أہ بے صدا
افسانہ نگار وسیم عقیل شاہ
تبصرہ وتجزیہ نثارانجم
واسو بک ڈپو ،اسٹال نمبر ۹۹ أشا ،بغیر پہیے والا گھوڑا و سیم عقیل شاہ کے
افسانوی کا ئنات کے نۓ اور انوکھے استعارے ہیں ۔جو افسا نوی فضا بندی میں
نقش و نگار کی طرح تشبیہاتی معنو یت بھی رکھتے ہیں ۔ جو انکا اپنا منفرد
سبھو ں سے الگ ڈسکورس ہے۔ یہ استعارے افسانے میں ناسٹیلجیک پیراۓ اظہار لۓ
احساس کی دہلیز پر نئ تہذیب کا نوحہ بن کر پلکیں بھی بھگو تے ہیں ۔ تہذیبی
سرمایہ اپنی شکستہ اثاثے کی بے وقعتی پر ایک أہ بلند کرتے ہیں جسکی صدا اسی
سرمایہ کے ملبے میں گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ہمدردی کا کاندھا تلاش کرتی ,اپنا
دکھ با نٹتی اج بھی أشا دھول سے اٹی کتابوں کی ڈھیر پر بیٹھی ریل کی گڑ
گڑاہٹ اور پلیٹ فارم سے نکلتی بھیڑ میں ایسے چہروں کو ڈھونڈتی ہے جو واسو
بک ڈپو کے اسٹال نمبر ۹۹کی طرف فطری کشش سے بندھے چلے آۓ لیکن بھیڑ سے نکل
کچھ چہرے یہاں رکتے ہیں لیکن ان أنکھوں میں ذوق و شوق میں وہ طلب نہیں ہے۔
مسافر بڑی بے نیازی سے یہاں سے گذر جاتے ہیں۔ أشا ،أشا باسو بک ڈپو کی
اہمیت ، اج کی ضرورت اور صارفین کے بدلتے ہوۓ ترجیحات کو ماضی کے تناظر میں
رکھ کر دیکھتی ہے ۔جب کتابوں کے رسیا کسی بھنورے کی طرح نیکٹر کی تلاش میں
کسی طرح کھینچے چلے اتے تھے۔أشا کتابوں کے درمیاں ریزہ ریزہ ہوتی امید وں
کو پرانی تحریروں میں تلاش کر خود کو ڈھارس بندھاتی ہے لیکن اب اس کی مجبور
أس اسٹیشن کی ہنگامہ خیزی میں بے صدا ہوکر معدوم ہوگئ ہے۔ وراثت سے منتقل
ہونے والے دھول کھاتے
تہذیبی سرماۓ سے گرد صاف کرنے میں مصروف أشا رینگتی ہوئی بھیڑ اور بلند
ہوتی ہنگامہ خیز ی میں روشن ورثہ عقل کی ناقدری اور نئ زندگی کی ترجیحات
میں اس کی بے وقعتی پر کڑھتی ہے۔ریلوے پلیٹ فارم سے تیزی سے ختم ہونے والے
وہ کتابی رشتے والی تہذیب تفریح کے نۓ پٹارے کے ناز ونخرے اٹھانے میں مصروف
ہے۔
بہترین زبان، نیم استعارتی اشارے و کنایۓ کے قوام سے تیار ،مطالعاتی وصف سے
مزین افسانہ ہے۔ علامتوں ،استعارے اور تشبیہات میں ایک ملٹی ڈائمینشنل
تفہیمی پرت ہے جو بظاہر چیز وں کے ظاہری معنی سے الگ اپنی ایک دنیا اور درد
رکھتا ہے۔
وسیم عقیل شاہ کا افسانہ عہد حاضر کے صارفینی تناظر میں کے ایسے مسئلے سے
پردہ اٹھاتا ہے جہاں ایک روشن تہذیب اپنے زمینی اسلاف کے علموں کارناموں کے
انبار پر مایوس بیٹھی ہے ۔اپنے ترسیلی وجود اور اپنے اطراف مسلط ناقدری اور
عدم دلچسپی سے تاریکی میں اضافہ ہورہا ہے ۔تاریکی کا پردہ چاک کرتی ہوئی
