ترکیہ خبررساں ادارے کوانٹرویودیتے ہوئے وزیراعظم
شہبازشریف نے کہاہے کہ ہمارے پاس دیوالیہ پن سے پیچھے ہٹنے کے لیے بہت کم
وقت ہے۔ ہمیں عوام کودرپیش مشکلات کاادراک ہے۔ بہترفیصلے کررہے
ہیں۔پالیسیاں طویل مدتی ہیں۔ ملکی معیشت کومتعدد عالمی اورملکی
چیلنجزکاسامناہے۔جب ملک کاچارج سنبھالاتو معیشت تباہی کے دہانے پرتھی۔پچھلی
حکومت کی معاشی پالیسیاں ترقی کی حامی نہیں تھیں اورمعیشت کومتعدد چیلنجوں
کی طرف لے گئیں ۔ معیشت کوضرورت سے زیادہ مالیاتی سختی،سپلائی سائیڈ
جھٹکے،طویل وہائی اثرات،سرمایہ کاروں کے اعتمادمیں کمی،مہنگائی کی بلندشرح
اورروس یوکریں تنازعہ کے اثرات کاسامناتھا۔انہوں نے کہاکہ اب میری حکومت نے
معاشی بدحالی سے نمٹنے کے لیے نئی پالیسیاں تشکیل دی ہیں۔آئی ایم ایف
پروگرام کی بحالی سمیت دیگر معاملات کوکنٹرول کرنے کے لیے بہترفیصلے کررہے
ہیں۔ شہبازشریف نے کہاکہ امسال آنے والے بدترین سیلاب نے ملک کوبہت زیادہ
نقصان پہنچایا جس کے باعث عوام کوبھی تکلیفیں اٹھاناپڑیں۔کسانوں اورتاجروں
کے لیے حال ہی میں اعلان کردہ پیکجوں سے معاشی سرگرمیوں کوتیزکرنے میں
مددملے گی۔
ٰٰٰٓ۲۶ اکتوبر۲۰۲۲ ء کے ایک قومی اخبارمیں ایک خبریوں شائع ہوئی ہے کہ
وزارت خزانہ نے کہاہے کہ معاشی مشکلات اورسیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث
موجودہ مالی سال کے دوران معاشی ترقی کی رفتارتوقعات کے برعکس کم رہے گی۔
ماہانہ اکنامک اپڈیٹ اینڈآؤٹ لک میں بتایاگیاہے کہ معاشی سرگرمیوں میں مندی
اورسیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث ٹیکس اورنان ٹیکس اہداف متاثرہوں گے۔ جس
سے بجٹ خسارہ بڑھنے کے خدشات ہیں۔ اس سال بجٹ خسارہ مجموعی قومی پیداوارکے
چاراشاریہ نوفیصدتک پہنچنے کے امکانات ہیں۔ جب کہ پہلی سہ ماہی میں اخراجات
کے مقابلے میں آمدن ۱یک سو۵۳ ارب روپے فاضل رہی۔وزارت خزانہ کاکہناہے کہ
اگرچہ پہلی سہ ماہی میں ملک کے تجارتی خسارے میں کمی ،برآمدات میں اضافہ
اوردرآمدات کی حوصلہ شکنی ہوئی تاہم وزارت خزانہ کاکہناہے کہ مالی سال کے
بقیہ ۹ ماہ میں یہ صورت حال برقرارنہیں رہے گی اوربرآمدات کم اوردرآمدات
زیادہ ہونے سے تجارتی خسارے میں اضافے کاخدشہ ہے۔ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ
ملک میں صنعتی پیداوارمیں کمی کے خدشات ہیں۔ سیلاب کے باعث فصلوں کی
پیداوارمتاثرہونے سے فوڈ سیکیورٹی کے خدشات ہیں۔آنے والے مہینوں میں
مہنگائی بڑھے گی سمندرپارپاکستانیوں کی ترسیلات زراکتیس ارب ڈالرکے قریب
رہیں گی۔
۲۰نومبر۲۰۲۲ء کے ایک قومی اخبارمیں وفاقی وزیرخزانہ کابیان کچھ اس طرح شائع
ہواہے کہ انہوں نے معیشت بارے افواہوں کوسختی سے مستردکرتے ہوئے کہاہے کہ
ڈیفالٹ کاخطرہ نہیں ملک پرترس کھائیں یہ ملک ان چندافرادکانہیں ۲۳کروڑ عوام
اورتمام سیاسی جماعتوں کاہے۔اس قسم کی گمراہ کن افواہیں پھیلا کراس کونقصان
نہ پہنچائیں۔پاکستان دسمبرمیں ایک ارب ڈالرکے سکوک بانڈزکی واپسی میں
ہرگزڈیفالٹ نہیں کرے گا۔دسمبرکے پہلے ہفتے میں یہ ادائیگی کردی جائے
