لوگوں کے جیسے اعمال ہوتے ہیں ویسے ہی ان کوپھرحکمران
ملتے ہیں۔ایک کے بعدایک ظالم ،جابراوربے حس حکمران سے واسطہ اورناطہ پڑنے
کے بعدرونا،دھونااورچیخناچلاناتوہم شروع کرتے ہیں لیکن آج تک ہم نے اپنے
دامن میں ایک باربھی یہ دیکھنا اورگریبان میں جھانکناگوارہ نہیں کیاکہ ظالم
حکمرانوں کی شکل میں یہ عذاب آخرہماری جھولی میں ہی کیوں گرتے
ہیں۔؟نوازشریف،پرویزمشرف،آصف زرادری،عمران خان اورشہبازشریف کے بارے میں
توہم نے پوراآسمان سرپراٹھایاکہ یہ ٹھیک نہیں۔لیکن کیاکسی کویادہے کہ ہم نے
کبھی ایک باربھی اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے یہ کہاہوکہ ہم بھی ٹھیک
نہیں۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ہرشخص سرسے پاؤں تک گناہوں میں رنگنے کے
بعدبھی کہتاپھرتاہے کہ میرے سواسارازمانہ خراب ہے۔ باہرکی دنیاوالے توہمارے
اس رونے دھونے اورچیخنے وچلانے کودیکھ کریہ سمجھتے ہوں گے کہ کہیں یہاں کے
حکمران ہی ظالم اور خراب ہیں لیکن ان کویہ نہیں پتہ کہ یہاں حکمرانوں سے
زیادہ عوام خرابی کے اعلیٰ درجے پرفائزہیں۔توشہ خانہ سے توگھڑی،گاڑیاں،سونے
اورچاندی کے زیورات و جواہرات حکمران اٹھاکرلے جاتے ہیں لیکن کیا۔؟ مساجدکے
وضوخانوں سے لوٹے اورخانہ خداسے لاؤڈسپیکر،بلب،جنریٹراوربیٹریاں بھی حکمران
اٹھاکرلے جاتے ہیں۔؟سچ تویہ ہے کہ یہاں کیاحکمران اورکیاعوام۔جس کاجوبس
اوروس چلتاہے وہ اتناہی پھرہاتھ دکھاتاہے۔اسی وجہ سے تو یہاں نہ توشہ خانے
محفوظ ہیں اورنہ ہی مساجدکے وضوخانے۔جہاں مساجدکوتالے اورواٹرکولرکے ساتھ
لگے گلاسوں کوزنجیریں لگی ہوں وہاں کے نہ حکمران نیک ہوسکتے ہیں اورنہ ہی
عوام ایمانداری ودیانتداری میں ایک۔یہاں اگرعوام کی اکثریت چور،ڈاکواوربے
ایمان نہیں تواکثریت چوروں،ڈاکوؤں اوربے ایمانوں کے سائے سے محفوظ بھی
نہیں۔شمارکے چندگنے چنے طبقوں یالوگوں کے علاوہ ہماری اکثریت نے
جھوٹ،فریب،دھوکہ ،بے ایمانی،خیانت اورمنافقت کواس وقت
اپنااوڑھنابچھونابنایاہواہے۔اﷲ کاکوئی خوف ہے اورنہ قبرحشرکاکوئی ڈر۔ہرشخص
مال ودولت اوردنیاکے پیچھے آنکھیں بندکرکے ایسے بھاگ رہاہے کہ اس بھاگ
دوڑکودیکھ کرخوف آنے لگتاہے۔ چنددن پہلے اپنی چاچی کی وفات پرگاؤں
جاناہواجہاں پھرکئی دن گزارنے پڑے۔لوگوں کی اسی ایمانداری کے ذکرپرایک دن
باتوں باتوں میں ایک رشتہ دارنے قریب کسی گاؤں کے ایک صاحب کی ایمانداری
کاایک واقعہ سنایاجسے سن کرہم تودنگ رہ گئے۔گاؤں میں چونکہ دودھ کی دکانیں
نہیں ہوتیں اس لئے جن کے پاس اپنی بھینس،گائے اوربکریوں کاانتظام نہیں
ہوتاوہ لوگ پھر بھینس رکھنے والوں سے ٹھیکہ لگاکران سے دودھ لیتے ہیں۔وہ
رشتہ دارخوابوں اورکتابوں میں بھینس رکھنے والے ایک صاحب کاذکرخیرکرتے ہوئے
کہہ رہے تھے کہ اس صاحب سے درجن کے قریب لوگوں نے دودھ کے لئے ٹھیکہ
لگارکھاہواتھاہرایک کووہ دواورتین کلودودھ وقت پردیتے تھے ٹھیکے سے ہٹ
کربھی جولوگ اس کے درپر دودھ لینے کے لئے جاتے وہ بھی اس کے گھرسے خالی
ہاتھ واپس نہ آتے ۔کہتے ہیں ایک بارمجھے دودھ کی ضرورت پڑی تومیں نے بھی اس
کے گھر کی راہ لی ۔ابھی میں اس کے گھرسے دورہی تھاکہ راستے میں ہی اس صاحب
کے ایک قریبی رشتہ دارجوادھرہی اس کے قریب کہیں رہائش پذیرتھے اورمیرے بہت
اچھے جاننے والے بھی تھے اچانک اس سے ملاقات ہوئی۔سلام دعاکے بعداس نے آنے
کی وجہ پوچھی تومیں نے دودھ کابتایاکہ اس کے گھرسے دودھ لینے آیاہوں۔یہ سن