ایک صدا ارتعاشی لہروں کی طرح رباب شعور کو مسلسل ایک بڑے خدشے سے اگاہ
کررہی ہے۔علمی رابطوں کے پل پر نئ تکنیک نے تفر یح کے نام پر ایک جاذب نظر
تاروں کا جال پھیلا رکھا ہے ۔ شاخ علم سے لدے پھدے وہ روایتی چنار کے
سوکھنے اور خشک نیم جان پتوں کی چڑ مڑاہٹ ایک درد کی ٹیس بن کر اٹھ رہی ہے
لیکن جدید مشینی تہذیب کے نۓ پروردہ اس باطن سے اٹھنے والےکرب کو محسوس
نہیں کر پاتے۔
مصنف کے تخیل فکر پر یہ أہ اپنے تمام تر جمالیاتی بصیرت کے ساتھ امنڈ ایاہے
ہے جو بناوٹ الجھاؤ اور فکری پیچیدگی سے اوپر اٹھ کر اپنے عہد کے مسائل
کےساتھ افسانے کے فریم میں اس طرح ڈھل گیا ہے کہ اسے افسانوی أرٹ کہنے میں
زبان پر لکنت نہیں آنی چاہیۓ۔ بڑھتی ہوئی چشمک، انا اور نا قدری کا فکری
دودھ پی کر توانا ہونے والی تنقید ی امینو ں کے یہاں افسانے کے سلسلے میں
منصفانہ تنقید ،فکر انگیز تنقید کی کمی کھٹکتی رہتی ہے۔ کسی کو لگتا ہے کہ
تبصرے شعریات کی نذر ہوگۓ۔توصیفی کلمات کے پھول برسا کر خوش کیا جا رہاہے۔
لیکن کبھی انہوں نے اپنے تبصرے میں جھانک کر نہیں دیکھا کہ ان کی حیثیت کیا
ہے۔
ان حاسدوں کے تبصروں کو ایک گندے اور میلے کچیلے مولوی کے استنجے کے سوا
اور کیا نام دیا جا سکتا ہے۔
ایسے لوگ صاحب کتاب بھی ہوگۓ ہیں۔ ۷۰ فیصد افسانچے یو ٹیوب رائل اسٹیگ کی
ہو بہو adaptation ہے یا پھر پڑوسی ملک کے افسا نوں کا کلون clon،کرداروں
کے نام اور کچھ مناظر بدل دیۓ گۓ ہیں۔اب تو منظر بھی الفاظ کے ہیر پھیر کے
ساتھ مل جائیں گے۔
بیس سال پہلے کی "بیسو یں صدی" "شمع" کی کا پیاں چالیس سال پہلے کے "نقوش"
اور "نگار" اٹھالیں سرقہ اور اڑاۓ ہوۓ کلائمکس اور ڈھانچے پر ایک نئ نثری
عمارت کہانی اور افسا نچے کی شکل میں دیکھ اپ حیرت زدہ ہو جأ ئیں گے۔
یہ تمام رسالے میگیز ین ریاستی قومی لائبریری میں محفوظ ہیں۔بہر حال۔۔۔۔۔
کسی اور موقعے پر
وسیم عقیل شاہ کا یہ افسانہ حقیقت اور تخیل کی آمیزش سے تیار ایک ایسے درد
کو زبان کی شگفتگی ،حلاوت ، شیرینی،گھلاوٹ اور کیفیت أفرینی سے ایسی فضا
تیار کرتا ہے کہ قاری کو لگتا ہے کہ تخیل اپنے خیال سے اوپر اٹھ کر اس کے
فکری صفحہ قرطا س پر اس عہد کے درد پارے رقم کررہا ہے۔جو اس ہنگامہ خیز
زندگی میں مجبور اور بےکل أس بن کر بے صدا معدوم ہو رہا ہے۔أشا ایک نمائندہ
کردار ہے جو نئی تہذیب کی کولتاری سڑک پر اپنی شکستہ اثاثے کے ملبے میں دبی
چیخ رہی ہے ۔
ایک مصروف اسٹیشن پر باسو بک ڈپو ۹۹ نمبر اسٹال پر بیٹھی اکیس سالہ أشا کی
