مرنے سے پہلے ایک پھول

رضا علی عابدی کی کتاب جرنیلی سڑک پڑھی تو میں انکا گرویدہ ہوگیا 30نومبر کو انکا جنم دن ہے اور میں اس وقت مدینہ منورہ میں موجود ہوں یہاں اور بھی انکے چاہنے والے موجود ہیں خاص کر گگو منڈی سے تعلق رکھنے والے طلعت محمود اور سمندری سے آکر مدینہ منورہ میں پاکستانی کھانے کھلانے والے معطم النور کے مالک نور احمد نے فیصلہ کیا کہ ہم انکی سالگرہ کا کیک کاٹیں گے اﷲ تعالی انہیں صحت و تندرستی والی لمبی زندگی عطا فرمائے (آمین )عابدی صاحب کے بارے میں لکھنے سے پہلے ایک اور خوبصورت ہیرے پر لکھنا فرض سمجھتا ہوں جسے ہم مرنے سے پہلے ہی مٹی میں ملانے کی کوشش کررہے ہیں ہم پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں اور ہمارے حکمران تو ہیں ہی عجیب و غریب جو زندگی میں انسان کو زندہ درگور کرتے رہتے ہیں اور مرنے کے بعد تعزیت ،مالی امداد اور پھول چڑھانے پہنچ جاتے ہیں گزژتہ چند روز سے ایک تصویر سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے ایک شخص بھکرے بالوں کے ساتھ سڑک پر سویا ہوا ہے اور نیچے لکھا ہوا ہے کہ یہ تصویر کسی عام فقیر کی نہیں بلکہ اس شخص کی ہے جسکی لکھی تحریریں پاکستان کی سرحدوں کے پار بھارت میں بھی بڑھے شوق سے پڑھی جاتی تھیں جب میں نے انکا نام لکھ کر گوگل سرچ کیا تو حیران و پریشان کا جھٹکا لگا کہ ہم اپنے ہیروز کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں اﷲ تعالی ہم پر کیسے مہربان ہوگا پھر جوں جوں انکی کہانی پڑھتا گیا تو مجھے اپنی پستیوں کا احساس ہوتا گیا یہ تصویرسجاول تحصیل ٹھٹہ (سندھ) سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف کہانی نویس اور ناول نگار محترم مشتاق کاملانی صاحب کی تھی کاملانی صاحب سندھ یونیورسٹی جامشورو کے ذہین ترین طالب علموں میں سے ایک تھے مشتاق احمد کاملانی فر فر انگریزی بولنے کے ساتھ ساتھ فارسی، پنجابی اور اردو ایسے بولتے ہیں جیسے یہ بھی آپکی مادری زبانیں ہی ہوں مشتاق احمد کاملانی نے اپنے افسانے گونگی بارش اور چپٹا لہولکھ کر سندھی افسانہ نگاری میں وہ نام پیدا کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے انکا نام کہانی اور افسانہ نگاروں کی صفحہ اول کی فہرست میں شمار ہونے لگاکاملانی صاحب نے اپنا ناول رو لواس وقت لکھا تھا جب وہ گریجویشن کاامتحان دے رہے تھے جنرل ضیاء الحق مرحوم کے مارشل لاء کے زمانے میں ایک کہانی گھٹی ہوئی فضا کے نام سے بھی لکھی ہے اس نامور ادیب کے چھوٹے سے گھر پر قبضہ کرلیا گیا پولیس نے پکڑ لیا ذہنی ٹارچر کیا تو پھر اسکے بعد یہ نہ سنبھل سکے حکومت اور وہ بھی پیپلز پارٹی کی ہو تو پھر کیسے ان ادیبوں اور صحافیوں کا خیال رکھا جاتا ہے ہم سبھی خوب جانتے ہیں یہ وجہ ہے کہ اب یہ سالوں سے دن کے وقت ٹھٹہ کی گلیوں میں اور رات کو سجاول کے بس سٹاپ پر بھیک مانگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہتے ہیں کہ کاملانی صاحب کے چہرے پر آپ کو بیک وقت دو مخالف تاثرات دیکھنے کو ملیں گے آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پر انسانیت پر طنزیہ مسکراہٹ اور ہم ہیں کہ بے حسی کی تمام منزلیں پارکرچکے ہیں ہم 21 کروڑ آبادی کے ملک میں اتنی بھی ہمت ،جرات اور بہادری نہیں کہ اپنے ہیروز کو خاک میں ملنے سے پہلے خاک ہونے