مہاراشٹر میں اورنگ آباد شہر کا نام بدلنے والے شیوسینا
کے دونوں گروہوں کا نام و نشان الیکشن کمیشن نےبدل دیا۔ یہ بھی سیاسی
چمتکار نہیں تو کیا ہے کہ کرناٹک میں مسلمانوں سے برسرِ پیکار بی جے پی ہم
سایہ ریاست مہاراشٹر کی اپنی ہی پارٹی والی سرکار سے بھڑ گئی۔ گزرے زمانوں
میں مختلف راجہ اور نواب اپنی حکومت کی توسیع کے لیے ایک دوسرے پر فوج کشی
کرتے تھے مودی یگ میں پھر وہی صورتحال بن رہی ہے۔ ریاست کی سالمیت کا
معاملہ عوام کے جذبات سے وابستہ ہوتا ہے۔مہاراشٹر کے باشندوں کو ساورکر اور
شیواجی کی توہین کرکے پہلے ہی ٹھیس پہنچائی جا چکی ہے لیکن اب کرناٹک کے
وزیر اعلی بسوراج بومئی نے سرحدی تنازع چھیڑ کر ان کے زخموں پر نئے سرے سے
نمک پاشی شروع کردی ہے ۔ اپنےکھسکتے ہوئے اقتدار کو بچانے کے لیے انہوں نے
اعلان فرما دیا کہ سانگلی ضلع کے 42 گاؤں اور سولاپور کی اکل کوٹ تحصیل کے
لوگ کرناٹک میں شامل ہونے کے خواہاں ہیں۔ بومئی کی اس اشتعال انگیزی کے بعد
کرناٹک کی بسوں کے خلاف مہاراشٹر-کرناٹک سرحد پر احتجاج شروع ہوگیا اور
حالات کشیدہ ہوگئے ۔
بسو راج بومئی نے الزام لگایا تھا کہ مہاراشٹر کے سرحدی گاوں میں پانی کا
بحران وہاں کے لوگوں کو کرناٹک میں انضمام کے لیے مجبور کررہا ہے۔ اصل بات
یہ ہے کہ جت ضلع کے ان گاوں میں صرف دس پندہ فیصد لوگ مراٹھی بولتے ہیں اور
مطالبہ کرنے والے کنڑی زبان بولنے والے لوگ ہیں ۔ یہ آبی اختلاف نہیں بلکہ
لسانی و سیاسی مسئلہ ہے جسے گھما پھرا کر پیش کیا جارہا ہے۔ مہاراشٹر کے
نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ دیویندر فڈنویس نے اپنی ہی پارٹی کے
کرناٹکی وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی کے بیان کی سختی سے تردید کرتے ہوئےکہا کہ
یہ دعویٰ سراسر غلط ہے ۔ فڈنویس نے اس مسئلہ کے وجود سے انکار کرتے ہوئے
بتایا کہ ان علاقوں میں پانی کا مسئلہ حل کردیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان
میں سے کون جھوٹ بول رہا ہے یا دونوں جھوٹ بول رہے ہیں اس لیے کہ دونوں
متضاد دعویٰ سچ نہیں ہوسکتا ۔کرناٹک کے وزیر اعلیٰ نے نہایت سختی سے
مہاراشٹر کے احتجاج کا جواب دیا ۔ بومئی نے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ
شندے کے بیان کہ’ ہم ایک انچ زمین بھی نہیں دیں گے‘ کو اشتعال انگیز قرار
دیا۔ ان کے مطابق ایک انچ بھی زمین نہیں دینے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر
نہیں ہوگا۔ وزیراعلیٰ شندے اور ان کے نائب دیویندر فڈنویس کے تعلقات کو بھی
اس معاملے نے کشیدہ کردیا ہے۔
حزب اختلاف کے رہنما سنجے راوت نے حکومت مہاراشٹر کے بزدلانہ رویہ پر تنقید
کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ بومئی ہر روز سرکار کے منہ پر تھوکتے ہیں اور
وہ بے حیائی سے سب کچھ برداشت کررہی ہے۔ بی جے پی ہائی کمان کو اس موقع پر