کہانی سے تو پہلی نظر میں یہ لگتا ہے کہ بدلتے وقت کے ساتھ کتابوں کے تین
اسٹال سکڑ کر ایک اسٹال میں بدل گیا ہے۔ خاندانی کفالت کا ذریعہ معاش کے
چشمے آہستہ آہستہ سوکھ رہے ہیں۔بک اسٹال سے آمدنی اب ایک خاندان کی کفالت
کرنے سے عاجز ہے ۔أشا ایک شدید مالی بحران سے دوچار ہے آمدنی کے ذرائع میں
قلت اس انتہا کو پہنچی ہے کہ چار ماہ سے کرایہ بھی نہیں دے پائی ہے اب نوٹس
مل گیا ہے۔
پچھلے دو دہا ئیوں سے نئ تہذیب اپنے انسانی علمی ورثے کی مرکزیت سے أہستہ
اہستہ دور ہورہی ہے ۔نئ نسل علم کے حقیقی ماخذ سے دور بغیر پہیۓ والے گھوڑے
پر سوار ورچوئیل virtual دنیا کی اسیر بن چکی ہے۔بچپن کے لاشعوری سلیٹ پر
درج وہ یاد کۓ ہوۓ دھول کھاتے اسباق آج بھی کسی گمشدہ خزانے کی طرح ہمارے
اجتماعی نظام زندگی کے تحت شعور میں پڑے ہوۓ ہیں۔
"ودیا ایک سمندر ہے اور اس کا دوار پستک ہے جی ہاں وہی میں ہوں جس کے پنوں
میں سے گزر کر آپ سمندر میں پڑے موتی نکال لاسکتے ہو"۔
"میں پستک ہوں اور واستو یہی ہے کہ میں ہی آپ کی سچی متر ہوں جو پل پل أپ
کو دشا سمجھاتی ہوں۔"
نئ تہذیب نے اپنا متر بدل لیا ہے ۔تہذیب اپنے کان میں نیا ألہ ڈالے
(دشاہین)بے سمتی کا شکار ہے۔
بے وقعت سرمایہ سے لدی ہوئی پرانی تہذیب
ترقی کے پہیۓ کے بغیر
بے کار کاٹھ کے گھوڑے کی مانند ہے۔
حکمت اور عرفان کے مونگے بیچنے والے کے یہاں اب نئ نسل کانوں میں ہیڈ فون
نگاہ موبائل فون پر جماۓ یہ کہتی ہوئی ملتی ہے
" یہاں ریلائنس کا ریچارج واؤ چر ملے گا"
"اوپری خانوں میں ساری چھوٹی بڑی کتابیں اس قدر اٹ چکی تھی اب ان کے عنوان
تک گرد کی تہوں میں دفن ہو چکے تھے ۔"
افسانہ نگار نے نئ نسل کی کتابوں سے دوری ،اپنے اثاثے سے بےخبری ،قاری کا
کتاب سے ٹوٹتے رشتے کے کرب کو أشا کی زندگی سے مماثلث کرتے ہوۓ دکھایا
ہے۔۲۰سال کے عرصے میں کتابوں کے تین اسٹالوں کا سکڑ کر ایک بے وقعت سرمایہ
سے لدی ہوئی بیکار کاٹھ کے گھوڑے کی مانند رہ جانا دراصل ایک المیہ ہے ۔علم
کی وراثتی عمارت اپنے وارثوں کے بغیر تیزی سے زمین بوس ہورہی ہے۔علم کے
سرماۓ وقت کی دھول میں اٹے اپنے وارثین کی تلاش میں ہیں۔نئ نسلیں اپنے جڑوں
سے غافل نئ تہذیب کے اب وروغن کو کشید کرنے میں جٹیں ہیں۔زمینی زندگی کی
صداقتوں سے غافل نہ دیکھنے والی برقی تاروں پر نئ زندگی اپنے شب وروز کے
سارے تار و پود ڈال چکی ہے۔
ایک نۓ ڈکشن کے ساتھ قاری اور کتاب کے ٹوٹتے رشتوں کو نۓ علائم میں پیش
کرنے کی اچھی کوشش پر وسیم عقیل شاہ کو مبارکباد۔
|