گی۔آئندہ ایک سال میں واجب الاداقرضوں کی ادائیگی کامکمل انتظام کرلیاگیاہے۔
پاکستان کے کسی بھی قرض کی ادائیگی میں ڈیفالٹ کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس
سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کے بارہ ارب ڈالرسے بڑھنے اورزرمبادلہ کے ذخائرکم
ہونے کی اطلاعات غلط ہیں۔ اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پانچ ارب ڈالرسے چھ ارب
ڈالررہے گاجوقابل برداشت ہے۔ پاکستان کے کمرشل قرضوں کے کریڈٹ ڈیفالٹ رسک
کے خطرناک ۷۵فیصدبڑھنے کی اطلاعت غلط ہیں۔ ڈیزل اورپٹرول کی کوئی قلت نہیں
طلب کے مطابق ذخائرموجودہیں۔ اپنے ویڈیوپیغام میں وزیرخزانہ نے کہا کہ
گزشتہ چندروزسے منظم اندازکے ساتھ یہ افواہیں پھیلائی جارہی ہیں اورپاکستان
کوامداداورقرضے دینے والے مالیاتی ادارے کے حکام ان افواہوں پرہم سے ان کی
تصدیق یاتردیدکے لیے رابطہ کرتے ہیں ہمیں بلاوجہ انہیں وضاحتیں دینی پڑرہی
ہیں۔ ان افواہوں کے پیچھے سیاسی مقصدہیں۔ ان افواہوں سے ملکی معیشت
اورعالمی مالیاتی اداروں سے پاکستان کے تعلقات پرمنفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
جوہرگزپاکستان کے مفادمیں نہیں ہیں۔اٹھائیس نومبرسال دوہزاربائیس کے ایک
قومی اخبارمیں ہے کہ اسحاق ڈارنے ٹی وی انٹرویومیں کہاہے کہ معیشت پرسیاست
ہمیشہ کے لیے بندہونی چاہیے اورتمام سیاسی جماعتوں کوہاتھوں میں ہاتھ ڈال
کرملک کو بھنو ر سے نکالناچاہیے۔جون ۲۰۲۳ء کے بجٹ میں عوام کوریلیف دیاجائے
گا۔بلوم برگ کے مطابق پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کاامکان ۱۰ فیصدہے۔ اسحاق
ڈارنے کہا کہ اگرآپ کی معاشی آزادی نہیں ہوگی توآپ اپنی حقیقی یاجمہوری
آزادی بھی برقرارنہیں رکھ سکتے۔ عمران خان ۱۰ ہزارارب روپے قرضہ کم کرنے
آئے تھے تاہم اس کو۲۵ ہزارارب روپے سے ۴۴ہزار۵۰۰ ارب روپے پرپونے چارسال
میں چھوڑ کرگئے۔ عمران پاکستان کومعاشی طورپرسیریس بھنورمیں پھنساکرچلے گئے
۔آئندہ سال اگست تک ملک میں معاشی طورپراستحکام آجائے گا۔رواں مالی سال کے
دوران پاکستان نے کل ادائیگیاں ۲۱یا۲۲ارب ڈالرزکرنی ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ
۱۰ سے بارہ ارب ڈالرکرنٹ اکاؤنٹ خسارے کوبھی کم کریں۔ اسحاق ڈارنے کہا کہ
روپے کی اصل قدرڈالرکے مقابلے میں دوسوروپے سے نیچے ہے۔
وفاقی وزیرمنصوبہ بندی ،ترقی اصلاحات وخصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہاہے
کہ موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ملک میں معاشی تبدیلی اوراستحکام
لانااورقومی ترقی کے سفرکودوبارہ شروع کرناہے۔ سال دوہزارسترہ اٹھارہ میں
ملک کی ۲۰۲۵ء تک دنیاکی ۲۵ بڑی معیشتوں میں شامل ہونے کے ہدف کوحاصل کرنے
کے قریب تھا۔۲۰۱۸ء میں عمران حکومت نے ملکی معیشت کابیڑاغرق کردیا۔اپنی
زیرصدارت مستقبل کے سماجی ،اقتصادی روڈ میپ پاکستان آؤٹ لک ۲۰۳۵ء شروع کرنے
کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس میں انہوں نے کہاکہ وزارت پاکستان کے مستقبل
کے ترقیاتی منظرنامے کی تعمیرکے بارے میں جلدایک جامع سٹڈی پاکستان آؤٹ لک
