کشمیر فائلز : اور جوتا چل گیا

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا سب سے بڑا فلمی میلہ انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا- آئی ایف ایف آئی کے 53 ویں ایڈیشن نے نہ صرف نمائشی تھیٹروں کے دروازے کھول دیئے بلکہ اس کے اختتام پر نیشنل ایوارڈ یافتہ فلم’ کشمیر فائلس‘ پر دوٹوک تبصرمیں اسے ایک شرمناک پروپیگنڈا اور فحش فلم قرار دے کر حق گوئی کا حق ادا کردیا۔ یہ مشیت کا دلچسپ انتقام ہے۔ نادا لاپڈ کو کشمیر فائلز کی دلدادہ حکومت ہند نے فیسٹیویل میں بلایا۔ وزیر اطلاعات و نشریات نے ان کو نہ صرف جیوری بلکہ اس کی سربراہی پر فائز کیا ۔ مودی سرکار کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ایک یہودی فلمساز کشمیر فائلز پر ایسی سخت تنقید کرے گا ۔ وہ تو سوچ رہے تھے کہ نادا لاپڈ کشمیر کے جنگجووں کا فلسطینیوں سے موازنہ کرکے کشمیر فائلز کو بہترین فلم کے اعزاز سے نواز دے گا لیکن سارے کیے دھرے پر پانی پھر گیا ۔ لاپڈ نے اختتامی تقریب میں ببانگ دہل کہہ دیا :’’ کشمیر فائلس فلم ہم سب کے لیے پریشان کن اور چونکا دینے والی تھی، یہ ہمیں ایک پروپیگنڈا، فحش فلم لگ رہی تھی، ۔ ممتاز فلمی میلے کے فنی، مسابقتی حصے کے لیے وہ غیر مناسب ہے‘‘۔

اس بار تقریب کا مرکزی موضوع "گزشتہ 100 سالوں میں ہندوستانی سنیما کا ارتقاء" تھا۔ اس موقع پر ’گولی مارو سالوں کو‘ فیم وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے ہندوستانی سنیما کے ایک صدی سے زیادہ کے سفر کو یاد کرتے ہوئے کہا۔ "1913 وہ سال تھا جب ہندوستان نے سنیما کی دنیا میں اپنا سفر شروع کیا تھا، ہماری فلموں نے ہماری بھرپور تاریخ اور زبان سے ایسے دھاگوں کا انتخاب کیا، جن کا اثر آج سرحدوں، زبان کی رکاوٹوں اور ثقافتوں سے ماورا ہے۔ دادا صاحب پھالکے، ایم جی آر، شیواجی گنیسن، راج کپور، ستیہ جیت رے، ایم ٹی راماراؤ اور بہت سے دوسرے لوگوں نے فلمی دنیا کو اپنے کندھوں پر اٹھایا ہے۔ ‘‘۔ وزیر موصوف کی فہرست میں مسلمان’بہت سے دوسرے لوگوں ‘ میں تھے۔ اس سال داغِ مفارقت دینے والی باوقار فلمی ہستیوں لتا منگیشکر، پنڈت برجو مہاراج، تبسم کو بھی خراج تحسین عقیدت پیش کرتے ہوئے وہ یوسف خان (دلیپ کمار) کو بھول گئے ۔

اس منصوبہ بند سازش کے شواہد فیسٹیویل میں ہر سوُ موجود تھے مثلاً اسٹیئرنگ کمیٹی کے اراکین بوبی بیدی، ہریشتا بھٹ، ایشوریہ رجنی کانت، نکھل مہاجن، پرسون جوشی، روی کوٹاکارا، شوجیت سرکار اور وانی ترپاٹھی اور تکنیکی کمیٹی کے چیئرمین اے کے بیر میں مسلمان اسی طرح غیرموجود تھے جیسے کابینہ سے غائب ہیں ۔نامور فلم سازوں اور اداکاروں کے ساتھ 23 'ماسٹر کلاسز' اور 'ان کنورسیشن' سیشنز کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ وی وجیندر پرساد کی اسکرین رائٹنگ میں ماسٹر کلاس ، اے سریکر پرساد کی ایڈیٹنگ پر اور انوپم کھیر کواداکاری کی کلاس لینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی باقی غیر ملکی تھے۔ ’ان کنورسیشن‘ سیشنز میں آشا پاریکھ، پرسون جوشی، آنند ایل رائے، آر بالکی اور نوازالدین صدیقی سمیت دیگر لوگوں کو دعوت دی گئی تھی ۔ ٹھاکر صاحب نوازالدین صدیقی کو بھی نظر انداز کردیتے تو ان کا مشن عصبیت پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتا ۔

