سید احمد شہید اور شاہ اسمعٰیل کی تحریک مجاہدین اُس انگریزمہم کا حصہ تھی جس کے تحت وہ پنجاب پر اپنے قبضہ کا راستہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔۔۔!
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
سید احمد شہید اور شاہ اسمعٰیل کی تحریک مجاہدین اُس انگریزمہم کا حصہ تھی جس کے تحت وہ پنجاب پر اپنے قبضہ کا راستہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔۔۔! تاریخی تناظر میں تحریک مجاہدین کا اِک نیا پہلو
|
|
|
پنجاب کٹہرے میں |
|
سید احمد شہید اور شاہ اسمعٰیل کی تحریک مجاہدین اُس انگریزمہم کا حصہ تھی جس کے تحت وہ پنجاب پر اپنے قبضہ کا راستہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔۔۔! تاریخی تناظر میں تحریک مجاہدین کا اِک نیا پہلو
اِس تاریخی حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ انگریز وہ واحد حملہ آور تھے جو برصغیر پر جنوب مشرق کی طرف سے حملہ آور ہوئے۔1845ء میں پنجاب پر حملہ سے قبل وہ باقی سارت برصغیر کو فتح کرچکے تھے جس میں بنگال اور بمبئی سے لے کر دہلی اور بلوچستان تک کا سارا علاقہ شامل تھا۔رنجیت سنگھ کی ریاست بہاولپور ڈویژن نکال کر پاکستانی و انڈین پنجاب،متحدہ کشمیر اور خیبر پختوانخواہ کے علاقوں پر مشتمل تھی۔رقبہ کے لحاظ سے پنجابی امپائر ایسٹ انڈیا کمپنی سرکار کے مقابلے میں محض 16 فیصد کے لگ بھگ تھی۔برصغیر میں اُس وقت کی تمام طاقتوں کی حمایت بھی انگریزوں کو حاصل تھی جس میں مغل سلطنت ،ساڑھے پانچ سو سے زیادہ مقامی ریاستیں اور علاقے شامل تھے۔جبکہ پنجاب مکمل طور پر تنہا کھڑا تھا۔اسے برصغیر کی کسی اور طاقت یا ریاست کی حمایت حاصل تھی نہ ہی کوئی بیرونی طاقت اس کی پشت پر تھی۔ ایک طرف اُس وقت کی دنیا کی طاقتور ترین برطانوی ایمپائر تھی تو دوسری جانب پنجاب کی ریاست جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد اُس کی جانشینی کے معاملات کی وجہ سے انتشار کا شکار ہوچکی تھی اور باہمی لڑائیوں کی وجہ سے پکے ہوئے پھل کی ماند انگریزوں کی جھولی میں گرنے لیے تیار بیٹھی تھی۔پنجاب کے خلاف لڑائی سے قبل انگریزوں نے برصغیر پر قبضے کے لیے45 سال میں کل نو9/جنگیں لڑیں۔جن میں چار سلطنت میسور کے خلاف اور تین مرہٹہ ایمپائر کے خلاف تھیں۔اُن کو نکال پر محض دو جنگوں پلاسی اور بکسرمیں انگریز نے ستلج دریا سے مشرق کے سارے علاقوں پر اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔سوائے مرہٹوں کے خلاف 1818ء کی لڑائی کے یہ تمام لڑئیاں اٹھارویں صدی یعنی 1857ء سے 1799ء میں لڑی گئیں۔ 1803 ء میں مغل شہنشاہ نے نہایت پُر امن طریقے سے انگریزوں کے مطالبے پر اپنے تمام اختیارات کمپنی سرکار کو تفویض کردئیے اور خود اُن کا وظیفہ خوار بن گیا تاکہ انگریزوں کو اس کے نام پر حکومت کرنے کا قانونی جواز مل سکے اور ظل الٰہی لال قلعہ میں زندگی کے شب و روز سے لطف اندورز ہوسکیں۔ پنجاب کی چھوٹی سی ریاست کو فتح کرنے میں انگریز وں کو پچاس سال لگے اور اُسے 13 بڑی جنگیں لڑنا پڑیں۔یعنی جنتا عرصہ پورا برصغیر فتح کرنے میں لگا اُس سے بھی زیادہ عرصہ انگریزوں کو پنجاب فتح کرنے میں لگا۔برصغیر میں صرف ایک میسور ہی وہ واحد ریاست تھی جس نے 32 سال تک انگریزوں کو آگے بڑھنے نہ دیا۔