۲۰۳۵ء پرکام شروع کرے گی جوموجودہ بحران کی روشنی میں طویل مدنی
چیلنجزکاجائزہ لے گی اورکلیدی طورپرمعیشت کے شعبوں میں ملک کی
تیزرفتارسماجی،اقتصادی ترقی کے لیے پالیسی سازوں کے لیے عالمی چیلنجزکے
مطابق انتخاب کی نشاندہی کرے گی۔ وفاقی وزیرنے کہا کہ پاکستانی معیشت
کوبنیادی ڈھانچہ جاتی تبدیلیوں اورنئی برآمدات کی ترقی کے فروغ کی ضرورت ہے
جوکم ازکم ایک دہائی تک مستقل پالیسی فریم ورک پرعمل کرکے ہی حاصل
کیاجاسکتاہے۔احسن اقبال نے کہا کہ پہلے دن سے ہماری اولین ترجیح ملک میں
معاشی تبدیلی اوراستحکام لانااورقومی ترقی کے سفرکودوبارہ شروع کرنا ہے۔
اگرہم ڈیڑھ دہائی بعدمعمول کے مطابق کاروبارکرتے ہیں توپاکستان آؤٹ لک
۲۰۳۵ء ہمیں یہ سمجھنے میں مددکرے گاکہ ہم اس وقت کہاں ہیں اورہم کہاں جارہے
ہیں اورمستقبل میں کہاں کھڑاہوناہے۔ پاکستان مسلم لیگ کے
سینیئرراہنمااورسابق وفاقی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہاہے کہ پاکستان
کاڈیفالٹ رسک خطرناک حدتک پہنچ گیادسمبرمیں بانڈزادائیگی کے بعدبھی ڈیفالٹ
کاخطرہ برقراررہے گا۔ قرض دہندگان کوٹھوس اقدامات کی فوری یقین دہانی کرانا
ہوگی ۔ حکومت نے درست قدم نہ اٹھایاتوپھرپی ٹی آئی پرتنقیدکاحق نہیں۔ اپنے
ٹویٹرپیغام میں مفتاح اسماعیل نے مزیدکہاکہ مجھے نہیں معلوم کہ ڈالرکی
بہترین شرح کیا ہے۔صرف مارکیٹ اس کاتعین کرسکتی ہے۔ گزشتہ سال درآمدات ۸۰
ملین ڈالراوربرآمدات ۳۱ملین ڈالرتھیں۔وزیرخزانہ اسحاق ڈارکومشورہ دیاان کی
نمبرون ترجیح یہ نہیں ہونی چاہیے کہ درآمدات کوآسان اوربرآمدات کومشکل
بنایاجائے۔سابق وزیرخزانہ نے اپنے ایک اخباری آرٹیکل میں لکھاتھا پی ٹی آئی
کی جانب سے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے معاہدے پرعمل نہ کرنے سے
ڈیفالٹ کارسک بڑھا۔ہمارے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔۲۰۱۳ء سے ۲۰۱۸ء کے
دوران برآمدات میں ۳۸فیصدکمی ہوئی اوربرآمدات میں کمی سے دوسرابڑاکرنٹ
اکاؤٹ خسارہ ہوا۔پی ٹی آئی کے آئی ایم ایف معاہدے پرعمل نہ کرنے سے معیشت
کومشکلات آئیں۔تاہم ہم نے آئی ایم ایف سے دوبارہ معاہدہ کیاجس کے باعث مشکل
فیصلے کرناپڑے۔ سات نومبرسال سوہزاربائیس کے ایک قومی اخبارمیں ہے کہ
چوہدری شجاعت حسین نے اتحادی حکومت کی کارکردگی بارے کہا کہ مشکل صورت حال
میں حکومت سنبھالنے کاعمل ملک کے بہترین مفاد میں تھا ۔ملک پردیوالیہ ہونے
کے خطرات منڈلارہے تھے۔میں سمجھتاہوں کہ حکومت کوچاہیے کہ معاشی بحالی اپنی
جگہ مگرغریب کے حوالے سے بھی فکرکریں اوراس کو روزگاردیں۔چوہدری شجاعت حسین
نے کہا کہ مفاداتی سیاست بدقسمتی، مذاکرات کے بغیرملک آگے چل سکتا نہ معیشت
۔سیاست دان طرزعمل پرنظرثانی کریں ۔وضع داری سے عاری سیاست قومی مفادمیں
نہیں۔پاکستان سنی تحریک کے سربراہ محمدثروت اعجازقادری نے کہا ہے کہ حکومت
اوراپوزیشن کی سیاسی چپقلش سے ملکی معاشی صورت حال کوشدیدنقصان پہنچاہے۔
حکومت اوراپوزیشن اقتدارکی جنگ کے بجائے عوام کے مسائل حل اورمعاشی استحکام
