پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سربراہ اور سابق صدر
مملکت آصف علی زرداری نے گزشتہ روز ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ "عام
انتخابات سے قبل عمران خان گرفتار ہوسکتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ وہ نااہل
ہوجائیں"۔
سابق صدر مملکت کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ تحریک انصاف کے دور اقتدار میں
جب کچھ وفاقی وزراء ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر اپوزیشن رہنمائوں کی گرفتاریوں
کی پیشگوئیاں کیا کرتے تھے تو پیپلزپارٹی اور پی ڈی ایم کے رہنما کہا کرتے
تھے کہ حکومت نیب اور دوسرے اداروں کو اپوزیشن کے خلاف استعمال کررہی ہے۔
تحریک انصاف کے برعکس طویل جمہوری جدوجہد کی شہرت رکھنے والی پیپلزپارٹی کے
سربراہ جوکہ ملک کے صدر مملکت بھی رہ چکے ہیں، کا یہ کہنا کہ عمران خان
آئندہ عام انتخابات سے قبل نااہل یا گرفتار ہوسکتے ہیں، پیشگوئی ہے یا
وفاقی حکومت میں شامل اتحادیوں کا "پروگرام"۔
ہماری دانست میں پیشگوئی اور پروگرام دونوں ہی درست نہیں ہوں گے۔
سابق وزیراعظم کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس اب عدالتی سماعت کا حصہ ہے۔ توہین
عدالت کے ایک کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ بہت واضح ہے تو دوسرے
کیس میں سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران عدالت کہہ چکی کہ اب معاملہ عدالت
کا ہے۔
توشہ خانہ کے تحائف کی فروخت کو ابھی تک حکومت غیرقانونی ثابت نہیں کرپائی
اس معاملے کا اخلاقی پہلو یکسر الگ ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم
اور اس کے اتحادی عمران خان کو مائنس کرکے سیاست اور انتخابات کے خواہش مند
ہیں؟ بظاہر سابق صدر مملکت کے حالیہ انٹرویو سے تو یہی تاثر پیدا ہوا ہے۔
ایسا ہی ہے تو پھر لوگوں کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ چونکہ عمران خان کا
سیاسی میدان میں مقابلہ نہیں کرپایا جارہا تھا اس لئے انہیں نااہل قرار دیا
گیا یا سزا دلوائی گئی۔
بہتر ہوگا کہ اس منفی روش کو نہ اپنایا جائے جس کا خود ماضی میں پی ڈی ایم
اور پیپلزپارٹی کے رہنما نشانہ بنتے رہے ہیں۔ جہاں تک عمران خان کی جانب سے
دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان پر آصف علی زرداری کے ردعمل کا
تعلق ہے تو وہ بجا ہے۔
خیبر پختونخوا اور پنجاب میں اپوزیشن اتحاد اگر دستوری طور پر اسمبلیوں کو
تحلیل ہونے سے نہیں بچاسکتا تھا تو اس صورت میں ان دونوں اسمبلیوں کے
انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہوگا۔ پی ٹی آئی اور اس کے مخالفین کے
لئے دو صوبائی اسمبلیوں کا انتخابی عمل مقبولیت جانچنے کا پیمانہ ہوسکتا ہے
البتہ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے جن ارکان قومی اسمبلی کے
استعفے ابھی تک منظور نہیں ہوئے ان کے حوالے سے حکومتی اتحاد اور سپیکر کیا
فیصلہ کرتے ہیں۔
ان استعفوں کے حوالے سے قانونی موشگافیوں کو یقیناً نظرانداز نہیں کیا
جاسکتا۔ اصولی طور پر مستعفی ارکان کا فرداً فرداً سپیکر کے پاس پیش ہوکر
مستعفی ہونے کی تصدیق کرنا ضروری ہے یہی دستوری تقاضا بھی ہے۔
پی ٹی آئی نے جماعتی طور پر اپنے مستعفی ارکان کو سپیکر کے سامنے پیش ہونے
سے روکا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ہمارے ارکان ایوان میں اجتماعی استعفوں
کے وقت موجود تھے نیز یہ کہ اس وقت کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے جوکہ قائم
مقام سپیکر کے فرائض ادا کررہے تھے استعفے منظور کرلئے تھے۔ اس اقدام کے
بعد کا سارا عمل غیرقانونی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مستعفی ارکان میں سے بعض نے سپیکر قومی اسمبلی راجہ
پرویز اشرف کی جانب سے استعفوں کی منظوری کے نوٹیفکیشن کو اسلام آباد
ہائیکورٹ میں چیلنج بھی کیا۔ اسی طرح اگر پی ٹی آئی اجتماعی استعفوں پر
مصر ہے تو سپیکر کو چاہیے کہ نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن کو بھیجے تاکہ دو
صوبائی اسمبلیوں کے ساتھ قومی اسمبلی کی ان نشستوں پر بھی انتخابات ہوجائیں
جن سے پی ٹی آئی کے بقول اس کے ارکان مستعفی ہوچکے ہیں۔
یہ امر بھی بہت واضح ہے کہ عمران خان نے دو صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے
یا انہیں تحلیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا فیصلہ مشاورت سے کیا جائے
گا۔ خیبر پختونخوا میں ان کی جماعت اتحادی بیساکھیوں کے بغیر اقتدار میں ہے
عین ممکن ہے کہ وہاں وزیراعلیٰ پارٹی چیئرمین کے حکم پر اسمبلی تحلیل کرنے
