عمران خان انقلاب کی دستک

ولادی میر لینن نے کہا تھا ’’بعض عشرے ہوتے ہیں جب کوئی بڑا واقع ظہور پذیر نہیں ہوتا ہے۔لیکن بعد ہفتے ایسے ہوتے ہیں جن میں عشرے واقع ہوجاتے ہیں۔ جب سے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں یہ13جماعتی مخلوط حکومت دارالحکومت میں متمکن ہوئی ہے اس میں تو عشرے بلکہ صدیاں واقع ہو رہی ہیں۔انقلاب ابتلان اور سنگین بحرانوں کے بعد ہی صورت پذیر ہوتے ہیں۔ جب رجعت پسند اپنے فرسودہ اور ظالمانہ نظام کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں اور انقلابیوں کی جدوجہد کے سامنے ان کی مزاحمت بڑھتی رہتی ہے۔جیسے جیسے انقلابی آگے آگے بڑھتے ہیں تو پرانی مشینوں کے نٹ ‘پرزے تھک تھک کر مشین کی روانی میں خلل ڈال رہے ہوتے ہیں۔اس طرح جگا ڑ سے چلتا نظام بھی جھٹکے لیتا دکھائی دیتا ہے۔ایک غلطی پر دوسری غلطی ایک طرف مزاحمت کرنے والے انقلابیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے دوسری طرف ناانصافیوں‘ غلط کاریوں‘ نا ہمواریون, گرفتاریان۔مقدمات کا سلسلہ ہائے دراز‘ قاتلانہ حملوں کی بوچھاڑ بے نقاب ہوتی رہتی ہے۔

ہماری سیاسی تاریخ میں وہ افراد جو وطن کی تعمیر و ترقی کیلئے ناگزیریت تھے اور آخری امید بتائے جاتے تھے ان کو بے چارگی سے اپنے ہاں صلیبوں پر لٹکتے دیکھا۔ ایشیا اور یورپ میں بھی ایسے مناظر دیکھے جس میں مطلق العنان‘ امر بھی بے بس نظر آئے ان دونوں صرف اخبارات اطلاعات کا ذریعہ تھے۔ کیا کسی نے سنجیدگی سے سوچنے اور غور و فکر کرنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ عمران خان کی کامیابی اور بے پناہ مقبولیت کا راز کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی بھان متی کا کنبہ بھی تحریک انصاف کو شکست دینے میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکا۔حکومتی اتحاد واویلا کرتا رہا کہ عمران خان خوابوں کا سوداگر ہے اور پاکستان کے نوجوانوں کو فریب کاری کے ساتھ اپنے ساتھ ملا ہوا ہے۔ بعض افراد کی یہ سوچ غلط ہے کہ عمران خان نے پاکستان مسلم لیگ نون کا ووٹ توڑا ہے اور بعض بلا تحقیق یہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے پیپلز پارٹی کا ووٹ توڑا ہے‘ لیکن سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے بوسیدہ جماعتوں کا زنگ آلود اور چٹی دلالی سے آلودہ ووٹ مستعار لینے کی بجائے نوجوانوں کو ٹارگٹ بنا کر اپنی حمایت میں اضافہ کیا ہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اپنے جامد نظریات اور طرز عمل کو ترک کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ انہیں اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے۔وقت ان کو روندتے ہوا آگے بڑھ رہا ہے اور یہ جماعتیں ماضی کے کارناموں پر اترا رہی ہیں۔ عمران خان نے اپنی سیاست کی بنیاد نوجوانوں کے ولولوں پر استوار کی ہے۔ اقوام متحدہ ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 64فیصد آبادی 30سال سے کم عمر نوجوانو ںپر مشتمل ہے۔ماضی میں کبھی اتنی بڑھی تعداد معاشرہ کا حصہ نہ رہی ہے۔یہ رحجان 2050 تک جاری رہے گا۔ اگر آپ رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد میں اضافے کا رحجان دیکھیں تو معلوم ہو گا اس ملک کی تقدیر نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے اور قیادت منتخب کرنے کے حوالے سے ان کا کردار کلیدی ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اس وقت 122 ملین رجسٹرڈ ووٹر میں سے 56 ملین یعنی 45.84 فیصد ووٹر 35سال کی عمر تک کے ہیں۔ ان میں سے 23.58 ملین یا 19.46 فیصد وہ نوجوان ہیں جن کی عمریں 18 سال سے 25 سال تک ہیں۔گویا ان میں سے پیشتر 2023 ء کے انتخابات میں پہلی بار ووٹ کاسٹ کریں گے قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان ووٹر کی تعداد میں لگا تار اضافہ ہو رہا ہے گزشتہ 9 سالوں کے درمیان 37 ملین نئے ووٹوں کا اندراج ہوا ہے اور عمران خان نے انہی نوجوان ووٹرون کو اپنا ٹارگٹ بنایا ہے۔ کچھ سمجھنے والوں کو سمجھنا چاہیے تھا کہ حالات اور ماحول تبدیل ہو چکا ہے۔کہ یہ وہ زمانہ نہیں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کسی کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے۔ اگر ماضی کا زمانہ ہوتا تو عمران خان کا بھی وہی حشر ہوتا جو ذوالفقار علی بھٹو کا ہوا تھا۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔حکومتی کی طرف سے رنگا رنگ پریس کانفرنسوں کے ذریعے عوام الناس کا دل بہلانے اور تحریک انصاف پر الزامات لگانے کے علاوہ ان کا کوئی مقصد نہیں ہے۔عوام کی بھاری اکثریت عمران خان کے ساتھ ہے۔ عمران خان جو کچھ دلیری اور جان ہتھیلی پر رکھ کر کہہ رہا ہے پہلے کسی میں ہمت نہیں تھی۔ بھٹو کا حشر تاریخ کا حصہ ہے۔نواز شریف کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ نعرہ داتا دربار تک پہنچتے پہنچتے دم توڑ چکا تھا۔عمران اقتدار میں رہتے تو شائد غیر مقبول ہو جاتے لیکن سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمران خان کو ہٹایا گیا۔حکومت ہٹانے کے بعد قومی منظر نامہ قطعی طور پر تبدیل ہو گیا۔ عمران خان کی جرات نے لوگوں ولولہ تازہ سے آشنا کردیا ۔جرات و ہمت کی وجہ سے لوگ عمران خان کے ساتھ دلیری کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔عمران خان جاہ طلب یا بزدل ہوتا تو گوشہ عافیت میں پناہ لے لیتا یا کہیں لندن بھاگ جاتا۔ لوگ ہمیشہ مرد میدان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ عمران کی دلیری اور عوام الناس کے جذبات نے تحریک حقیقی آزادی کو دوآشتہ کر دیا ہے۔ پہلے ملک میں ایک غیر متوازن صورت حال موجود تھی ۔عمران خان اس غیر متوازن نظام کو متوازن نظام لانے کیلئے انتھک کوشش کر رہا ہے۔موجودہ حکمران اداروں کی آوازیں نکال رہے ہیں۔
 

Syed Haseeb Shah
About the Author: Syed Haseeb Shah Read More Articles by Syed Haseeb Shah: 53 Articles with 39648 views I am Student i-com part2.. View More