پاکستان میں معاشی ابتری پر قابو پانے کی سرتوڑ کوششوں کے
باوجود تاحال عوام کے حقیقی ریلیف کی کوئی بہترین صورت سامنے نہیں
آرہی،ہوشربا مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے بیشتر دعوے پانی کے بلبلے کی سی
حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ وسائل کی کمی اور معاشی نظم ونسق کے بگاڑ سے کہیں
کوئی اچھا کام ہوتا بھی ہے تو اس سے کہیں زیادہ مسائل اس کام کا کریڈٹ غارت
کردیتے ہیں،سیلاب کی تباہ کاریوں کے مابعد اثرات نے بھی سردیوں کے بڑھنے پر
اپنا اصل رنگ دکھانا شروع کردیا ہے،اس وقت قوم کو یکجا ہوکر قومی مفاد کے
لیے ایک صفحے پر آنے کی اشد ضرورت ہے،ماضی میں ملک اس نہج پر کبھی نہیں
پہنچا،آج مسائل کو مزید گھمبیر بنانے کی نئی روایت بھی سیاست دانوں کے طرز
سیاست نے پیدا کردی ہے،حکومت کے لئے بیک وقت اندرونی و بیرونی دشمنوں سے
نبردآزما ہونے کے سبب بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے،سیاست میں مقدم کیا ہے
اس کے بارے میں حالات کھل کر عوام کے سامنے آچکے ہیں، اب قومی مفاد کی جگہ
اقتدار کے حصول نے لے لی ہے،قومی سطح کے سیاستدانوں کی سوچ کا محوراقتدار
کا حصول ہے،اس کے لئے ہر حربہ استعمال کیا جانے لگا ہے،قومی املاک اور قومی
دولت کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا،سابق وزیراعظم عمران خان
نے اپنے چارسالہ اقتدار کے جوبن پر اپنی ناتجربہ کاری کا اعلان کرتے ہوئے
ملکی مسائل حل کرنے کی بجائے الٹا بگاڑ کی صورت پیدا کرلی تو آگے چل کر
مقتتدر قوتوں کو بھی اس کا شدت سے احساس ہوا،حالات بہتر بنانے کی خاطر
سیاستدانوں کو ایک صفحے پر آنا چاہئے تھا مگر اس کی اقتدار پرستوں نے ضرورت
محسوس نہ کی اور خرابی بڑھتی چلی گئی،ہوشربا مہنگائی سے عوام کی اعلانیہ
چیخیں نکلوانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو حالات نے کروٹ لی،پی ٹی آئی کے
طاقتور حامی بھی‘‘نیوٹرل’’ہوگئے،پارلیمنٹ کے تجربہ کار سیاستدانوں نے بساط
پلٹ کررکھدی اور اس صدمے سے تاحال کپتان باہر نہیں آسکے،خود بہت بڑے کھلاڑی
ہونے کے باوجود اپنی شکست فاش کو کسی غیبی طاقت کی کارستانی قرار دینے پر
بضد رہے،چند ووٹوں کی لولی لنگڑی حکومت کے ختم ہونے پر واویلا شروع
کردیا،کئی بیانیوں پر ڈٹ کر یوٹرن لینے کا سلسلہ شروع کیا گیا،اپنی حکومت
کے خاتمے کو غیرملکی سازش کا شاخسانہ قرار دینے کے طویل بیانیہ سے بھی اب
تو تائب ہوکر یوٹرن لے چکے،عام انتخابات اگرچہ سر پر آچکے ہیں پھر بھی قبل
ازوقت الیکشن کا مطالبہ سمجھ سے بالاتر ہے جس کے لئے ایک نئی چال چلنے کا
اعلان ہوا کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب کی اسمبلیوں کو تحلیل کرکے سیاسی
بحران کے نتیجے میں فوری الیکشن کی راہ ہموار کریں گے،اسمبلیاں توڑنے کے
اعلان کے بعد سے اب تک آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب
میں چودھری پرویز الہٰی شائد انکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکے
ہیں،زبانی کلامی تو انہوں نے عمران خان کی ہاں میں ہاں ملائی تھی مگر اب
خود چیئرمین تحریک انصاف اس بات کا برملا اعتراف کررہے ہیں کہ چودھری
پرویزالہٰی پنجاب حکومت چلانا چاہتے ہیں،ق لیگ کے ساتھ پی ڈی ایم کی مخلوط
وفاقی حکومت بھی اب رابطے تیز کرچکی،پرویز الٰہی نے نہایت مہارت کیساتھ پی
ٹی آئی کے ارکان پنجاب اسمبلی کو ہم خیال بنالیا ہے،صوبے میں تعمیروترقی کا
تیز رفتار جال بچھانے سے ترقیاتی فنڈز ایم پی ایز کو تفویض کرچکے ہیں،صوبے
کے ترقیاتی کاموں کیلئے 726ارب روپے کے فنڈز میں سے 196ارب روپے کے ریکارڈ
فنڈ کا استعمال حکومت پنجاب کا اعزاز قرار دیا جارہا ہے۔جنوبی پنجاب کے
عوام کی ترقی کیلئے 255ارب روپے مختص ہوئے اور اب 600ارب روپے سے زیادہ
فنڈز کے استعمال کا واضح امکان نظر آرہا ہے تو پھر پی ٹی آئی کے ایم پی ایز
کیوں اسمبلی توڑنے والے بیانیہ کا ساتھ دیں گے؟
عمران خان نے پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا منصب مجبوری میں پرویز الہٰی کے
حوالے کیا اور مستقبل کے حوالے سے بھی وہ یہ واضح طور پر کہہ رہے ہیں
کہ‘‘آئندہ انتخابات کے بعد پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کی کوئی بات نہیں
ہوئی،دوسرا ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ عمران خان اب پرویز الٰہی کو
وزیراعلیٰ پنجاب بنواکر پچھتارہے ہیں اور تلما رہے ہیں کیونکہ چودھری پرویز
الٰہی نے انتہائی سمجھ داری،دوراندیشی اور معاملہ فہمی کا بھرپور مظاہرہ
کرتے ہوئے زبان سے حکومت ختم کرنے کے حوالے سے انکار نہیں کیا اور ہاتھ سے
پنجاب حکومت کے نکلنے کا امکان ہی نہیں چھوڑا،چودھریوں کی خاندانی روایات
میں اقتدار کی دراڑ بھی شائد وقتی ثابت ہوئی کیونکہ چودھری شجاعت اور پرویز
الٰہی کے رابطے بحال ہونے کی خبریں قومی اخبارات کی شہہ سرخیوں میں دیکھی
جارہی ہیں،دوسری طرف ن لیگ کے مشروط طور پر پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب
قبول کرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔اس حوالے سے سیاست کے ایک سینئر کھلاڑی آصف
علی زرداری پنجاب میں نئی بساط بچھاچکے ہیں،اس کے باوجود عمران خان پنجاب
اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں رواں ماہ ہی توڑنے پر بضد نظر آتے ہیں،اسی تناظر
میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے ارکان اپنی اسمبلی کی تحلیل کو پہلے پنجاب
اسمبلی تحلیل کرنے سے مشروط قرار دے رہے ہیں،ان حالات میں قومی مفاد کا
تقاضہ تو یہی ہے کہ تمام سیاستدان ملکی معیشت کو استحکام دینے کے لیے تمام
اختلافات کو بھلا کر ایک صفحے پر آکر سوچیں،ورنہ ملکی معیشت کے مزید بگاڑ
سے سیاستدانوں کی خواہشوں کے جنازے ہی نکلیں گے
|