ایسا نہیں تھا کہ انگریز پنجاب کو فتح کرنا نہیں چاہتے تھے۔وہ تو دہلی کے بادشاہ سے فارغ ہوکر جلد از جلد پنجاب کو بھی فتح کرکے اپنی سلطنت کو افغانستان کے باڈر تک لے جانا چاہتے تھے۔لیکن رنجیت سنگھ کی ہیبت،بہادری اور صلاحیتوں اور پنجاب کے جاٹوں کی روایتی دلیری سے وہ خوفزدہ تھے۔وہ رنجیت سنگھ کے سامنے بے بس تھےاِس لیے اُنہوں نے پنجاب میں سازشوں کا جال بچھادیا۔چونکہ پنجاب کی اکثریتی آباد مسلمان تھی اور دہلی میں انگریز مغل بادشاہ کے اتحادی تھے ،اُن کے لیے یہ آسان تھا کہ وہ پنجاب کے مسلمانوں کو یہ پیغام دیتے کہ وہ اُن کے دوست ہیں اور اُنہیں سکھوں کے اقتدار سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔چنانچہ اُنہوں نے پنجاب کے مسلمانوں پر سکھوں کے مظالم کی کہانیاں مشہور کیں۔جبکہ زمینی حقائق اس کے برخلاف تھے۔رنجیت سنگھ نے پورے پنجاب میں کہیں بھی مسلمان زمینداروں نہ زمین چھینی تھی اور نہ ہی اُن کو کوئی نقصان پہنچایا تھا۔ انگریزوں نے اِس ظلم وستم کی تشہیر کرنے کے ساتھ ساتھ پنجاب کے مسلمانوں کے اندر سکھوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے وسطی ہندوستان کے مسلمانوں میں پنجاب کے مسلمانوں کو آزاد کروانے کی تحریک شروع کردی۔انگریز سرکار کےنزدیک اِس کی قیادت کے لیے شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسمعیٰل یا اس خانوادے کے پیروکار سید احمد شہید سے بہتر کون ہوسکتا تھا۔اُنہوں نے انگریزوں کے زیر کمان علاقوں میں جہاد کا نعرہ بلند کرکے مسلمان"مجاہدین" کی فوج بھرتی کی۔رنجیت سنگھ کے خلاف لڑنے کے لیے چندہ اکٹھا کیا اور پھر انگریزوں کی ہی باجگزار ریاست ٹانک(راجستان) کے والی امیر محمد خان کے ہاں ان فوجوں کی تربیت کا بندوبست کیا۔اور1826ء میں یہ لوگ انگریزوں ہی کے زیر کمان علاقے سے فوج لے کر رنجیت سنگھ کی ریاست کے شمال میں یوسف زئی پٹھانوں کے علاقے میں پہنچ گئے جو سید احمد شہید کے اتحادی بن چکے تھے۔یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ انگریزوں کی باجگزار ریاست ٹونک کا والی امیر محمد خان بھی یوسف زئی پٹھان تھا اور اُس نے انگریزوں کے کہنے پر نہ صرف سید احمد شہید کے مجاہدین کی فوج کو تربیت دی بلکہ پشاور کے اپنے یوسف زئی قبیلے کے پٹھانوں سے اُن کا اتحاد بھی کرادیا۔"("پنجاب کٹہرے میں"صفحہ 315 تا صفحہ 325 ،مطبوعہ ساگر پبلشرز لاہور2022ء) ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق "سکھوں کے خلاف جنگ کے لیے انہوں نے سرحد کے علاقے کو اس لیے اختیار کیا کہ شمالی ہندوستان میں پٹھانوں کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ بڑے مذہبی جنگ جو اور مذہب کی خاطر جان دینے والے ہوتے ہیں۔ اس لیے سید احمد اور ان کے پیرو کاروں کا شاید یہ خیال ہو کہ چونکہ ان کی تحریک خالص مذہبی ہے، اس لیے جیسے ہی وہ اپنا منصوبہ ان کے سامنے رکھیں گے پٹھان فوراً ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوجائیں گے اور ان کی مدد سے وہ سکھوں کے خلاف موثر طور پر لڑ سکیں گے۔ چونکہ یہ جنگ مذہب کے لیے ہوگی، اس لیے پنجاب کے مسلمان بھی ان کا ساتھ دیں گے۔"( ڈاکٹر مبارک علی، ”المیہ تاریخ“، باب 11،صفحات 107 ۔ 