جس ملک میں جمہوریت کی جڑیں گہری اور دیرپا نہ ہوں
وہاں کی فضا میں ادب و تہذیب کی ترقی کے امکانات بھی زیادہ نہیں ہوتے۔اس
لئے تو کہا جاتا ہے کہ تہذیب اور سیاست کا اورجمہوریت سے ادب و تہذیب ،شائستگی
اور اخلاقیات سے گہرا رشتہ ہے ہے لیکن ہمارے ملک پاکستان میں سیاستدانوں کے
گھٹیا و نا زیبا و بہیودہ خطابات اور بیانات نے تو اخلاقیات کا جنازہ ہی
نکال دیا ہے ۔ اور اس میں پی ٹی آئی پہلے نمبر پر آگئی ہے ۔تحریک انصاف کے
چیئرمین سمیت پارٹی کے سینئرز لیڈران بالخصوص شہباز گل کے شرمناک خطاب نے
پاکستانی قوم کا سر شرم سے جھکا دیا ہے اور ان پولیٹکل لیڈروں کیلئے
انتہائی ڈوب مرنے کا مقام ہے جو اس لغو و بیہودہ مہم کا حصہ ہیں ۔ شہباز گل
نے 26 نومبر کے جلسے میں نہ صرف سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کا تمسخر اڑایا ،
پاک فوج کے اعلی عہدے کی توہین کی گئی بلکہ جلسے میں موجود خواتین اور بچوں
کے سامنے ’’شلوار پہننے اور اتارنے‘‘ کی شرمناک گفتگو کی گئی ۔ اپنے ملک کے
سیاسی رہنماؤں کی ذہنی پستی کا اندازہ لگائیے کہ جن کو ہم اپنا نمائندہ بنا
کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں اور جنہوں نے قانون سازی کرنا ہوتی ہے ۔ان سے
سوال ہے کہ آخر ہم اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں کو کیا دے رہے ہیں؟ ۔ کہ
صرف اقتدار کا حصول اور ذاتی مفادات کی خاطر قومی سلامتی کے اداروں کے ساتھ
ساتھ سا لمیت کو ہی داؤ پر لگا دیا ہے ۔ اس تمام بیانات کے وائرل ہونے سے
دنیا کو کیا پیغام ملے گا کہ ایک طرف تو ملکی سرحدوں کی ظامن شہداء پاک فوج
کی قربانیوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے تو دوسری جانب نازیبا ، گھٹیا نعرے
لگائے جاتے ہیں ۔قبل ازیں تحریک انصاف کے سینیٹر سواتی کی جانب سے بعض
عسکری عہدیدران کے خلاف نازیبا زبان استعمال کی گئی اور انہوں نے خود پر
انسانیت سوز تشدد اور اہلیہ کو بھجوائی گئی گھٹیا ویڈیو کے حوالے سے
الزامات لگائے ۔ شاید تحریک انصاف کے رہنماؤں اور ہمدردوں کے نزدیک بد
زبانی ہی اظہار جذبات کا نام ہے ۔ان کا کام محض حکومت ریاستی محکموں شخصیات
پر مثبت تنقید کے بجائے ان کی بدنامی ان کے خلاف فحش گوئی کے ذریعے جلسوں
میں آئے جوانوں کے خون کو گرمایا جاتا ہے اور انہیں عساکر پاکستان کیخلاف
اکساتے ہوئے ان کے ذہنوں کو پر گندہ کیا جا ررہا ہے ۔سڑکوں پر چوراہوں پر
خواتین کو گالیاں نکالنا ہماری تہذیب نہیں۔ لوگوں کے گھروں کے باہر کھڑے ہو
کر گالیاں نکالنا ہماری تہذیب نہیں۔ مسجد نبوی ﷺمیں بھی ایسا ہی کیا گیا ۔اب
بھی وقت ہے کہ سب سیاسی جماعتیں و لیڈران قوم میں اتحاد پیدا کرنے ، انہیں
غیر یقینی کی موجودہ صورتحال سے باہر نکالنے، معیشت کو بحال کرنے کیلئے ایک
پیج پر آ جائیں۔تھڑے کی سیاست کو ترک کرتے ہوئے ایک مہذب قوم کاثبوت دیتے
ہوئے سیاسی لڑائیوں کو مذاکرات کی میز پر حل کریں۔ ہمارے سیاسی لیڈروں کو
یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ اس ملک کی سلامتی کی ضامن پاک فوج ہے اور فوج ہے تو
پاکستان قائم و دائم ہے ۔ دشمن ہمارے سر پر کھڑا ہے ، ہمارے جوہری اثاثے
ہنود یہود کو مسلسل کھٹک رہے ہیں ۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا پاکستان اٹیمی
پروگرام کے حوالے سے بیان مذموم منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے ۔ تمام تر
اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک و قوم کی ترقی خوشحالی اور سالمیت
کے تحفظ کیلئے یک جا ہو جائیں اس میں ہی ہماری بقا ء ہے۔ افسوس ! قومی
سیاست کو ان ڈیہاڑی دار سیاسی لیڈروں نے آلودہ کر دیا ہے جن کا شیوہ سیاست
خدمت نہیں چرب زبانی ، سیاسی حریف پر کیچڑ اچھالنے اور زیادہ سے زیادہ
برہنہ گفتگو ہے۔میری اپنی دھرتی کے سیاست دانوں سے گزارش ہے کہ سیاست جس کے
بارے میں پڑھا اور سنا تھا کہ یہ ایک عبادت بھی ہے ۔اب ہم یہ سوچنے پر
مجبور ہو گئے ہیں کہ یہ اب شریفوں کا کام نہیں رہا ۔ گالی گلوچ ، لغو
الزامات ، چور ، ڈاکوجیسے القابات سے پکارنامعمول بن گیا ہے ۔ اسمبلیوں میں
دھینگا مشتی ، کاپیاں پھاڑنا ،سیاسی حریفوں پر ٹی وی ٹاک شوز میں تھپڑوں ،
گھونسوں کی بارش ،ہماری قومی سیاست ایسی تاریخ سے بھری پڑی ہے ۔سیاست وا
خلاقیات لاز م و ملزوم ہیں مگر یہاں الٹی گنگا بہتی ہے اور اپنے سپورٹرز
اور ووٹرز کو امپریس کر نے کیلئے بازاری زبان الفاظ استعمال کرتے ہوئے
اخلاقیات کی تمام حدیں پار کی جا رہی ہیں ۔اگر پاکستان کی 75 سالہ تاریخ پر
نظر ڈوڑائیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ یہ سلسلہ تو قائد اعظم کے دورسے ہی جاری
ہے جب بانی پاکستان کوبھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں برے الفاظ سے
پکارا گیا ۔مادر ملت کو بھی غدار تک کہا گیا تھا۔پاکستانی سیاست میں ایسا
وقت بھی دیکھا جب سیاسی حریفوں کے ناموں کو گدھوں پر لکھ کر انہیں گلی گلی
گھمایا گیا ۔سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو ، نواز شریف بھی اس کارخیر میں
تھوڑا بہت حصہ ضرور ہے ۔اسمبلی میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی
لڑائیاں بھی ہماری قومی پولیٹکس کی غلیظ روایات کی گواہی دیتے ہیں۔اسمبلی
میں خواتین سیاسی رہنما کو ٹریکٹر ٹرالی تک کہا گیا ۔ مادر ملت سے مریم
نواز تک ہر اس جمہوری عمل میں ہر خاتون سیاسی رہنما کو تذلیل کا نشانہ
بنایا گیا ۔ کیا یہ ہماری اسلامی اقدار ہیں کہ کھلے عام خاص طور پر تحریک
انصاف مسلم لیگ ن کی خواتین کا مذاق بناتی ہے ۔ عمران خان ریاست مدینہ کے
دعویدار جن کی ہر تقریر ایاک نعبدو و ایاک نستعین سے شروع ہوتی ہے کہ وہی
سیدھے رستے پر چلتے ہیں باقی دوسرے تو گمراہ ہیں ۔اور اپنے جلسوں میں امر
بالمعروف و نہی عن المنکر کوپڑھ کر آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور اپنے
ہی شہیدوں ، غازیوں کو ٹارگٹ کر کے دشمن کا کام آسان بنا رہے ہیں جو ازلی
دشمن بھارت اربوں ،کھربوں ڈالر کے مہلک و جدید ترین جنگی ہتھیاروں کے انبار
رکھ کر نہ کر سکا وہ انہوں نے کر دیا ۔انہیں یہ باور کر لینا چاہئیے کہ
سیاسی اختلاف کو تہذیب کے دائرے میں رکھنا ہی سیاست ہے۔ گالی گلوچ سے کوئی
تبدیلی نہیں اتی بلکہ ووٹ کی طاقت سے تبدیلی آتی ہے۔اور نہ اپنے ہی ملک کے
محافظوں ، جانبازوں کے خلاف زہر اگل کرحقیقی آزادی ملتی ہے ۔یہ آزادی نہیں
تباہی ہے ۔ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے بحیثیت آرمی چیف
اپنا آخری خطاب میں فوج کا فیصلہ سنا دیا کہ وہ فوج مزید سیاست میں ملوث
نہیں ہوگی بلکہ اپنا آئینی کردار ادا کرے گی۔سپہ سالار نے دراصل سیاسی
رہنماؤں کو آئینہ دکھا دیا ہے۔بلاشبہ فوج کے غیر سیاسی ہونے سے جمہوری
اقدار پروان چڑھے گی۔اب یہ سیاسی لیڈر شپ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ
ملکی سا لمیت کو مقدم رکھیں۔ |