مداخلت کرکے دونوں وزرائے اعلیٰ کے درمیان من مٹاو کرانا چاہیے تھا لیکن اس
کو تو گجرات انتخاب سے فرصت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے نہ آسام ومیگھالیہ کی
سرحد پر ہونے والے تشدد کی کسی کو فکر ہے اور نہ مہاراشٹر و کرناٹک تنازع
میں کوئی دلچسپی لے رہا ہے گجرات میں شکست کے اندیشے سے مودی و شاہ کی
بوکھلاہٹ نے ان کو ملک بھر کے مسائل سے بے نیاز کردیا ہے۔ ویسے بھی گجرات
ان دونوں کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن گیا ہےاور پاگلوں کی مانند
انتخابی مہم میں کبھی بیس سال پرانے فرقہ وارانہ فساد کو یاد کرتے ہیں تو
کبھی بلڈوزر کی نمائش کرتے ہیں ۔ کیا یہ گجرات کی ترقی کا ماڈل ہے؟ یا
اترپردیش کی تخریب کا نمونہ ہے؟؟ سچ تو یہ ہے کہ یوگی ادیتیہ ناتھ نےاس مہم
میں اپنے حریف امیت شاہ کو بلڈوزر سے کچل دیا ہے۔
ایک طرف تو کرناٹک کے وزیر اعلیٰ مہاراشٹر کے مختلف علاقوں پر اپنا دعویٰ
ٹھونک رہے ہیں دوسری جانب بیلگاوی میں ایک ایسا واقعہ پیش آگیا جس نے ان
کی قلعی کھول دی ۔کرناٹک میں واقع شہر کے ایک باوقار کالج کی سالانہ تقریب
جاری تھی ۔ اس میں ایک طالبعلم کرناٹک کا جھنڈا لہرانے کی جرأت دکھائی تو
وہاں موجود دیگر طلباء نے اس پر حملہ کردیا اور خوب جم کر پٹائی کی ۔ اس
سانحہ کی ویڈیو بناکر اس کو وائرل کردی ۔ اس زخمی طالبعلم کو پولیس تھانے
لے جایا گیا تو مبینہ طور پر وہاں بھی اسے زدو کوب کیا گیا۔ کالج انتظامیہ
نے بھی اس مظلوم کی حمایت کرنے بجائے کہا کہ اس ماحول میں اسے ایسا نہیں
کرنا چاہیے تھا۔ کرناٹک میں اس سے قبل ایک طالبہ کے ذریعہ پاکستان زندہ باد
کا نعرہ لگانے سے ہنگامہ کھڑا ہوگیا تھا ۔ اس کے بعد بی جے پی والوں نے
فساد بھڑکانے کی خاطر پاکستان کا پرچم لہرا دیا تھا لیکن اس طالبعلم کا
قصورتو بس یہ تھا کہ اس نے اپنی ریاست کرناٹک کا جھنڈا لہرادیا۔ اس کے
باوجود اس کی حمایت نہ سرکاری انتظامیہ اور نہ کالج کے اہلکاروں نے کی ۔ یہ
تو بسوراج بومئی کے کرناٹک کا حال ہے ۔
اس ہنگامہ آرائی کےجواب ایک کنڑ تنظیم میدان میں اتری اور اس کے ارکان نے
مہاراشٹر کے حامی طلباء کی پٹائی شروع کردی۔ اس نے اپنے احتجاج میں کار کے
ٹائر جلائےاور پھر پولیس کو مداخلت کرکے معاملہ ٹھنڈا کرنا پڑا۔ اس بارے
میں جانکاری دیتے ہوئے اے ڈی جی پی (لا اینڈ آرڈر) آلوک کمار نے کہا کہ
تمام ناخوشگوار واقعات سے بچنے کے لیے تیاری کرلی گئی ہے۔ پولس نے ا قدام
مذکورہ واقعہ اور سرحدی تنازعہ کے حوالے سے دونوں طرف کی بسوں اور گاڑیوں
کو نقصان پہنچانے یا سیاہ کرنے کے بعد اٹھایا ۔ حالیہ واقعات کے بعد کنڑ
تنظیم نے الزام لگایا ہے کہ مہاراشٹر انٹیگریشن کمیٹی بیلگاوی میں ماحول
خراب کر رہی ہے۔مہاراشٹر کی حامی تنظیم (مہاراشٹر انٹیگریشن کمیٹی ) کے
عہدیداروں نے حکومتِ مہاراشٹر کے وزراء چندرکانت پاٹل اور شمبھوراج دیسائی
بیلگاوی کا دورہ کرنے کی دعوت دی جس کابینہ کی توثیق بھی مل گئی۔ان لوگوں