121، فکشن ہاؤس لاہور، 2012) "چنانچہ سید احمد شہید نے پشاور پہنچ کر شمال سے سکھوں کی ریاست پر حملہ کردیا۔یہ لڑائی 1831ء تک جاری رہی، جب تک کہ سکھوں نےسید احمد کے اتحادی پٹھانوں ہی کو خرید کر مسلمان مجاہدین کو شکست دے کر سیداحمد اور شاہ اسمعٰیل کو شہید نہ کردیا۔یوںسیداحمد اور شاہ اسمعٰیل کی ان معرکہ آرائیوں سے انگریزوں کے مقاصد پورے ہوگئے ۔یہ تحریک مجاہدین کا شاخسانہ تھا کہ پنجاب کے اندر سکھوں کے خلاف نفرت اور جہاد کے جذبات سرایت کرگئے اور پنجاب میں آباد مسلمان جو خانقاہوں اور بڑی بڑی جاگیرداریوں کے مالک تھے ، پنجاب کو سکھوں سے آزاد کروانے کے لیے اپنے مغل بادشاہ کے اتحادی انگریز کے مددگار بن گئے۔ گویا سید احمد کی تحریک مجاہدین انگریزوں کی اُس مہم کا حصہ تھی جس کے تحت وہ پنجاب کے مہاراجہ اور اس کی مسلمان رعایا کے درمیان نفاق پیدا کرکے پنجاب میں اپنا راستہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔"("پنجاب کٹہرے میں"صفحہ 315 تا صفحہ 325 ، مطبوعہ ساگر پبلشرز لاہور2022ء) قارئین محترم ! ہ وہ نقطہ نظر ہے جو"امجد نواز وڑائچ" صاحب نے اپنی حالیہ کتاب"پنجاب کٹہرے میں"صفحہ 315 تا صفحہ 325 ،مطبوعہ ساگر پبلشرز لاہور2022ء میں پیش کیا ہے ۔خیال رہے کہ سیداحمد شہید اور مولوی اسمعٰیل کی تحریک جہاد کی حمایت اور مخالفت کے حوالے سے پہلے بھی کئی نقطہ نظر سامنے آچکے ہیں۔یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ "سید احمد شہید کی تحریک نہ تو سکھو ں کے خلاف کوئی کامیابی حاصل کرسکی اور نہ سرحد میں اسلامی معاشرے کا قیام ممکن ہوسکا ۔ جب 1849ء میں پنجاب پر انگریزوں کا قبضہ ہوا تو اس نےسختی سے اس تحریک کو ختم کردیا اور ان پر 1870ءتک ”وہابی مقدمات “چلائے گئے جن میں ملوث علماء کو مختلف سزائیں دی گئیں۔ آخر میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس کو اہلحدیث کا نام دے کر انگریزی حکومت سے مصالحت کرلی، اور جہاد کی مخالفت میں ایک رسالہ بھی لکھا۔ "( ڈاکٹر مبارک علی، ”المیہ تاریخ“، باب 11،صفحات 107 ۔ 121، فکشن ہاؤس لاہور، ،2012ء ،مزید تفصیل کے لیے اشاعۃ السنہ ص 24 تا 26 شمارہ 2‘ جلد 11 دیکھئے) اس تناظر میں اس تحریک کا درست تجزیہ کرنے کی ضرورت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ہمارے ریاستی نصابی موقف اور تاریخی حقیقت میں بہت تضاد ہے۔اور یہ تضاد تب ہی دور ہوسکتا ہے جب ہم جناب امجد نواز وڑائچ صاحب کی تحقیق کے نتیجے میں اُٹھنے والے درج ذیل سوالات کے جوابات کا درست تعین کرسکیں۔ ---------------- 1:۔کیاسید احمد شہید شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیز کے مرید اور پیروکار اور ان کی تحریک مجاہدین دراصل اسی مکتبہ فکر کی توسیع ،تسلسل ار آئینہ دار نہ تھی۔؟ 2:۔برصغیر کے مسلمانوں کی علمی رہنمائی کرنے والا خانوادہ شاہ ولی اللہ اور مدرسہ رحیمیہ کی جانب سے کیا 1857ء کی جنگ آزادی تک کوئی ایک ایسا موقع آیا جو اِس گھرانے نے انگریزوں کا راستہ روکنے کے لیے کوئی فتوی دیا ہو۔؟ 3:۔1761ء میں مرہٹوں کے قلع قمع کے لیے احمد شاہ ابدالی کو خط لکھنے والے شاہ ولی اللہ 1757ء میں انگریز کے ہاتھوں بنگال کی فتح(جس نے ہندوستان میں مسلم طاقت کے خاتمہ پر مہر ثبت کردی) کو کیوں نظر انداز کردیتے ہیں؟ کیوں خاموش رہتے ہیں ؟ اور کیوں اُس کے خلاف برصغیر کے مسلمانوں کو نہیں جگاتے ؟اور کیوں کسی بیرونی طاقت سے مدد طلب نہیں کرتے۔؟ 4:۔1803ء میں انگریز کے دہلی سلطنت پر قبضے کے بعد سید احمد بریلوی کے مرشد اور شاہ ولی اللہ کے سب سے بڑے بیٹے شاہ عبدالعزیز اور پوتے شاہ عبدالحئی دو الگ الگ فتویٰ میں ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کرمسلمانوں کو غیر مسلم حکومت کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی صورت میں دارالحرب میں رہنے ،اور سود پر رقم ادھار دینے کی اجازت تو دیتے ہیں مگر مسلمانوں کو ہجرت اور انگریز قابضین کے خلاف کسی بھی طرح کے جہاد کا فتویٰ کیوں نہیں دیتے۔؟ (واضح رہے کہ ان دونوں فتوؤں میں کہیں بھی جہاد کا ذکر نہیں بلکہ مسلمانوں کو عیسائیوں کے زیر نگیں ہندوستان میں اسلامی قوانین سے ہٹ کر کاروبار کرنے ،رہائش اختیار کرنے اور انگریزی زبان سیکھنے کی حمایت موجود ہے۔پھر جہاں تک دارالحرب کے فتوی کا تعلق ہے تو کسی جگہ کا دارالحرب قرار پا جانے کے بعد پہلا تقاضا ہجرت ہوتاہے ، لیکن ہمیں اس وقت کے ہند کے مسلمانوں یا تحریک مجاہدین کے دوران کم از کم پنجاب کے مسلمانوں سے اس کا مطالبہ کیوں نظر نہیں آتا۔ ؟) 5:۔کیاسید احمد شہید کا انگریزوں کے زیر کمان علاقوں سے چندہ اور اسلحہ جمع کرنے سے لے کر رضا کاروں کی بھرتی اور سکھوں کے خلاف اعلان جہاد تک کی پوری مہم میں کہیں کوئی ایسامقام بھی آتا ہے جس وہ اور ان کی تحریک مجاہدین انگریزوں کے خلاف نظر آتی ہے ۔؟ 6:۔ کیا یہ درست نہیں کہ جب شاہ اسمعٰیل سے لوگوں نے اس بارے میں سوال کیا تو اُنہوں نے انگریزوں کے حق میں واضح موقف اپنایا۔ اور کہا کہ " سرکار انگریز گو منکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پرکوئی ظلم نہیں کرتی اور نہ ان کو عبادات سے روکتی ہے ہم ان کے ملک میں اعلانیہ وعظ کہتے ہیں انہوں نے کبھی منع نہیں کیا تو پھر ہم سرکار انگریز کے خلاف کس وجہ سے جہاد کریں ۔"یا یہ کہ سرکار انگریز سے ہمارا مقابلہ نہیں اور نہ ہمیں اس سے کچھ مخاصمت ہے۔ ہم صرف سکھوں سے اپنے بھائیوں کا انتقام لیں گے۔ (محمد جعفر تھانیسیری،حیات سید احد شہید صفحہ 171) 7:۔1831ء میں سید احمد بریلوی کی شہادت کے بعد بھی اُن جانشین عنایت علی اور ولایت علی جو سکھوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف رہے ۔ وہ کیوں 1849ء میں پنجاب پر انگریزوں کی فتح کے بعد انگریز کے کہنے پر یہ دونوں جانشین جہاد ترک کرکے اپنے آبائی وطن بہار لوٹ گئے۔؟کیا اُن کا یہ طرزعمل اس بات کی عکاسی نہیں کہ اُنہیں یہ مشن انگریزوں نے ہی تفویض کیا تھا ؟جس کی بخوبی تکمیل کے بعد وطن واپسی کی ہدایت بھی اُنہیں اپنے آقا سے ملی۔ 8:۔ جب تک سکھوں کے خلاف انگریز کو ان مجاہدین کی ضرورت تھی تب تک اُس نے تحریک کی مکمل حوصلہ افزائی کی۔مگر کام مکمل ہونے اور پنجاب پر قبضہ کے بعد وہ مجاہدین جو انگریز کے کہنے پر واپس اپنے گھروں کو نہیں گئے،باغی قرار دے کر فوجی مہمات میں کچلے گئے۔کیا یہ بعینہ وہی سلوک نہیں جو بیسویں صدی میں افغان مجاہدین کے ساتھ امریکہ نے کیا۔؟ -----
|