افغانستان میں پھر سے دہشت گرد حملوں میں اضافہ۰۰۰ شہر ایبک میں دھماکے کے نتیجہ میں16افراد جاں بحق

افغانستان میں پھر ایک دھماکہ۰۰۰ معصوم اور بے قصور بچے اور نوجوان دہشت گردوں کے حملوں میں جاں بحق ۰۰۰ آئے دن کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی جگہ داعش اور دیگر دہشت گردوں کی سرگرمیاں پھر عروج پر پہنچ رہی ہے ۔ طالبان انتظامیہ ایک طرف ملک میں شرعی قوانین پر سختی سے عمل کرنے کے احکامات صادر کررہی ہے تو دوسری جانب ظلم وبربریت کے ذریعہ بے قصور اور معصوم جانوں کا ضیاع ہورہا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہیکہ دہشت گرد آخر کیوں عام شہریوں کو ہلاک کررہے ہیں اور انکے کیا مقاصد و عزائم ہے جسے حاصل کرنے کیلئے وہ عام مقامات اور عام شہریوں پر حملے کرکے خوف و ہراس پیدا کرنے کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ داعش اور دیگر نام نہاد اسلامی تنظیمیں کی جانب سے معصوم اور بے قصور افراد کو جس طرح ہلاک کررہے ہیں اس سے اسلام کی شبہیہ خراب ہورہی ہے ۔ اسلام نے انسانی زندگی کی حفاظت کو اہم قرار دیا ہے جبکہ اسلام کے نام پرنام نہاد اسلامی تنظیمیں مسلمانوں پر حملے کرکے انہیں ہلاک کررہی ہیں۔ 30؍ نومبر کی شام افغانستان کے شہر ایبک جو دارالحکومت کابل سے دوسو کلو میٹر دور واقع ہے دھماکے سے دہل گیا۔ جس میں 16افراد جاں بحق اور 24دیگر زخمی بتائے جارہے ہیں۔ گذشتہ سال اگست میں امریکی اور نیٹو افواج کا راتوں رات انخلاء اور صدر اشرف غنی کا ملک سے فرار ہوجانا اور پھر طالبان کادوبارہ اقتدار میں آنا خوش آئند سمجھا جارہا تھا لیکن طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں درجنوں دھماکے ہوچکے ہیں جس میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ، زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری عسکریت پسند گروپ داعش (اسلامک اسٹیٹ) کے مقامی چیپیٹر نے قبول کی ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق دھماکے سے متعلق ایبک کے ایک ڈاکٹرنے بتایاکہ اس میں زیادہ تر نوجوان ہلاک ہوئے ہیں۔انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ تمام لوگ بچے اور عام شہری تھے۔رپورٹ کے مطابق صوبائی حکام نے دھماکے کی تصدیق کی ہے۔واضح رہے کہ 6؍ اگست کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک مصروف بازار میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 8 افراد ہلاک اور 22 زخمی ہو گئے تھے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عسکریت پسند گروپ داعش (اسلامک اسٹیٹ) نے اپنے ٹیلیگرام چینل کے ذریعے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔دیکھنا ہے کہ افغان طالبان داعش کی جانب سے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد کس قسم کی کارروائی کرتے ہیں ۔ اس سے قبل بھی داعش نے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہیکہ طالبان انتظامیہ داعش اور دیگر دہشت گرد افراد یا تنظیموں کی سرگرمیوں کو کچلنے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں یا پھر نہیں معلوم انہیں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۰۰۰

حنا ربانی کھر کا دورہ افغانستان کے بعد حجاب کے مسئلہ پر چہ مگوئیاں