کی مخالفت عین توقع کے مطابق ہے اس لیے دورے کے دوران ناخوشگوار واقعہ کو
روکنے کے لیے بومئی کی پولیس اقدامات کررہی ہے۔ ایک طرف عوام کو بیوقوف
بنانے اشتعال انگیز دعویٰ اور دوسری جانب یہ بزدلانا اقدامات بی جے پی کے
دوہرے چہرے کی نقاب کشائی کرتے ہیں ۔
کرناٹک کانگریس نے اس سرحدی تنازع کو ایک ’سازش‘ قرار دیا ہے۔ کرناٹک
کانگریس صدر ڈی کے شیوکمار نے کہا کہ انتخاب سے قبل ریاست میں ماحول خراب
کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شیوکمار کے مطابق وزیر اعلیٰ بسوراج بومئی
ریاست میں برسراقتدار بی جے پی حکومت پر حملوں کی جانب سے توجہ ہٹانے کے
لیے اسے ایک بڑا ایشو بنا رہے ہیں۔ کانگریسی رہنما نے اس سرحدی تنازعہ کے
حل ہوجانے کا دعوی ٰ کیا ہے۔ ان کے مطابق کرناٹک کی سرحدوں کے اندر کا
علاقہ اس کا ہے اور مہاراشٹر میں واقع علاقہ ان کا ہے۔ کانگریس کی نظر میں
وہاں رہنے والے لوگ کنڑی ہیں۔ شیوکمار نے نصیحت کی کہ سرحد تنازعہ کے بہانے
مہاراشٹر میں کسی بھی پارٹی سے جڑے لوگوں کے لیے امن و امان کا ماحول خراب
کرنا مناسب نہیں ہے۔ انھوں نے بیلگاوی میں سوورنا سودھا کی تعمیر کا ذکر
کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی ماحول خراب کرنے کے کام میں شامل نہیں ہونا
چاہیے۔
لسانی بنیادوں پر ریاستوں کی تنظیم نو کے بعد سرحدی تنازعہ 1960 کی دہائی
سے چل رہا ہے۔ مہاراشٹربیلگاوی پر دعویٰ کرتا ہے، جو سابقہ ’بمبئی
پریزیڈنسی’ کا حصہ تھا، کیونکہ اس میں مراٹھی بولنے والوں کی کافی آبادی ہے
۔ مہاراشٹر حکومت نے 2004 میں کرناٹک کے چار اضلاع بیلگاوی شہر اور 865
گاؤں پر اپنے حقوق کا دعویٰ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی لگا رکھی ہے
مگر اس وقت سے یہ معاملہ زیر التواء ہے۔ کرناٹک کی حکومت نے اس کے خلاف
وکلا کی تگڑی ٹیم منظم کررکھی ہے اور مہاراشٹر بھی اس کے جواب میں یہی
کررہا ہے۔ پہلے فوج آمنے سامنے ہوتی تھی اب وکلاء دست و گریبان ہیں۔ کہاں
تو بی جے پی والے پاکستان کے قبضے سے مقبوضہ کشمیر واپس لانے کی بات کرتے
تھے مگر اب تو آپس میں لڑ رہے ہیں ۔ یہ نہایت شرمناک بات ہے کہ ریاستی
انتخاب میں فائدہ اٹھانے کے لیے بی جے پی سرحدی تنازع کو ہوا دے رہی ہے۔ اس
سے چونکہ انتخابی مفاد وابستہ ہے اس لیے اگر تصادم ہوجائے تو ہند چین سرحد
سے زیادہ خون خرابہ ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں مہاراشٹر اور کرناٹک کی بی جے
پی حکومتوں نے گلوان تنازع سے زیادہ خطرناک صورتحال پیدا کردی ہے۔ بی جے پی
کی یہ علاقائی عصبیت ملک کے اندرایک خانہ جنگی کی پیش خیمہ ہے۔ اقتدار کی
حرص ہوس میں بی جے پی اس ملک کو کہاں لے جائے گی یہ کہنا مشکل ہے۔ اس
چھٹکارے کا واحد راستہ فسطائی جماعت کو اقتدار سے بے دخل کرنا ہے۔ عوام کو
جس قدر جلد اس کا احساس ہو اور وہ مناسب اقدام کریں تو اسی میں ملک و قوم
کی بھلائی ہے۔ |