ۔ علی العموم دوطرح کے نظارے آمد الیکشن سے مربوط ہوتے ہیں ۔اولاً اربابِ ِ سیاست کی بند تجوریا ں کھلنے لگتی ہیں ۔ وہ پانچ سالہ خواب ِ خرگوش سے بیدار ہوجاتے ہیں ۔ ووٹروں کو لبھانے کے لئے نوازشوں و عنایتوں کی بارش ہونے لگتی ہے ۔ دلنواز وعدوں اور دلکش تقریروں کا بازار گرم ہوجاتاہے ۔ دوسرا نظارہ ہوتاہے دل دہلانے ، معصوموں و بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے ، بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتارنے ، ماؤں کی گودیوں کو ویران اور غریب و نادار کی جھونپڑیوں کو اجاڑنے والا ۔ چلئے نوئیڈا ، وہاں دکھاتے ہیں آپ کو موؤخرالذکر نظارہ !!

یوپی میں الیکشن سرپر ہے ۔ امروز فردا میں انتخاب کی تاریخ کا تعین بھی ہوجائے گا ۔ اسی الیکشن کے قریب نوئیڈا جھگی باشندگان میں گہما گہمی کا ماحول ہے ۔ سراسیمگی کی فضا ہے ۔ ان کی جھگیاں اجڑنے کے درپے ہیں ۔ ان کے اجڑ نے کے بعد اسباب ِمعاش اوران جھگیوں کے عوض ملنے والے مکان کے تئیں ان کے سامنے اندھیرا اندھیرا ہی ہوگا ۔ کیونکہ دور بہت درو تک ان کا غمگسار کوئی نظرنہیں آرہا ہے ۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ نوئیڈا سیکٹر 4,5,8,9اور10میں کئی دہائیوں سے مزدور طبقہ کی کئی ہزار جھگیاں ہیں ۔ گزشتہ کئی برسوں سے ان پر حکومت کی تلوار لٹکی ہوئی ہے کہ نہ جانے کب یہ ٹوٹ جائیں ۔ مگر اب وہ دن قریب آگیا ہے ، مستقبل قریب میں یہ جھگیاں ٹوٹ جائیں گی اور اس کے عوض انہیں دوکمرے ،ایک بیت الخلا ءاور کچن پر محیط ایک فلیٹ نما مکان سیکٹر 122میں ملے گا ۔ جس کی قیمت تقریباً 13لاکھ ہوگی ۔ اس ضمن میں کاروائی بھی شروع ہوچکی ہے ۔ اس کافارم 100کے عوض وجیا بینک سیکٹر 6، کینرا بینک سیکٹر 6، آربی ایس بنیک سیکٹر 18اور اورینٹل بینک آف کامرس سیکٹر 20نوئیڈا میں 10,08,2011سے دستیاب ہے اور اس کے جمع کرنے کی آخری تاریخ 11,11,011تک ہے ۔ اربابِِ سیاست کے ابھارنے پر بہت سے باشندگان نے یہ فارم خرید لیاہے اوربیشتر اس کی مخالفت کررہے ہیں ۔ اس کے فارم کے ساتھ 20شرائط بھی منسلک ہیں ۔ ان میں سے چند یہ ہیں ۔ اپنی اجڑی ہوئی جھگی کے عوض فلیٹ لینے والوں کو پیشگی 66ہزار رقم اداکرنا ہوگی اور بقیہ کی ادائیگی 240ماہ (20سال)کی 4,912سے ہوگی ۔ پیشگی رقم کی ادائیگی کے دوبرس بعد انہیں رہائش کی اجازت ہوگی اور مکمل قسط کی ادائے گی سے قبل وہ اپنے فلیٹ میں کوئی کام کرسکتے ہیں اورنہ ہی کرایہ پر کسی کو دے سکتے ہیں ۔ اسی طرح خرید وفروخت کرنا بھی قانوناً جرم ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ باشندگان جھگی کے دلوں میں خوف وہراس کا پہرہ ہے ۔ بے شمار شکوک وشبہات کے برگ وبار نظر آرہے ہیں ۔نت نئی پریشانیوں میں ابھی سے ہی گھرے نظرآرہے ہیں ۔