کروہ چونک سے گئے کہ اس کے گھرسے دودھ۔؟میں نے کہاہاں دودھ۔وہ کہنے لگے کہ
پچھلے پانچ چھ مہینوں سے تو بھینس کیاکوئی بکری بھی اس کے پاس نہیں آپ کیسے
اس سے دودھ لینے آئے ہیں۔؟میں نے کہاکہ یارمذاق نہ کرہمارے گاؤں اوراڑوس
پڑوس میں توروزانہ درجن نہیں درجنوں لوگ اس سے دودھ لیکرجارہے ہیں۔یہ سن
کراس نے ایک زوردارقہقہہ لگایااورکہاوہ پھردودھ نہیں کچھ اورلیکرجارہے ہوں
گے۔اس کی یہ بات مجھے بڑی عجیب لگی میں نے کہاکہ میں کچھ سمجھانہیں ۔وہ
کہنے لگے یارکیاآپ کومیری زبان پریقین نہیں۔ میں حلفاًکہتاہوں کہ اس کے
گھرمیں بھینس اورگائے کیا۔؟کوئی بکری بھی نہیں۔جب بھینس،گائے اوربکری نہیں
توپھراس کے پاس دودھ کہاں سے آگیا۔وہ رشتہ دارکہہ رہاتھا بعدمیں جب میں نے
اپنے طورپرادھرادھرسے تحقیق کی توپتہ چلاکہ وہ پاؤڈرکے بنے خالص دودھ
کوبھینس کادودھ کہہ کرلوگوں کوپلاتے رہے۔معلوم نہیں کہ وہ کب سے یہ دھندہ
کر رہے تھے اورلوگ کب سے اس پاؤڈربنے دودھ کوبھینس کادودھ سمجھ کرپیتے
رہے۔یہ چونکادینے والی باتیں سن کرقریب بیٹھے ماسٹرفیصل نے میری طرف اشارہ
کرتے ہوئے کہا۔جوزوی صاحب صرف حکمران چوراوربے ایمان نہیں ۔اس واقعہ سے
اندازہ لگالوہم خودکتنے ایماندارہیں اوربحیثیت قوم ہماری اخلاقی،ایمانی
اورسچائی کی کیاحالت ہے۔؟جس ملک میں پاؤڈرگول کرکے اسے خالص دودھ کی قیمت
پربیچاجارہاہو ۔جہاں لوگوں کے دلوں میں اﷲ کاخوف اورقبرحشرکاذرہ بھی کوئی
ڈرنہ ہووہاں پھرظالم حکمران ہی آتے ہیں فرشتے نہیں۔کام ہم سب
چوروں،ڈاکوؤں،لوٹوں اورلٹیروں والے کررہے ہیں اورپھرامیدیہ لگائے بیٹھتے
ہیں کہ ہم پرکوئی فرشتہ یااﷲ کاکوئی ولی حکمرانی کے لئے آئے گا۔نیک،رحم دل
اوردردل رکھنے والے حکمران وہاں آتے ہیں جہاں کے لوگ بھی نیک،رحم دل اوردرد
ل والے ہوں ۔چوروں پرہمیشہ چوراورڈاکوہی مسلط ہوتے ہیں۔حکمرانوں
اورسیاستدانوں کوچوروڈاکوکہہ کرکوسنے کی بجائے سب سے پہلے ہمیں اپنے اپنے
گریبانوں میں جھانکناچاہئیے۔بندہ خودچوراورڈاکوہوکرجب دوسروں
کوچوراورڈاکوکہتاہے تویہ اچھانہیں لگتا۔ہم نے ساری زندگیاں دوسروں
کوچور،ڈاکواوربے ایمان کہہ کرگزاریں ہم اگرایک صرف ایک باربھی سچے دل کے
ساتھ اپنے گریبان میں جھانکتے تویقینناًہمیں کسی اورکوچور،ڈاکواوربے ایمان
کہنے کی جرات وہمت نہ ہوتی۔نوازشریف،آصف زرداری،مولانااورعمران خان کودن
رات چوروڈاکوکہنے والے ذرہ اپنے گریبان میں جھانک کردیکھیں کیاان سے پہلے
یہ خودچور،ڈاکواوربے ایمان نہیں۔؟اس ملک میں محلے کے ایک عام دکاندارسے
لیکرشاہی دربان پرمامورچپڑاسی تک ہرشخص دوسرے کولوٹنے میں مصروف
ہے۔حکمرانوں کوچوروڈاکوکہنے کی صدائیں بلندکرنے والے فروٹ وسبزی فروش
اورتاجربھی سودابیچتے وقت بے ایمانی کی وہ وہ تاریخیں رقم کرتے ہیں کہ اﷲ
کی پناہ۔اپنی جگہ ہرشخص کسی لاچار،بے بس اورمجبورکوڈسنے ولوٹنے کے لئے تاک
لگائے بیٹھارہتاہے مگرپھربھی اس کے نزدیک چور،ڈاکواوربے ایمان وہ نہیں
دوسرے ہیں۔جب تک ہم چوری اوربے ایمانی کے اس فارمولے اورتقسیم سے نہیں
نکلتے تب تک ہماراکچھ بننے والانہیں۔اﷲ کے قہرسے بچنے اوران حالات سے نکلنے
کے لئے سب سے پہلے ہمیں اپنے ہاتھ کی ان چارانگلیوں کی جانب دیکھناہوگاجن
کارخ دوسروں کی طرف اشاروں کے وقت ہمیشہ ہماری طرف ہوتاہے۔ کوئی مانیں یانہ
لیکن حق اورسچ یہ ہے کہ چور،ڈاکواوربے ایمان اگردوسرے ہیں
توایمانداراورفرشتے ہم بھی نہیں۔
|