اس سال فیسٹیول میں 79 ممالک کی 280 فلمیں شامل تھیں۔ ہندوستان کی 25 فیچر فلمیں اور 19 غیر فیچر فلموں کو ’انڈین پینورما‘ میں دکھایا گیا جبکہ 183 فلمیں بین الاقوامی پروگرامنگ کا حصہ تھیں ۔ ہندی فلموں کے پریمیئرز میں پریش راول کی دی اسٹوری ٹیلر، اجے دیوگن اور تبو کی دریشیم 2، ورون دھون اور کریتی سینن کی بھیڑیا اور یامی گوتم کی لوسٹ کو شامل کیا گیا تھا ۔ تیلگو فلم، ریمو، دیپتی نیول اور کالکی کوچلن کی گولڈ فش اور رندیپ ہوڈا اور الیانا ڈی کروز کی تیرا کیا ہوگا لولی کا پریمیئر بھی منعقد ہوا۔ اس کے علاوہ ودھندھی، خاکی اور فودا سیزن 4 جیسے او ٹی ٹی شوز کاایک ایک ایپی سوڈ کا بھی دکھایا گیا۔ان میں سے بہترین فلم کے انتخاب کی خاطر بین الاقوامی جیوری برائے افی 53، کی قیادت اسرائیلی فلم ہدایتکار اور مصنف نداو لیپڈ کے حوالے کی گئی ۔ ان کے ساتھ ہسپانوی دستاویزی فلم ساز جیویئر اینگولو بارٹیورین، امریکی فلمسازجنکوگوٹوہ، فرانسیسی ایڈیٹر پاسکل چوانس، اورہندوستانی مصنف اور ہدایت کار سدیپتو سین بھی پینل میں شامل تھے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے کشمیر فائلس کے علاوہ کسی فلم پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔

کشمیرفائلس وہ فلم ہے جس کی وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے بھی تعریف کی تھی مگر 53ویں بین الاقوامی فلم فیسٹیول کے سربراہ جیوری نے اسے پروپگنڈہ اوبے ہودہ قراردے دیا۔ اسرائیلی فلم ساز ناڈاو لاپڈ نے کہا کہ فیسٹیول میں فلم کی نمائش سے جیوری کے تمام اراکین ششدر رہ گئے۔ اس فلم میں واقعات کو جانبدرانہ طریقہ سے پیش کیا گیا ہے جس کی مختلف گوشوں سے مذمت کی گئی۔ لیپڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ فلم دی کشمیر فائلس ہمیں فلم ولگر اور پروپیگنڈے پر مبنی لگی۔ اس طرح کی فلم ایسے باوقار فلمی فیسٹیول کے لیے مناسب نہیں ہے۔ اس تقریب کے دوران لیپڈ نے بین الاقوامی کامپٹیشن میں 15 فلمیں دیکھیں۔ان کے مطابق اس میں سے 14 فلمیں سنیمیٹک فیچرز والی تھیں لیکن 15ویں فلم دی کشمیر فائلس سب کے لیے حیران وپریشان کن تھی۔ لیپیڈ کے اس بیباک بیان پر وہاں موجود اسرائیلی سفیر ناور گیلون کو معذرت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

اسرائیلی فلم ساز ناڈاو لاپڈ نے کہا تھا کہ میں بیباکی سے اپنی بات رکھ سکتا ہوں اس لیے کہ یہاں تنقید کو برداشت کیا جاتا ہے اوراس پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے لیکن ان کی یہ توقع غلط ثابت ہوئی ۔ اس تقریب کے دولہا انوپم کھیر نے لیپڈ پر بہتان تراشی کرتے ہوئے اس بیان کو منصوبہ بند قرار دے دیا ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ٹول کٹ گینگ ایک بار پھر سرگرم ہوگیا ہے اور ایشور لیپڈ کو عقل دے۔ سوال یہ ہے کہ ٹول کٹ گینگ کو اس تقریب میں دعوت دے کر اس کے منصوبے کو شرمندۂ تعبیر کرنے کاموقع کس نے کیا ؟ کیا وزیر اطلاعات انوراگ ٹھاکر بھی اس سازش کا حصہ ہیں ؟ اور اگر ایسا ہے تو انہوں نے وزیر موصوف کو جیوری چیف کی حقیقت سے آگاہ کیوں نہیں کیا؟ نادو لیپڈ ان کی مانند کوئی للو پنجو اداکار نہیں بلکہ عالمی سطح پر شہرت یافتہ فلم ساز، ہدایت کار اور اسکرین رائٹر ہیں۔ انہوں نے 2019 میں برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں فلم سائنونیمس (Synonyms)کے لیے گولڈن بیئر ایوارڈ جیتا تھا جبکہ انوپم کھیر کی فلموں کو وہاں شمولیت کی سعادت تک نہیں ملتی ۔

