پاکستان میں غربت اور بے روزگاری کے باعث مکہ اور مدینہ
منورہ میں بھی پاکستانی بھیک مانگتے نظر آئے جبکہ پورے سعودی عرب میں میں
آپ کو ایک بھی سعودی شہری مانگتا ہوا نظر نہیں آئے گا یہ سعودی حکومت کی
اتنی شاندار اور خوبصورت پالیسی ہے کہ انہوں نے اپنی عوام کو اس قابل بنایا
وہ نہ صرف دنیا بھر سے کام کرنے والوں کو بلا کر روزگار دیتے ہیں بلکہ
انہیں خوشحال کرنے میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں اور ہمارے ہاں جمہوریت اور
جمہوری لوگوں نے عوام کا بھرکس نکال دیا قومی سطح پر تو ہم بھکاری تھے ہی
انہوں نے ہمیں انٹرنیشنل بھکاری بھی بنا دیا پہلے جو مہنگائی اور بے روگاری
پر رات کو سوتے تھے نہ انہیں دن کو چین آتا تھا بلکہ عوام کے دکھ میں یہاں
تک آگئے تھے کہ موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف صاحب نے آصف علی زرداری سے
لوٹی ہوئی ملکی دولت واپس لینے کے لیے انہیں لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکو ں
پر گھسیٹنا تھا جبکہ محترم آصف علی زرداری صاحب نے بھی میاں نواز شریف سے
غریب عوام کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لینے کے لیے ناجانے کیا کیا حربے استعمال
کرنے تھے اور مولانا فضل الرحمن صاحب نے تو مہنگائی مارچ بھی کر ڈالا تھا
لیکن جب سے یہ اقتدار پر قابض ہوئے ہیں تو سبھی عوام کے غمخوارنہ صرف
خودایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے بلکہ انہوں نے ڈالر، ٹماٹر اور پیاز کو بھی
230 کی ایک ہی صف میں کھڑا کردیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ عوام کا درد
رکھنے والے نہ مولانا بولے، نہ بلاول اور نہ ہی مریم نواز جبکہ غربت اور بے
روزگاری سر چڑھ کر بول رہی ہے سعودی بادشاہ اپنے بے روزگاروں کو 2ہزار ریال
اور سکول جانے والے بچوں کو 800ریال ہر ماہ دیتی ہے سعودی عرب کا استاد بھی
خوشحال ہے اور ہمارے سکولوں میں فیسوں کے نام پر بھی پیسے اکھٹے کیے جاتے
ہیں اور اساتذہ کو دو دو ماہ تنخواہیں بھی ادا نہیں کی جاتی اور تو اور
ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ کا کھانا پینا بھی بند کردیا جاتا ہے ہماری
سرکاری ادارے بجائے پھلنے پھولنے کے دن بدن سکڑ رہے ہیں 20یا 22ہزار تنخوا
لینے والا استاد کیسے گذارتا کرتا ہو گا اور بچوں کو کیا پڑھاتا ہوگا اور
پھر اسے دو ماہ سے تنخواہ بھی نہ دی جارہی ہو تو کیاسما بنتا ہو گاپنڈدادن
خان میں کالج کا نام دیکھیں پی بی ایف انٹرنیشنل اور سہولتیں ملاحظہ
فرمائیں اساتذہ کی دو ماہ سے تنخواہیں بند وہ سڑکوں پر بچوں کا ہاسٹل میں
میس بند وہ گھروں میں بچوں کو لانے اور لے جانے والی بسیں بند بچے پبلک
ٹرانسپورٹ پر خوار یہی صورتحال پورے ملک میں ہے جب ہمارا تعلیمی نظام اور
اسکو چلانے والوں کی سوچ ایسی ہو گی تو پھر پاکستان کے لوگ کیا کریں گے اور
ملک کا کیا حشر ہوگا بے روزگاری بڑھے گی ،غربت بڑھے گی ،جرائم بڑھیں گے
،تھانے بکیں گے ،انسانوں کی منڈیاں سجیں گی اور انٹرنیشنل بھکاری پیدا
ہونگے ہمارے سیاستدانوں نے بھی جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم کررکھی ہے
باپ کے بعد بیٹا سیاست پر قابض ہوجاتا ہے عوام کو اس قابل نہیں بننے دیتے
کہ تھوڑی سی سمجھ بوجھ ہی آجائے ہماری نوجوان نسل اپنی مدد آپ کے تحت 195
ویں ریاستوں کے بڑے سمندر میں اپنی بقا کے لیے غوطے کھا رہی ہے اور ہم پر