سیکٹر 9جھگی کے ایک باشندہ نسیم احمد کا کہنا ہے کہ”جھگی ٹوٹتے ہی ہم میں سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوجائیں گے ، صحیح اسباب معاش نہ ہونے کی وجہ سے دووقت کی روٹی بمشکل تما م نصیب ہوگی ، اس صورتحال کے باوجود ہمارے لئے کیسے ممکن ہوگا کہ ہر ماہ تقریباً پانچ ہزار روپئے قسط جمع کریں “۔ اسی طرح پنکج نامی ایک فرد کا کہنا ہے کہ ”ابھی ہمارے لئے فی ماہ پانچ ہزار کمانا بہت مشکل کا م ہے تو جھگی ٹوٹنے کے بعدہم فلیٹ کی قسط اداکریں گے یا اپنے پیٹ کی آگ بجھائیں یا اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں گے “۔

سیکٹر 8جھگی کی ایک خاتون حنا کہتی ہے کہ ”چمچماتی گاڑیوں میں گھومنے والے کیا ہمارا خون پئیں گے ؟پانچ ہزار روپئے کی قسط کیلئے ہم کیا کریں گے ؟ نہیں چاہئے ہمیں فلیٹ ، جھگی میں ہی رہ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھائیں گے “۔یونس نامی شخص نہایت افسردگی سے کہتے ہیں کہ ”قانون شاید ہم غریبوں کے لئے ہے ، جب جی میں آیا ہمارے لئے قانون تیار کرلیا جاتاہے ، دو برس قبل کچھ اور قانو ن سننے میں آیا تھا ، دوبرس قبل جب جھگی ٹوٹنے کی ہوا تھی تو یہاں آنے جانے بہت سے نیتاؤں نے کہاتھاکہ آپ لو گوں کو26گز زمین ملے گی ، آپ جس طرح چاہیں گے اپنا مکان بنائیں گے ، مگر آج کچھ اور ہو رہا ہے ، کچھ اور قانون بن گیا ہے ، اب وہ نیتا کیوں خاموش ہیں ؟ کیوں ہم غریبوں کی مدد کونہیں آتے ہیں ؟“۔ رمیش نامی ایک ضعیف کہتے ہیں کہ ”ھمیں مکان نہیں چاہئے ، ہم یہیں رہیں گے یا ھمیں کوئی چھوٹی سی زمین دی جائے کہ کچا پکامکان بنا کر تن بدن چھپالیں گے “۔

جی ہاں ! واقعی ان باشندگان جھگی کا کہنا بجاہے کہ کیسے وہ پانچ ہزا ر روپئے ماہنامہ قسط پر فلیٹ لے سکتے ہیں ۔ا گر وہ ابھی پانچ ہزار قسط پر مکان کے لائق ہوتے تو برسوں پہلے دہلی کے اطراف و اکناف میںدوہزار تین ہزار ماہ کی قسط پر زمین لے چکے ہوتے ۔ وہ اپنی مرضی سے اپنی زمین کا استعمال کرتے ۔ کیونکر وہ جھگی میں زندگی گزارتے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان جھگی باشندگان میں سے 85فیصد پانچ ہزار روپئے نہیں کماپاتے ہیں ۔ جب جس کے پاس اتنی آمدنی نہیں اس کے لئے اس سے زیادہ قسط مقرر کرنا وہ حکومت کی جانب سے ، کتنی بڑی بے رحمی ہے ؟ مزید ایسی ریا ست میں جہاں کی برسراقتدار پارٹی کی تمام تر پالیسیاں’ سروجن ہتائے اور سروجن سکھائے‘ پر مبنی ہو ں۔

دہلی کے مختلف علاقوں میں بھی بہت سی جھگیاں تھیں ، مگر وہاں کی حکومت نے انہیں ٹوڑتے ہی زمین دی ہے ، جھگی باشندگان خودمختار بھی ہے کہ جب جی میں آئے فروخت کردے یا کرایہ پر لگادے ۔ جن طرح دل میں آئے مکان بنائے ۔ مگر دہلی کے پڑوس میں نوئیڈا جھگی باشندگان کو فلیٹ لینے پر کیوں مجبور کیا جارہاہے ؟ مزید ستم ظریفی کہ عجیب وغریب شرائط لگائے جارہے ہیں ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92461 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More