53 ویں بین الاقوامی فلم فیسٹیول کے ایفی ٹیبل ٹاک میں انوپم کھیر نے کہا تھا کہ "یہ(کشمیر فائلز) سچے واقعات پر مبنی ایک فلم ہے۔ فلم ڈائریکٹر وویک اگنی ہوتری نے فلم کے لیے دنیا بھر میں تقریباً 500 لوگوں کا انٹرویو کیا۔ 19 جنوری 1990 کی رات وادی کشمیر میں بڑھتے ہوئے تشدد کے بعد 5 لاکھ کشمیری پنڈتوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ اس فلم نے اس سانحے کو دستاویزی شکل دے کر زخموں پر مرہم رکھنے کا عمل شروع کیاہے ‘‘۔انہوں نے تعریف و توصیف کے پُل باندھتے ہوئے کہا تھا کہ دی کشمیر فائلز ان کے لیے صرف ایک فلم نہیں ہے، بلکہ اسکرین پر دکھائے گئے جذبات ہیں۔ اس فلم میں ان کے آنسو اور درد حقیقی ہیں۔ اس فلم میں انہوں نے بطور اداکار اپنے فن کے بجائے حقیقی زندگی کے واقعات کی پس پردہ سچائی بیان کرنےکی خاطر اپنی روح کا استعمال کیا۔ ان کے مطابق فلم کا اصل موضوع کبھی ہار نہ ماننا ہےاورہمیشہ پرامید رہنا ہے۔ اب اگر کوئی شخص کسی فلم کے حق میں اس طرح آسمان و زمین کے قلابے ملائے اور جیوری کی جانب سے اسے بیہودہ پروپگنڈا قرار دیا جائے تو اس کی جو درگت ہوگی وہی حال بیچارے انوپم کھیر کا ہوا۔ ان کو کشمیر سے پنڈتوں کے نقل مکانی پر اتنا افسوس نہیں ہوا ہوگا کہ جتنا اس حقیقت پسندانہ تبصرے پر ہوا ہے۔

کشمیر فائلز کی مخالفت کرنے والے لیپڈ تنہا نہیں ہیں۔ ملک کی انصاف پسند دانشوروں اور مذہبی رہنماوں نے بھی اس کی خوب مخالفت کی تھی۔ اس گھناونےپروپگنڈے کی مخالفت کرنے والوں میں شر پوار پیش پیش تھے ۔ انہوں نے یاد دلایا تھا کہ جب وادی سے کشمیری پنڈتوں کا اخراج شروع ہوا تو وی پی سنگھ وزیر اعظم تھے اور ان کی حکومت کو بی جے پی کی حمایت حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ مفتی محمد سعید وزیر داخلہ تھےجن کے ساتھ بی جے پی نے کشمیر میں مخلوط حکومت بنائی اور جگموہن گورنر تھے جنھوں نے بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا ۔ سابق وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو کشمیر کی بحث میں گھسیٹنے پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھاکہ نریندر مودی حکومت اگر واقعی کشمیری پنڈتوں کے بارے میں فکر مند ہے تو اسے ان کی بحالی کی کوشش کرنی چاہیے۔ بی جے پی کو اس میں دلچسپی نہیں تھی بلکہ ٹیکس معاف کرکے اور مفت کی ٹکٹیں تقسیم کرکے اس کی تشہیر کررہے تھے ۔ شیوراج چوہان نے تو کشمیری پنڈتوں پر میوزیم بنانے کا اعلان کردیا تھا۔ پوار کے علاوہ اروند کیجریوال اور بھوپیش بگھیل نے بھی مخالفت کی تھی ۔ اس فلم پر عرب ممالک کے علاوہ نیوزی لینڈ اور سنگاپور میں بھی پابندی لگی تھی ۔ سیاست سے قطع نظر اب تو فنی اعتبار سے بھی کشمیر فائلز ’فیک ‘ ثابت ہوگئی۔لیپڈ نے کشمیر فائلز کو قومی ایوارڈ ملنے پر تعجب کا اظہار کیا لیکن وہ نہیں جانتے ’مودی ہے تو(کچھ بھی ) ممکن ہے‘۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449576 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.