اب یہ طالبان قیادت کی حمیت کو للکارنے والی بات ہے یا پھر افغانستان کی پردہ نشین خواتین کو جھنجھوڑتے ہوئے انہیں اپنے مقصد کے حصول کیلئے طالبان انتظامیہ کے خلاف پھر سے ایک مرتبہ کمر کس لینے کی ترغیب دینے کا انداز۰۰۰ حنا ربانی کھر وزیر مملکت برائے خارجہ پاکستان نے جس طرح طیارے سے اترکرافغانستان کے دارالحکومت کابل میں قدم رکھا اس موقع پر انکے سر سے دوپٹا(اوڑھنی) ہوا میں لہراتا ہواہٹ چکا تھا جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ افغانستان کی سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے اپنے سر کودوپٹے سے اچھے طریقہ سے ڈھانپ لیتی ۰۰۰اگر وہ ایسا کرتیں تو ان کے اس عمل سے افغانستان کا ہی نہیں بلکہ اسلام کا وقار آشکار ہوتا اور اسلام کی عظمت اور پاسداری کی وجہ سے انہیں دادِ تحسین حاصل ہوتی۰۰۰اور اس سے جمہوریہ اسلام پاکستان کو ہی نہیں بلکہ حنا ربانی کھر کو بھی قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا۰۰۰افغانستان میں شرعی قوانین نافذ ہیں اور افغان خواتین کیلئے مکمل حجاب لازمی ہے اس کا احساس حنا ربانی کھر کو ہونا چاہیے تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ طالبان حکومت کے نمائندوں نے حنا ربانی کھر کا استقبال مسکراہٹ کے ساتھ معمول کے سفارتی پروٹوکول کو مدّنظر رکھتے ہوئے ، تعظیماًاپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کیا ۔ حنا ربانی کھر نے بھی مودّبانہ انداز اپناتے ہوئے سلام کیا۔ پاکستانی وفد کی قیادت کرنے والی حنا ربانی کے سامنے افغان طالبان انتظامیہ کے نمائندوں نے جورویہ اپنایا تھا اس ضمن میں چہ مگیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ کوئی کہتا ہیکہ اب طالبان نے کس طرح ایک خاتون کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔لیکن اپنی بیٹیوں کو اسکول نہیں جانے دیتے۔حنا ربانی کھر کا دورہ ٔ افغانستان کئی تائیدی و تنقیدی باتوں کو جنم دے رہا ہے۔ خیر یہ سفارتی تعلقات اور دونوں ممالک کے درمیان بہتر روابط و تعلقات کا مسئلہ ہے ۔ واضح رہیکہ 29؍ نومبر منگل کو حنا ربانی کھر کی قیادت میں پاکستانی وفد نے افغانستان کا دورہ کیااس موقع پر دونوں ممالک کے درمیان کئی ایک امور پر بات چیت کی گئی۔ پاکستانی وفد کے دورہ کابل کے دوران حنا ربانی کھر نے طالبان کے نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی، نائب وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی، وزیر تجارت حاجی نور الدین عزیز سے ملاقات کیں، اس موقع پر باہمی دلچسپی کے امور سمیت افغانستان میں انفراسٹرکچر کی بحالی ، تعلیم ، صحت ،قیدیوں کی رہائی، ویزوں کی سہولت، کاروباری سہولیات اور دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق حنا ربانی کھر نے افغان وومین چیمبر آف کامرس سے تعلق رکھنے والی افغان کاروباری خواتین کے وفد سے بھی ملاقات کی۔ اس موقع پر حنا ربانی نے معاشرے میں خواتین کے کردار بالخصوص معاشی ترقی میں خواتین کے مثبت کردار پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغان کاروباری خواتین کے درمیان رابطوں کو فروغ دینے کے اقدامات کیے جائینگے جبکہ پاکستان افغان خواتین کی بنائی گئی مصنوعات کی درآمدات کو ترجیح دے گا۔

جنرل عاصم منیر پاکستانی فوج کے17ویں سپہ سالار کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھال لی۰۰۰
جنرل ہیڈکوارٹر راولپنڈی، پاکستان میں پاکستانی آرمی چیف کی تبدیلی کی تقریب 29؍ نومبر کو منعقد ہوئی جس میں سبکدوش ہونے والے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور انہوں نے جنرل عاصم منیر کے ہمراہ یادگار شہداء پر حاضری دیتے ہوئے پھولوں کی چادر چڑھائی۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنا الوداعی خطاب کرنے کے بعد پاکستانی فوج کی کمانڈ اسٹک (چھڑی) جنرل عاصم منیر کے حوالے کی اور پھر جذباتی انداز میں انہیں گلے سے لگایا۔ واضح رہے کہ جنرل عاصم منیر جو حافظ قرآن ہیں نے پاکستانی فوج کے 17ویں سپہ سالار کی حیثیت سے منتخب کئے گئے ہیں۔ ایک طرف جنرل عاصم منیر کے سپہ سالار فوج بنائے جانے پر پاکستانی فوج سے عوام نیک توقعات لگائے بیٹھے ہیں تو دوسری جانب فوج کی اعلیٰ قیادت کی کمان میں تبدیلی سے ایک روز قبل بہاولپور کے کور کمانڈر اور حاضرسروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائرکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے استعفیٰ دے کر قبل از وقت سبکدوش ہوگئے ۔ جنرل فیض حمید ان 6سینئر ترین جرنیلوں میں شامل تھے جن کا نام جی ایچ کیو نے دو اعلیٰ ترین فوجی عہدوں کیلئے ممکنہ امیدواروں کی فہرست میں شامل کیا تھا جسے گذشتہ ہفتہ منظوری کے لئے وزیراعظم شہباز شریف کو بھیجا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق کور کمانڈر بہالپور کا عہدہ سنبھالنے سے قبل جنرل فیض حمید پشاور میں اسی عہدے پر تعینات تھے ، انہیں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے مبینہ طور پر ان دونوں رہنماؤں کو سزادلوانے میں کردار ادا کرنے اور پاکستان تحریک انصاف کے تحت بننے والے گذشتہ سیٹ اَپ کی حمایت کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ جنرل فیض حمید سے متعلق کہاجاتا ہیکہ وہ سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے منظورِ نظر تھے اور ہوسکتا تھاکہ عمران خان اگر وزیر اعظم پاکستان رہتے تو انہیں فوج کے سپہ سالار کی حیثیت حاصل ہوجاتی۔ اسی طرح ایک اور اطلاع کے مطابق چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل اظہر عباس نے بھی اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ ان کا نام بھی ان 6سینئر ترین جرنیلوں کی فہرست میں شامل تھا۔ ان دو اعلیٰ افسروں کی جانب سے استعفیٰ دیئے جانے کے بعد دیکھنا ہے کہ پاکستانی فوجی قیادت اور پاکستان حکومت کس قسم کا ردّعمل کا اظہار کرتی ہے اور ان دونوں کے استعفوں کو قبول کرلیا جاتا ہے یا پھر انہیں منانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

گذشتہ روز پاکستانی فوج کے سپہ سالار کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہونے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف بھی پی ٹی آئی کی قیادت اور کارکنوں کی جانب سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے رہنما اسد عمر نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ریٹائرمنٹ پر کہاہے کہ جنرل (ر)باجوہ اپنے پیچھے سیاسی انتشار ، بکھری ہوئی معیشت اور سب سے زیادہ بری چیز اپنے فیصلوں کے ذریعے عوام اور فوج کے درمیان اعتماد کے رشتے کو ٹھیس پہنچانے کی میراث چھوڑ گئے ہیں۔ان کا اپنے ایک اور ٹوئٹ میں کہناتھا کہ جنرل عاصم منیر کی اولین ترجیح قوم اور فوجی قیادت کے درمیان احترام و محبت کا رشتہ بحال کرنا ہے،اسد عمر کاکہناتھا کہ نہ یہ رشتہ یک طرفہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی طاقت اور جبر سے حاصل ہو سکتا ہے،پی ٹی آئی رہنما نے کہاکہ 8 ماہ کے فیصلوں نے اس رشتے کو بری طرح ٹھیس پہنچائی ہے، ملک کا دفاع کرنے والے فوجی پر قوم آج بھی ناز کرتی ہے۔اسی طرح پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما علی امین گنڈا پور نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو میر جعفر قرار دے دیا۔جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے دن تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر "یوم نجات 29 نومبر" کا ہیش ٹیگ چلایا گیا، جو ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ کر رہا تھا۔ اس ہیش ٹیگ کے تحت پی ٹی آئی کے حامی جنرل باجوہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے جن میں مرکزی قیادت بھی شامل ہوچکی ہے۔ علی امین گنڈا پور نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ’’وہ کون تھا، وہ میر جعفر باجوہ تھا۔‘‘واضح رہے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کی حکومت کو امریکی سازش کے تحت ختم کیا گیا ہے۔ انہوں نے متعدد بار کہا کہ ان کی حکومت ختم کرنے میں امریکہ کا ساتھ اندر کے ’’میر جعفر‘‘ نے دیا تھا۔اب جبکہ علی امین گنڈاپور نے جنرل (ر) باجوہ کو میر جعفر کہہ رہے ہیں توسوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ہی میر جعفر ہیں جنہیں عمران خان نے اپنی حکومت کے گرانیکے بعد کہا ہے۔ یہاں یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ میر جعفر بنگال کے نواب سراج الدولہ کے آرمی چیف تھے جو عین میدان جنگ میں پارٹی بدل کر انگریز وں کے ساتھ شامل ہوگئے تھے جس کی وجہ سے نواب سراج الدولہ کو جنگ پلاسی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ میر جعفر کا یہ اقدام ہندوستان میں انگریز وں کی مضبوط گرفت کی بنیاد بنی اور انہوں نے اس کے بعد ہندوستان پر لگ بھگ 200 سال تک حکومت کی۔ خیر سابقہ فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے انکے سبکدوش ہونے پر ’’یوم نجات 29 نومبر‘‘ کا ٹرینڈ چلایا جا رہا تھا تو دوسری جانب پی ٹی آئی چیئرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان کے وہ پرانے بیانات بھی وائرل ہو رہے تھے جو انہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی حمایت میں دیے تھے۔اب دیکھنا ہیکہ پاکستانی فوجی قیادت اور حکومتِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ کے ریٹائرڈ منٹ کے بعدانکے خلاف وائرل ہوتے ہوئے بیانات پر کس قسم کے ردّعمل کا اظہار کرتے ہیں اورکیاکارروائی کی جاتی ہے ۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کیسے ہیں اور انہو ں نے کتنی ایمانداری اور فرض شناسی سے پاکستانی فوج میں خدمات انجام دی ہے اسے اﷲ رب العزت خوب جانتاہے ۔ اب جبکہ وہ ریٹائرڈ ہوچکے ہیں اس سے قبل انہوں نے اپنے آخری خطاب میں اﷲ کا ادا کرتے ہوئے کہاکہ ’’میں اﷲ کا شکرگزار ہوں جس نے اس عظیم فوج میں خدمات کا موقع دیا، فوج نے ہمیشہ میری آواز پر لبیک کہا،پاک فوج کی کامیابی کیلئے دعاگو ہوں۔
جی ایچ کیو میں پاک فوج کی کمان تبدیلی کی تقریب سے جنرل قمر جاوید باجوہ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جنرل عاصم منیر کو مبارکباد پیش کرتا ہوں،جنرل عاصم منیر سے میری رفاقت24 سال پرانی ہے،جنرل عاصم منیر حافظ قرآن ہونے کیساتھ باصلاحیت افسر ہیں۔انہوں نے اس یقین کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے ہمیشہ میری آواز پر لبیک کہا،کم وسائل کے باوجود پاک فوج ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے، پاک فوج جنرل عاصم منیر کی قیادت میں ملک کی مزید خدمت کریگی ، پاک فوج ملک کے چپے چپے کی حفاظت کی ضامن ہے ، فوج پر مشکل آئے گی تو میری دعائیں پاک فوج کیساتھ رہیں گی ، نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کیلئے دعاگو ہوں‘‘۔اس طرح جنرل قمر جاوید باجوہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے ہیں اور نئی ذمہ داری ،نئے کاندھوں پر پڑی ہے دیکھنا ہیکہ ملک کے اندرونی و بیرونی حالات کو عاصم منیر کس طرح نبھاتے ہیں۔ پڑوسی ملک ہندوستان کے ساتھ انکے تعلقات کس نوعیت کے رہتے ہیں اور انکے دور میں ہندوستانی اور پاکستانی فوج کے درمیان کس قسم کے تعلقات پائے جاتے ہیں۰۰۰
***

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 255923 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.