یہ ایک حقیقت ہے کہ اگرچہ چین اور عرب ممالک ایک دوسرے سے
ہزاروں میل کے فاصلے پر ہیں، لیکن ہزاروں سالوں سے ایک دوسرے سے شناسا ہیں،
اور دونوں کی کئی اعتبار سے ہمیشہ ایک ہی منزل رہی ہے۔ سنہ 2014 میں چین کے
صدر شی جن پھنگ نے مشترکہ مستقبل کی حامل چین عرب کمیونٹی کی تعمیر کی
تجویز پیش کی تھی اور چین عرب تعلقات کی ترقی کے لیے ایک نیا بلیو پرنٹ
تشکیل دیا تھا۔اس کے بعد سےچین اور عرب ریاستوں نے ایک ہم نصیب چین عرب
کمیونٹی کی تعمیر کو فروغ دینے، باہمی تعاون کو گہرا کرنے اور دونوں عوام
کو فائدہ پہنچانے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں۔
چین عرب تعلقات کو مزید فروغ دینے کی تازہ ترین کڑی سعودی عرب کے
دارالحکومت ریاض میں منعقد ہونے والی اولین چین عرب سمٹ ہے۔چین کے صدر شی
جن پھنگ اس اہم ترین سمٹ سمیت چین خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے سربراہی
اجلاس میں بھی شرکت کر رہے ہیں اور سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز
السعود کی دعوت پر سعودی عرب کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے ابھی حال ہی میں چین کی وزارت خارجہ نے نئے دور میں چین اور
عرب تعاون پر ایک رپورٹ بھی جاری کی ہے جس میں چین اور عرب ریاستوں کے
مشترکہ مستقبل کی حامل ایک کمیونٹی کی تعمیر کے امکانات اور آگے بڑھنے کا
راستہ بتایا گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اور عرب ممالک کے درمیان
تعلقات تاریخی اعتبار سے ہمیشہ قابل احترام ہیں اور ان کے تبادلوں کی طویل
تاریخ نے مختلف ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کے لیے ایک مثال قائم کی
ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عوامی جمہہوریہ چین کے قیام کے بعد سے گزشتہ 70
سال سے زائد عرصے میں چین اور عرب ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کا احترام کیا،
ایک دوسرے کے ساتھ برابری کا سلوک کیا، باہمی سود مند تعاون میں فعال کردار
ادا کیا ، ایک دوسرے سے سیکھا اور دوستانہ تعاون نے وسعت اور گہرائی دونوں
اعتبار سے تاریخی ترقی کی ہے۔دیکھا جائے تو اس وقت بھی چین اور عرب ریاستوں
کو متعدد مواقع اور چیلنجوں کا سامنا ہے کیونکہ دنیا ایک صدی کی گہری
تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین ہمیشہ
عرب ریاستوں کو پرامن ترقی، ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مزید تعاون اور بنی
نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کی حامل ایک کمیونٹی کی تعمیر میں اسٹریٹجک
شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ چین اور عرب
ممالک کے حالیہ سربراہی اجلاس کو روایتی دوستی کو آگے بڑھانے، تمام شعبوں
میں تعاون کو گہرا کرنے، تہذیبوں کے مابین تبادلوں کو بڑھانے اور نئے دور
میں مشترکہ مستقبل کی حامل چین عرب ریاستوں کی کمیونٹی کی تعمیر کے موقع کے
طور پر لیا جائے گا۔
یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ جہاں فریقین کے درمیان مختلف شعبہ جات میں تعاون
نے فروغ پایا ہے وہاں توانائی تعاون کو بھی چین عرب تعلقات میں کلیدی اہمیت
حاصل ہے۔اس کی حالیہ مثال قطر میں جاری فیفا ورلڈ کپ کے دوران شفاف توانائی
کا استعمال ہے۔ قطر میں چینی کمپنیوں کی جانب سے تعمیر کیا جانے والا
الخرساح سولر پاور پلانٹ ملک میں شمسی توانائی کا پہلا پلانٹ ہے ،یہ قابل
تجدید توانائی کے استعمال کے حوالے سے عمدہ مثال ہے جو قطر کی بجلی کی طلب
کا 10 فیصد پورا کر سکتا ہے۔800 میگاواٹ کے اس سولر پاور پلانٹ پر مجموعی
طور پر 417 ملین امریکی ڈالر کی لاگت آئی ہے۔یہ جہاں قطر کا پہلا غیررکازی
ایندھن پاور اسٹیشن ہے جو پٹرولیم اور قدرتی گیس سے مالا مال ہے وہاں مشرق
وسطیٰ میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ یہ عرب خطے میں توانائی کی
منتقلی کا ایک سنگ میل منصوبہ بھی ہے۔ اس منصوبے نے فیفا ورلڈکپ منتظمین کے
"پہلے کاربن نیوٹرل ورلڈ کپ" کی میزبانی کے وعدوں کو بھی پورا کرنے میں
نمایاں مدد فراہم کی ہے۔ اسی طرح دیگر عرب ممالک میں بھی چینی کمپنیوں کی
جانب سے تعمیر کیے گئے پاور اسٹیشنز پائیدار ترقی میں کلیدی کردار ادا کر
رہے ہیں۔چینی کمپنیوں کی جانب سے ابوظہبی میں تعمیر کردہ الدفرا سولر
پلانٹ، دنیا کا سب سے بڑا سنگل سائٹ شمسی توانائی پلانٹ ہے. یہ پاور اسٹیشن
ابوظہبی کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو سالانہ 2.4 ملین ٹن تک کم کرنے
میں مدد فراہم کر سکتا ہے اور متحدہ عرب امارات میں توانائی کی معیشت کی
پائیدار ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔یوں چین اور عرب ممالک کے
درمیان توانائی تعاون ایک اہم شعبہ بن چکا ہے۔ اس تعاون میں روایتی توانائی
سے صاف توانائی، کم کاربن معیشت اور توانائی کی تبدیلی میں منتقلی شامل ہے.
چین کی جانب سے پہلے بھی واضح کیا گیا ہے کہ وہ مختلف شعبوں میں تعاون کو
گہرا کرنے اور چینی اور عرب عوام کو فائدہ پہنچانے کے لئے عرب ممالک کے
ساتھ مشترکہ کوششوں کا خواہاں ہے۔
مبصرین کے نزدیک پہلی چین عرب سمٹ کے انعقاد سے یقینی طور پر چین عرب
اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید تقویت ملے گی۔اس دوران چین اور عرب ممالک کے
درمیان ہر سطح پر تعاون ، یقینی طور پر نئی پیش رفت کا مشاہدہ کرے گا۔اس
اہم سرگرمی کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ چین اور عرب ممالک کے مشترکہ
مستقبل کی کہانی ایک نئے باب میں داخل ہو رہی ہے۔
|