دنیائے ادب کے باکمال دانشور
ٹالسٹائی نے کہا تھا اگر اپ جبر و ظلم امریت اور استعماریت کے خلاف
میدان کازار میں اترنے کا ملکہ نہیں رکھتے تو تب اپنے دلوں میں انکے
خاتمے کی امنگ تو پیدا کرلو۔قرائن سے یہ حقیقت سچائی کا روپ دھار چکی
ہے کہ لیبیا میں کرنل قذافی کی طویل ترین حاکمیت کا سورج کسی بھی لمحے
غروب ہوسکتا ہے۔ سقراط نے کہا تھا ڈکٹیٹرشپ کا آفتاب طلوع تو بانکی
نرالی اور انوکھی شان سے ہوتا ہے مگر اسکا غروب باعث عبرت بنتا ہے
کیونکہ اسی غروب کے بعد اسکا طلوع ہمیشہ کے لئے تاریک اندھیروں میں گم
ہوجاتا ہے۔ وائس اف امریکہ کے مطابق کرنل قذافی اپنے آڈیو پیغام میں
اپنے جانثاروں علمائے کرام اور نوجوانوں سے بار بار اپیلیں کررہے ہیں
کہ وہ باغیوں کا قلع قمع کردیں۔ قذافی مخالفین نے طرابلس کا کنٹرول
سنبھال لیا ہے مگر کہیں کہیں طرفین کے مابین آگ و خون کی ہولی کھیلی
جارہی ہے۔ قذافی کی اپیلیں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نامی مقولے سے
لگاکھاتی ہیں۔قذافی کو چاہیے کہ وہ مزید خون بہانے اور لاشوں کے پشتوں
کے پشتے لگانے سے گریز کریں۔لیبیا دیگر عرب ملکوں کی طرح معدنی وسائل
کے سمندر بہہ رہے ہیں۔امریکہ سمیت اتحادی ناٹو مسلم ملکوں کی معدنی
دولت پر شب خون مارنے کی خاطر جنگ و جدال کا میدان گرم کئے ہوئے
ہیں۔BBCکے مطابق باغیوں کو بن غازی میں ناٹو نے فوجی تربیت دی باغیوں
کو مسافروں کے بھیس میں طرابلس میں اندر بھیجا گیا جنہوں نے ناٹو
احکامات اور فوجی حکمت عملی کے تحت لڑائی کا آغاز کیا جسکا دائرہ کار
طرابلس شہر کے کونے کونے میں ہوگیا۔امریکہ اور حلیفوں نے قذافی کے تخت
پر اپنے ہرکاروں کو فائز کروانے کے لئے فوجی کاروائی کی جسے مرمیڈان کا
نام دیا گیا۔uno کی چھتری تلے یہود و ہنود نے قذافی کے دھڑن تختے کی
خاطر ناٹو کو لیبیا پر فضائی حملوں کا مینڈیٹ دیا۔باغیوں کی کامیابی
میں ناٹو کے فضائی حملوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔لمحہ فکر تو یہ ہے
کہ کیا اس طرح حکومتوں کی تبدیلی مناسب اور آئینی ہوگی؟ اس سوال کا
جواب ہے نہیں۔ عالمی اخلاقی آئینی معاشرتی طور پر کسی فوج یا ملک کو
کسی دوسری حکومت کو بارود اور خون کے چھڑکاؤ سے تبدیلی کا کوئی اختیار
نہیں۔ یہ حق وہاں کی عوام کا ہے کہ وہ جمہوری انداز میں حکومت کو رخصت
کریں مگر لیبیا میں ناٹو اور امریکہ کی جارحیت ثابت ہوچکی ہے۔ باغیوں
کی دستگیری اور لیبیائی عوام کے تحفظ کا نعرہ ہانک کر جو کاروائی کی
گئی اس سے اس نقطے کو تقویت ملتی ہے کہ ناٹو نے یو این او کی حدود سے
بھی تجاوز کیا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ uno تو امریکہ اور بڑی طاقتوں کی
بلاتکارزدہ آلہ کار کا کردار ادا کررہی ہے۔گو unoسے مسلم دنیا کو کوئی
ریلیف و انصاف نہیں ملتا۔unoکو شرم آنی چاہیے اسکے کارندوں کو جائزہ
لینا چاہیے کہ کیا ناٹو کی کاروائی پاس کردہ قرارداد کے عین مطابق ہے
یا آؤٹ آف وے۔باغیوں کی عبوری کونسل کے سربراہ عبدالجلیل نے کہا ہے کہ
قذافی کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔عبوری کونسل نے قذافی کی گرفتاری
پر1.67 ملین ڈالر کے انعام کا اعلان کیا ہے۔کیا یہود و ہنود کے کارندے
اور عبوری کونسل انعامات کا لالچ دیکر لیبیا میں صدام حسین کی تاریخ کو
زندہ کرنا چاہتے ہیں؟ عبوری کونسل کو زہن نشین کرنا چاہیے کہ صدام حسین
عراقی میرجعفروں کے زہنی خلجان اور ہوس اقتدار کے بانکوں اور نور
المالکیوں کی ضمیر فروشی کے کارن باوقار انداز میں پھانسی کی سزا پاگئے
مگر مستقبل کا مورخ جب بغداد کی تاریخ مرتب کریگا تو صدام ہسٹری کے
سنہری صفحات پر ہنس رہا ہوگا جبکہ وطن فروش نفرت اور ذلت کی گھاٹیوں
میں قصہ پارینہ بن جائیں گے۔اٹالین نیوز سروس کو انٹرویو دیتے ہوئے
کونسل کے سرخیل نے کہا کہ وہ آٹھ ماہ میں منصفانہ الیکشن منعقد کروائیں
گے۔ لیبیا میں تبدیلی امریکہ اور اسکے مدح سراوں کی سینہ زوری غنڈہ