سے بچا لیں مجھے لاہور میں سڑکوں پر پھرنے والے خود دار اور خوبصورت شاعر بابانجمی بھی یاد آتے ہیں جنکا مجسمہ بھارتیوں نے سجایا ہوا ہے اور ہم نے انہیں کیا دیا مجھے پاک فضائیہ کے ہیرو سیسل چوہدری بھی یاد ہیں جنکی تصویر ریگل چوک میں وہاں پر لگائی ہوئی ہے جہاں کوڑے کا ڈھیر لگا رکھا ہے میں اور فاروق آزاد جب وہاں سے گذرتے ہیں تو دکھ ہوتا ہے اپنوں پر کہ ہمارا ریہ کیسا ہے اب کچھ باتیں اپنے پسندیدہ مصنف جناب رضا علی عابدی صاحب کے بارے میں جوسچے اور محب وطن پاکستانی سفر نامہ نگار، صحافی، مصنف اور محقق ہیں انہوں نے عمر کا ایک عرصہ بی بی سی اردو ریڈیو میں گزارا کئی کتب کے مصنف و مو لف ہیں انکاپروگرام جرنیلی سٹرک اور کتاب نے تو بہت عرصہ تک دھوم مچائے رکھی رضا علی عابدی 30 نومبر 1936 کوہندستان میں پیدا ہوئے یوپی سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1950ء میں پاکستان آ گئے 13 برس کی عمرسے ہی اخبارون اور جرائد کے مطالعہ میں مصروف ہوگئے اور 20 برس کی عمر میں 1956ء میں لکھنا شروع کردیا 1965ء کی جنگ کو نہ صرف دیکھا بلکہ اس کو مکمل اخبار میں رپورٹ بھی کیا اس وقت آپ عملی طور پر روزنامہ حریت کے ساتھ منسلک ہوچکے تھے اس کے بعد انگلستان مزید تعلیم کے حصول کے لیے اسکالرشپ پر چلے گئے پھر 1972ء میں ا نہوں نے بی بی سی سے منسلک ہو کر عملی طور پر اپنے کیئرئرکا آغازکیا اور پھر بی بی سی کے پروگرام، ڈاکومنٹریاں تھیں اور رضاعلی عابدی تھے بی بی سی نے انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے اردو بولنے والوں کے دلوں میں جا بٹھایا 1996ء میں60 سال کی عمر میں ریٹارڈ ہوئے رضا علی عابدی نے اب تک 30 سے زائد کتابیں لکھیں ہیں جس میں 16بڑوں اور14کتابوں کا تعلق بچوں اور کے مسائل و عمر سے ہے آپکو بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کی طرف سے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی جہاں آجکل تعلیم دوست خوبصورت انسان ڈاکٹر اطہر محبوب وائس چانسلر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں میں سوچتا ہوں کہ ہم زندہ انسانوں کو اس قدر تکلیف دیتے ہیں کہ وہ مر جائیں اور جب وہ دنیا سے چلے جاتے ہیں تو پھر ہم انکی یادگاریں بناتے ہیں انکی یاد میں سیمینار کرواتے ہیں انکے بارے میں کالم لکھتے ہیں ااور انکی قبروں پر جاکر پھول چڑھاتے ہیں کیا یہ کھلی منافقت نہیں آج اگر ہم میں ڈاکٹر اطہر محبوب ،رضا علی عابدی ،بابا نجمی اور مشتاق احمد کاملانی جیسے لوگ موجود ہیں تو انکی قدر کرنی چاہیے آج انکے ہوتے ہوئے ہمیں انکی تعریفیں کرنی چاہیے تاکہ وہ مزید دلجمعی سے پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت کرتے رہیں خامیاں ہر انسان میں ہوتی ہیں ہمیں کسی کی خامیوں سے کیا غرض کل کو مرنے کے بعد ہم انکی قبر پھولوں سے بھی لاد دیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ہم آج جیتے جی کسی کو ایک پھول کیو ں پیش نہیں کرتے ایسا کرنے سے ہمیں کون روکتا ہے کیا ہمارا ضمیر مر چکا ہے میں ریاست مدینہ میں بیٹھ کر آپ سب کے لیے دعا گو ہوں اور خاص کر پاکستان کے لیے کہ وہ بھی ریاست مدینہ بن جائے ۔
 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 611907 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.