آجکل ملک اور ملک سے باہرپاکستان کے ڈیفالٹ کا بہت ذکر ہو
رہا ہے ایسی باتیں کیوں ہو رہی ہیں اور انکی وجہ کی ہے اس پر سوچنے کی بات
ہے یہ ملک ہمارا گھر ہے اسے ہم سب نے ملکر بچانا ہے ڈیفالٹ سے بھی اور
چوروں،ڈاکوؤں ،لٹیروں اور ٹھگوں سے بھی خواہ وہ کوئی سیاسی ہو ،سماجی ہو ،فوجی
ہو یا بپلک سرونٹ ہو پاکستان کو جتنا لوٹا ،نوچا اور گھسیٹا گیا اور پھر
اسکے باوجود نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا رہا بلکہ ہم جیسے نکمے ،کاہل اور کام
چوروں کو بھی دنیا میں عزت سے نوازتا رہا اور خراج تحسین کے مستحق ہیں وہ
لوگ جو پاکستان سے باہر ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہیں گذشتہ روز جدہ میں
پاکستان کے کونسل جنرل خالد مجید سے ملاقات ہوئی بہت ہی خوبصورت اور نفیس
انسان ہیں کشمیری ہونے کے ناطے پاکستان کا دکھ سمجھتے ہیں اور پاکستانیوں
کی مدد کرکے انکی دعائیں سمیٹتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے وینٹی
لیٹر پر رہنے کے باجود اﷲ تعالی نے انہیں دوبارہ زندگی سے نوازا جنہیں وہ
لوگوں کی دعاؤں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں انکا کہنا ہے کہ پاکستان لوگ اتنے
محنتی ہیں کہ آج بلا شبہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سعودیہ کی ترقی میں ہمارا بہت
بڑا ہاتھ ہے اور یہاں کے ہر پلازے ،سڑک اور میناروں میں پاکستانیوں کا خون
اور پسینہ شامل ہے ہم وہ قوم ہیں جو ملک سے باہر جاکر دوسروں کی ترقی اور
خوشحالی کی ضمانت بن جاتے ہیں لیکن پاکستان میں رہتے ہوئے ہم کاہل اور سست
تو ہوتے ہی ہیں ساتھ نکمے بھی بن جاتے ہیں شائد اسکی وجہ ہمارا طرز حکمرانی
اور نظام زندگی ہے ملک کی ایک نکر سے دوسرے کونے تک ہر طرف لوٹ مار کا
بازار گرم ہے پاکستان سے اربوں روپے لوٹ کر بیرون ممالک منتقل کردیے گئے
اور اب تو نیب قوانین بھی بدل چکے ہیں خیر سے جتنی مرضی کوئی لوٹ مار کرلے
کچھ نہیں ہو گا ہاں چھوٹے چور جیسے جوتی چور ،پنکھا چور ،نلکا چور ،روٹی
چور اور سائیکل چور کے لیے بہت سی سزائیں ہیں اگر وہ نامراد موقعہ پر ہی
دھر لیا جائے تو اسی وقت عوامی عدالت لگتی ہے ہر معزز اور قابل فخرشہری
ڈنڈے ،سوٹے ،پیٹرول اور گنڈاسوں سے اس چور کو مار مار کر مار دیتے ہیں اور
پھر بھی انکی تسلی نہیں ہوتی اسکے بعد پیٹرول چھڑک کر آگ لگا کر اس چور کا
صفحہ ہستی سے صفایا کردیا جاتا ہے اسی دوران اگر کوئی اربوں روپے لوٹنے
والا سیاسی ٹھگ انکے قریب بڑی سی گاڑی سے اترے تو سبھی سیلفیاں لے لیکر اپ
لوڈ کرنا شروع کردینگے جس دن اس قوم کو عقل آگئی تو پھر کیا ذرا اندازہ
لگائیں جو قوم ایک چھوٹے چور کا اتنا برا حشر کرتی ہے بڑے چوروں کے ساتھ
کیا سلوک کریگی خیر میں بات کررہا تھا ڈیفالٹ کی جسکا آج ہر پاکستانی ثواب
سمجھ کر دن میں کئی بار ذکر تا ہوا نظر آتا ہے ڈیفالٹ ہے کیا اسکی کتنی
قسمیں ہیں اورہمارا اس لسٹ میں نمبر کونسا ہے جو جاری ہو چکی ہے ڈیفالٹ ایک
قرض پر مطلوبہ سود یا اصل ادائیگی کرنے میں ناکامی کا نام ڈیفالٹ ہے چاہے
وہ قرض ہو یا سیکیورٹی ہو مختلف افراد، کاروبار اور یہاں تک کہ ممالک بھی
اپنے قرض کی ذمہ داریوں میں ڈیفالٹ کر سکتے ہیں جب کوئی ملک قرض نادہندہ
ہوتا ہے تو اسے قرض جمع کرنے والی ایجنسی کو بھیجا جاتا ہے جس کا کام آپ سے
بلا معاوضہ فنڈز اکٹھا کرناہوتا ہے قرض کا ڈیفالٹ ملک کے کریڈٹ سکور کو
کافی حد تک کم کر سکتا ہے اور پھر مستقبل کی اہلیت کو متاثر کر سکتا ہے اور
یہاں تک کہ قرض دہندہ آپ کی ذاتی جائیداد پر قبضہ کر سکتا ہے ڈیفالٹ کی
مختلف قسمیں ہیں ان میں عدم ادئیگی ،عدم موجودگی،داغ،غلطی،کمی،عیب،کم
لاپرواہی،نظر انداز،نامکملیت،ناکافی،خرابی، غفلت،بھول،نظر انداز نگرانی