گردی اور ہٹ دھرمی کی انتہاہے تاہم تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے آنا
چاہیے کہ عوام کے جمہوری حق کو تادیرکبھی دبایا نہیں جاسکتا۔گلوبل ویلج
کی دنیا میں کوئی قوم دوسروں سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتی۔کسی بادشاہ یا
امر کو عالمی دھارے میں لانے کے لئے قوت بارود میزائلوں کا قہر درست
نہیں اور یہ بھی غلط ہے کہ باغیوں کو فنڈنگ اور اسلحہ دیکر کسی ملک میں
خانہ جنگی کروادی جائے۔ حالات کو اس نہج تک لانے والے خود حکمران طبقات
ہیں جو سالہا سال تخت نشین بنے رہتے ہیں اور سیاہ و سپید کے مالک بن
جاتے ہیں وہ بے رحم عالمی حقیقتوں اور لمحہ بہ لمحہ بننے والی عالمی
سازشوں کا ادراک نہیں کرپاتے۔صدام مبارک حسنی تیونس و بحرین کے صدور
مناسب موقع پر اقتدار منتقل کردیتے تو وہ آج خود بھی چین کی بانسری بجا
رہے ہوتے اور عوام بھی مصائب و الام سے چھٹکارہ پا چکے ہوتے۔ناٹو کی
بمباری نے طرابلس کو بغداد کی طرح کھنڈرات میں بدل دیا۔عراقی نو سال کے
بعد بھی اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو پائے اور وہاں دہشت گردانہ
کاروائیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ایک اندازے کے مطابق2010 میںلیبیا کی
فی کس آمدنی11314 ڈالر جبکہ جی ڈی پی74.232 بلین ڈالر تھی۔کیا اب یہی
اعداد و شمار قائم رہ سکتے ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ لیبیائی تیل کی دولت میں
سے مونگ پھلی جتنی رقم عوامی فلاح پر خرچ ہوگی دیگر امریکہ اور ناٹو
ممالک کی انرجی ہوس کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔امریکی ادارے پینٹگان نے
اعلان کیا ہے کہ لیبیا میں کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے۔کیا یہ
زخیرہ عراقی جراثیمی ویپنز ایسا تو نہیں جسکے متعلق سابق امریکی
وزیرخارجہ کولن پاول روزانہ شائیں شائیں کرتے۔ عراق کی اینٹ سے اینٹ بج
گئی مگر جراثیمی ہتھیاروں کے شوشے شعبدے ثابت ہوئے اج تک عراق کے زمین
و آسمان سے ایک اونس کا کیمیائی ویپن ہزار ہا کوشش از بسیار کے باوجود
نہ مل سکا۔عراقی صورتحال کی روشنی میں مناسب منصوبہ بندی کرکے لیبیا کو
عراق جیسی مخدوش شکل سے بچایا جاسکتا ہے۔مسلمانوں کو اس ایشو پر غور و
خوض کرنا ہوگا کہ ایک کے بعد دوسرے مسلمان ملک پر قبضہ کرنے کا مذموم
سامراجی کھیل جاری ہے۔اگر مسلمان اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کرتے تو امت
مسلمہ کو اسی طرح تخت و تاراج بنایا جاتا رہے گا۔یواین او نے امریکہ
اور اتحادی شیطانوں کو خدائی فوجدار کا لائسنس جاری کررکھا ہے کہ جب
چاہو امت مسلمہ پر چڑھ دوڑو۔ لیبیائی صدر قذافی کی آمرانہ بادشاہت پر
تنقید اور بحث کی گنجائش ہے مگر ناٹو کی جارحیت سے اتفاق کرنا اپنی
چھری سے اپنی گردن کاٹنے کے مترادف ہے۔ لیبیا ئی جنگ پر عرب لیگ اور
امت مسلمہ کی بے حسی قابل افسوس ہے۔لیبیا کے سقوط پر نہ تو مسلم
بادشاہوں کی آنکھیں چھلکیں اور نہ ہی ڈیڈھ ارب مسلمانوں نے ماتم کیا۔
سقوط غرناطہ سے لیکر سقوط ڈھاکہ تک کابل بغداد پر امریکی استبدادیت سے
لیکر سقوط لیبیا تک سارے مناظر امت مسلمہ کو اتفاق بھائی چارے یکجہتی
اور یک جان کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ٹالسٹائی نے کہا تھا اگر اپ ظلم و
جبر کے خلاف عملی جدوجہد نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنے دلوں میں اسکی
خواہش تو اجاگر کرو۔اقوام مسلم کو ٹالسٹائی کے جملے کی روشنی میں سقوط
لیبیا کی مذمت تو کرنی چاہیے۔ مسلم بادشاہوں مہاراجوں اور حکمرانوں نے
سقوط لیبیا کے بعد اپنی صفیں درست نہ کیں تو سامراجیت کا طوفان کسی اور
مسلم ریاست کو خش و خاک کی طرح بھسم کرسکتا ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ
آخر ہم کب تک سقوطوں کا درد سہتے رہیں گے۔ بحرف آخر آپریشن مر میڈان
قابل مذمت ہے۔ہمیں لب کشائی کی ہمت پیدا کرنی ہوگی جو امت کے اتحاد کی
جانب اہم پیش رفت ہوسکتی ہے۔ |