مسلط حکمران ہماری گردن دبوچے ہمیں دبو رہی ہے اور اسکے باوجود جیسے ہی
ہمیں سانس لینے کا موقعہ ملتا ہے تو ہم اس عالمگیر معیشت میں اپنے وجود کے
لیے جدوجہد کرنا شروع کردیتے ہیں اﷲ تعالی کی بے شمار نعمتوں اور وسائل کے
ہوتے ہوئے ہم ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے آزادی سے بربادی تک کر اب تک
بے روزگاری سمیت کئی اہم مسائل کا سامناکرہے ہیں دستیاب وسائل کی کمی کے
باعث پاکستان میں بے روزگاری کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے جب بے روزگاری ہوتی
ہے تو مختلف مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہونا شروع ہوجاتا ہے اوپر سے
ہماری آبادی میں بے پناہ اضافہ بھی مسائل میں اضافہ کررہا ہے ملک کی آبادی
اس وقت خطرناک حد تک تیزی سے بڑھ رہی ہے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق
پاکستان کی آبادی 2.2 فیصد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہے اور اوپر سے
ہمارا تعلیمی نظام ناکافی ہے اس لیے آبادی میں اضافے کے نتیجے میں لامحالہ
جاہل افراد اور مزدورں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے حکومت یا کوئی اور
ادارہ آبادی میں ناخواندہ افراد کی بڑی تعداد کے لیے ملازمتیں یا کام کے
مقامات پیدا کرنے سے قاصر ہو گا دیہات میں رہنے والے لوگوں کی اکثریت ان
پڑھ ہے جس کے نتیجے میں وہ زیادہ آبادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات
سے نمٹنے سے قاصر ہیں ہمارا میں تعلیمی نظام بھی وقت کے ساتھ ساتھ ترقی
نہیں کر سکا بہت سے ٹیکنیکل کالجز ہیں جو طلباء کو تربیت فراہم کرتے ہیں
لیکن یہ تربیت صنعت کی ضروریات کو پورا نہیں کرتی اور نہ ہی ان داروں میں
تربیت یافتہ افراد پیدا ہوتے ہیں اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو سب سے پہلے
پرائمری اسکول کی سطح سے لے کر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ تک طلباء کو مختلف
قسم کی صلاحیتوں میں تربیت دی جانی چاہیے جس کا بنیادی مقصد نوجوانوں میں
کاروباری صلاحیتوں اور خوبیوں کی نشوونما کو پروان چڑھانا ہولیکن ہم
توانائی اور عدم سہولیات کے باعث ہمارے بہت سے کاروبار شدید مندی کا شکار
ہیں پچھلے دس ماہ میں لاکھوں ورکرز اپنا روزگار کھو بیٹھے ہیں بہت سے
کاروبار اپنی افرادی قوت کو کم کر رہے ہیں اور اخراجات میں کمی اور منافع
کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے اپنی اجرت میں کمی کر رہے ہیں پاکستان میں
توانائی کا بحران ملک کے تمام کارخانوں اور صنعتوں کے لیے تشویش کا بنیادی
ذریعہ ہے ہم گذشتہ 20 سال سے لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہیں اور اب گیس
بحران کا بھی شکار ہیں اور جو بجلی آتی ہے اسکی قیمت بہت زیادہ ہے جو
مصنوعات ہم اپنی صنعتوں میں تیار کرتے ہیں وہ دیگر ممالک کی مصنوعات کے
مقابلے بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہیں پاکستانیوں کی اکثریت نیا کاروبار شروع
کرنے سے ڈرتی ہے اور اس کے نتیجے میں کوئی نیا روزگار نہیں ملتا اگر معاشی
صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو بے روزگاری کی شرح اس کی موجودہ سطح
سے بڑھ جائے گی ہمیں اس وقت موجودہ معاشی بدحالی سے نمٹنے کے لیے سخت
اقدامات اور معاشی ایمرجنسی کی ضرورت ہے تاکہ ہم بھی دنیا میں عزت سے گھوم
سکیں-
|