کے لیے کام کرتے توملک ترقی کی جانب گامزن ہوتاحکمرانوں کی منفی پالیسیوں
نے قوم کومعاشی پریشانی میں مبتلاکرکے ملک کوبحرانوں کے سامنے
کھڑاکردیاہے۔غریب عوام کوحکومتی سطح کوئی ریلیف نہیں دیاجارہا،ملکی معیشت
ومضبوط و مستحکم نہ بنایاگیاتو حالات مزیدپیچیدہ اورخانہ جنگی کی صورت حال
ہوسکتی ہے۔جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق نے کہا ہے کہ تینوں بڑی سیاسی
پارٹیاں ملک کومعاشی مسائل سے نکالنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔پی ڈی ایم اورپی
ٹی آئی کی ہوس اقتدارنے ملکی مسائل بڑھادیئے ۔ کشکول مشن سے ملک معاشی
طورپرکمزورہوچکا ۔شیخ رشیدکاکہناہے کہ ملک کوڈیفالٹ سے بچانے کے لیے
جلدازجلدالیکشن کراناضروری ہیں۔ ورنہ ملک ڈیفالٹ کرجائے گا۔اب تومفتاح
اسماعیل بھی کہہ رہے ہیں کہ بانڈزکلیئرہونے کے باوجودملک ڈیفالٹ ہوسکتاہے۔
ایکسپورٹ،ترسیلات ،زرمبادلہ کے ذخائرکم اور اسٹاک ایکسچینج بھی ٹھس ہوگئی
ہے۔ پٹرول،گیس ،ڈالرمہنگااورنایاب ہے۔اسمبلیاں بچانے پرمشورے ہورہے ہیں۔ملک
اورتباہ حال معیشت بچانے پرکام نہیں ہورہا۔
اﷲ نہ کرے وطن عزیزپاکستان پرکبھی بھی ایساوقت آئے کہ ہماراپیاراملک
جواغیارکی آنکھوں میں کانٹے اوردشمنان پاکستان کے گلے میں ہڈی کی طرح
کھٹکتاہے معاشی طورپردیوالیہ ہوجائے۔ ملک پاکستان کی غیورعوا م پریہ معاشی
مشکلات پہلی بارنہیں آئیں۔پاکستان عوام اس سے پہلے بھی شدیدمعاشی مشکلات
کوشکست دے چکی ہے۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی قوم اس باربھی
معاشی مشکلات کامقابلہ کرتے ہوئے ان مشکلات کوایک بارپھرشکست دینے میں کام
یاب ہوجائے گی۔ تاہم وزیراعظم ،موجودہ وفاقی وزیرخزانہ اورسابق وزیرخزانہ
کے معیشت کے حوالے سے متضادبیانات سنجیدہ شہریوں کوسوچنے پر ضرورمجبورکررہے
ہیں۔ ملک کوموجودہ معاشی صورت حال تک لانے میں کس کاکتناکردارہے اس کے بارے
میں پاکستانی قوم بخوبی جانتی ہے۔
قومی معیشت کودرپیش مشکلات اورچیلنجزسے بچانے اورملک میں معاشی استحکام
اورترقی کے لیے ہمیں بحیثیت قوم چندفیصلے ضرورکرناہوں گے ، سود ، کرکٹ
اورسگریٹ پرفوی پابندی لگاناہوگی۔ کسی بھی سیاست دان پر ایک سے زیادہ
نشستوں پرالیکشن لڑنے پرپابندی ہونی چاہیے۔ کوئی بھی سیاست دان قومی
یاصوبائی کسی ایک نشست پرہی الیکشن لڑسکے۔اس سے ضمنی الیکشن کم سے کم ہونے
کی وجہ سے ملک کاقیمتی سرمایہ بچانے میں مددملے گی۔پبلک ٹرانسپورٹ کو پٹرول
،ڈیزل اورگیس سے بجلی پرمنتقل کرناہوگا جس کاآغازبھی ہوچکاہے اس سے ماحول
پربھی مثبت اثرپڑے گا۔ موجودہ حکومت کابجلی کے تمام نئے پلانٹ داخلی وسائل
پرلگانے کافیصلہ بھی قومی سرمائے کوبچانے میں نمایاں طورپرمددگارثابت ہوگا
۔ ملک کے تمام سیاست دانوں کوچاہیے کہ وہ ایک دوسرے کونیچادکھانے،اسمبلیاں
تحلیل کرنے، استعفے دینے ،عدم اعتماداوراعتمادکے ووٹ کے بجائے ملک کی معیشت
کوبچانے کے لیے تمام تراختلافات بھلاکریک جان دوقالب ہوجائیں۔ حالات اوروقت
کاتقاضاہے کہ ہمارے تمام سیاست دانوں کی ترجیح اسمبلیاں بچانااورتحلیل
کرنااورفوری انتخابات کے بجائے معیشت کوبچاناہوناچاہیے۔
|