اورپرائیویشن بھی شامل ہیں یہ چھوٹی چھوٹی کامیاں ملک کر ایک بڑے خطرے کو
دعوت دیتی ہیں جسے ڈیفالٹ کہا جاتا ہے اس وقت سری لنکا، سورینام اور زیمبیا
پہلے ہی ڈیفالٹ میں ہیں بیلاروس خطرے کے دہانے پر ہے اور کم از کم ایک اور
درجن خطرے کے زون میں ہیں پاکستان تیسرے نمبر پر کھڑا ہے اور نیرو چین کی
بانسری بجانے میں مصروف ہے لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور خبر ہے کہ روز ویلٹ
ہوٹل کو بھی سستے داموں فروخت کیا جارہا ہے اس بارے میں پہلے بھی خبریں گرم
تھیں لیکن بک نہ سکا شائد میڈیا میں آنے کے بعد ایسا ہوا اب پھر روز ویلٹ
ہوٹل کی فروخت کے حوالہ سے اندر خانے باتیں چل پڑی ہیں میں نے آج صرف
ڈیفالٹ پر لکھنا تھا مگر اب بات روز ویلیٹ کی چل پڑی ہے تو پاکستانیوں کو
علم ہونا چاہیے کہ یہ ہمارا وہ قیمتی اثاثہ ہے جسکا شمار نیویارک کی قدیم
ترین بلڈنگوں میں ہوتا ہے جو ان لوگوں کے لیے بھی ایک اثاثے کی حیثیت رکھتی
ہے یہ بلڈنگ بھی ڈیفالٹ ہونے پر بکنے کے بعد پاکستان کے پاس آئی تھی اب اگر
اس کو اونے پونے داموں کسی اپنے فرد کو نوازنے کے لیے فروخت کردیا گیا تو
یہ پاکستان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی اس ہوٹل کی تفصیل سے پہلے لکھنے سے
پہلے اتنا بتا دوں کہ وہاں کا سٹاف اپنے حکمرانوں کے ساتھ ملکر بندر بانٹ
میں مصروف ہے سب سے پہلے تو عملے کی چھٹی کرواکر سب کا آڈٹ کروایا جائے اور
کون کس کی سفارش پر وہاں رکھا ہوا ہے یہ بھی بتایا جائے رہی بات اس عظیم
بلڈنگ کی جسے روز ویلٹ کہا جاتا ہے یہ ہوٹل نیویارک شہر کے مڈ ٹاؤن مین ہٹن
محلے میں 45 ایسٹ 45 ویں اسٹریٹ (میڈیسن ایونیو اور وینڈربلٹ ایونیو کے
درمیان) موجود ہے امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ کے اعزاز میں اس ہوٹل کو نیو
یارک نیو ہیون اور ہارٹ فورڈ ریل روڈ نے تیار کیا تھا 19 منزلہ بلڈنگ
کاڈھانچہ جارج بی پوسٹ اینڈ سن نے ڈیزائن کیاجو اطالوی نشاۃ ثانیہ کے طرزپر
تاریخی امریکی عمارتوں سے مشابہت رکھتا ہے اس دور میں روزویلٹ ٹرمینل سٹی
کے حصے کے طور پر گرینڈ سینٹرل ٹرمینل کے آس پاس تیار کیے گئے کئی بڑے
ہوٹلوں میں سے ایک تھاہوٹل کی عمارت میں 1916 زوننگ ریزولوشن کے ساتھ ساتھ
میڈیسن ایونیو پر تیسری منزل کے اوپر لائٹ کورٹس ،گراؤنڈ لیول میں زیادہ تر
اسٹورز او تیسری سے 18ویں منزل تک 1,025 کمرے ہیں جب روزویلٹ کھلا تو اس
میں کئی نئی خصوصیات شامل تھیں روزویلٹ ہوٹل 23 ستمبر 1924 کو کھولا گیا
اور اسے اصل میں نیو یارک یونائیٹڈ ہوٹلز انکارپوریٹڈ چلاتا تھا جو
یونائیٹڈ ہوٹلز کمپنی کا ایک ذیلی ادارہ تھا۔ 1934 میں نیو یارک یونائیٹڈ
ہوٹلز کے دیوالیہ ہونے کے بعد روزویلٹ ہوٹلز انکارپوریشن نے ہوٹل پر قبضہ
کر لیا ہلٹن ہوٹلز نے 1943 میں روزویلٹ کا انتظام سنبھال کر بالآخر ہوٹل کی
مکمل ملکیت حاصل کر لی اور عدم اعتماد کے مقدمے کے بعد اسے 1956 میں ہوٹل
کارپوریشن آف امریکہ کو فروخت کر دیا نیو یارک سینٹرل کے زیر انتظام چلنے
والی ایک ہولڈنگ کمپنی ریئلٹی ہوٹلز نے 1964 میں ہوٹل کو سنبھالا اورپھر
پال ملسٹین نے 1978 میں ہوٹل حاصل کیا اور اگلے سال پاکستان انٹرنیشنل ایئر
لائنز (پی آئی اے) کو ہوٹل لیز پر دیاجس کے بعد پی آئی اے اور شہزادہ فیصل
بن خالد بن عبدالعزیز السعود نے یہ ہوٹل 2000 میں خریدلیا اور پھر پی آئی
اے نے شہزادہ فیصل کی ملکیت کا حصہ بھی حاصل کر لیا اور اب اس تاریخی ہوٹل
کو فروخت کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں ہمیں اپنے اثاثوں کو بھی بچانا ہے اور
ڈیفالٹ سے بھی نکلنا ہے ضرورت صرف ایماندار قیادت کی ہے جو پاکستان کو
پستیوں سے نکال کر بلندیوں کی طرف لے جائے ۔
|