کی ایڈوائس گورنر کو بھجوادیں۔
پنجاب میں البتہ گوں مگوں کی صورتحال ہے۔ چودھری پرویزالٰہی آدھے منٹ میں
تعمیلِ حکم کا اعلان تو کرچکے ہیں مگر وہ بھی اس امر سے آگاہ ہیں کہ سپریم
کورٹ کے جس فیصلہ کی بنیاد پر وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے ہیں وہی فیصلہ
پنجاب اسمبلی کی تحلیل میں رکاوٹ ثابت ہوسکتا ہے۔
ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین ہیں سپریم کورٹ پارٹی سربراہ کی مسلمہ
حیثیت کو تسلیم کرچکی۔ ان حالات میں اس سوال کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا
کہ اگر ق لیگ کے 10ارکان پنجاب اسمبلی کو پارٹی سربراہ وزیراعلیٰ کی رائے
کے خلاف جانے کی ہدایت کرتا ہے تو کیا اپنی ہی جماعت کی پارلیمانی پارٹی کا
اعتماد سے محروم شخص بطور وزیراعلیٰ اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس گورنر کو
بھیج سکتا ہے۔
یہ کہ کیا اگر وہ اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیج بھی دیتا ہے اور
پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ مختلف ہے تو پھر کیا ہوگا؟
غالباً یہ اور کچھ دوسری وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر جمعہ کو پی ٹی آئی کے
رہنما اور سابق وزیر قانون و اطلاعات فواد حسین چودھری کے سابقہ دعوے کے
مطابق دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ ہوپایا نہ اس حوالے سے کوئی
اعلان ہوا۔ اسمبلیوں کی تحلیل کے لئے اعلان کردہ مقررہ دن سے ایک روز قبل
فواد چودھری کا یہ بیان ضرور سامنے آیا کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی
صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ کرنے میں ابھی ایک ہفتہ مزید لگ سکتا
ہے۔
فواد چودھری کے اس بیان سے ان اطلاعات کو تقویت ملی کہ پیشگی مشاورت کے
بغیر 26نومبر کو راولپنڈی کے جلسہ میں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے یا تحلیل
کرنے کا اعلان تحریک انصاف کے اندر بھی قابل قبول نہیں۔
گزشتہ روز پی ٹی آئی کے سینئر وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کی
صدارت میں منعقدہ مشاورتی اجلاس میں ارکان کی اکثریت کی رائے یہ رہی کہ
صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے معاملے میں عجلت سے کام نہ لیا جائے۔ بعض
ارکان نے قومی اسمبلی سے دیئے گئے استعفوں کی عدم منظوری پر بھی سوالات
اٹھائے۔
اندریں حالات اس امر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اگر دونوں صوبوں اور
خصوصاً پنجاب اسمبلی میں مشترکہ پارلیمانی پارٹی کی اکثریت یا فیصلے پر
اثرانداز ہوسکنے کی ایک معقول تعداد نے اسمبلی تحلیل کرنے کے معاملے پر
ساتھ نہ دیا تو کیا ہوگا؟
بادی النظر میں یہی محسوس ہورہا ہے کہ مشاورت کے نام پر معاملے کو آئندہ
سال جنوری کے اختتام یا کسی طرح مارچ تک گھسیٹا جائے گا تاکہ حکومت سے جاری
بیک ڈور مذاکرات میں اپریل یا مئی میں عام انتخابات کروانے کے حوالے سے
کوئی اتفاق رائے پیدا ہوسکے۔
یہ امر خود پی ٹی آئی کی قیادت پر بھی عیاں ہے کہ اگر بلوچستان اور سندھ
کی صوبائی اسمبلیاں تحلیل نہ ہوپائیں تو قبل از وقت انتخابات کے لئے تاریخ
مشکل سے ہی ملے گی۔ ان دونوں صوبوں کا بڑا حصہ سیلاب سے متاثر ہے اور
متاثرین کی بحالی میں ابھی چار سے پانچ ماہ لگ سکتے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے معاملے پر تنہا پرواز کی
بجائے پی ٹی آئی اگر حکومت سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے تو عین ممکن ہے
کہ کوئی درمیانی راستہ نکل آئے۔ یہاں اس امر کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت
ہے کہ پی ٹی آئی مذاکرات چاہتی ہے تو پھر اسے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا
ہوگا۔
اس حوالے سے گزشتہ روز سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے ایک سوال کے جواب
میں کہا کہ کسی ایسی جماعت اور شخص سے کیسے مذاکرات ہوں گے جو لغو بیانی
اور دشنام طرازی سے آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہو۔
ان کے بقول پی ٹی آئی اگر عام انتخابات کے قبل از وقت انعقاد کے لئے
مفاہمت چاہتی ہے تو پہلے زبان دانی کے ان مظاہروں سے گریز کرے جس سے سیاست
میں تلخیاں اور نفرتیں پیدا ہوئیں۔
یہ امر واقع ہے کہ پی ٹی آئی کی ساری سیاست اور اٹھان زبان دانی کے
مظاہروں کی بدولت ہے کیا وہ اس کے برعکس رویہ اپناسکے گی؟
اس سوال کا جواب تحریک انصاف ہی دے سکتی ہے اور اس جواب سے ہی مستقبل کا
منظرنامہ واضح ہوگا۔
|