2019 ء میں سیاحتی دورے پر قطر گیا تو مجھے اندازہ
ہوا کہ قطر میں یورپ اور آسٹریلیا کی نسبت کہیں ارزانی ہے۔ حالانکہ قطر اس
وقت پڑوسی عرب اور مسلمان ملکوں سعودی عرب او رمتحدہ عرب امارات کی طرف سے
سخت معاشی پابندیوں کا شکار تھا۔آغاز میں جب یہ پابندیاں لگیں تو اس کے
اثرات شدید تھے۔ ایک دو ماہ قطریوں پر بہت بھاری گزرے۔ دراصل انہوں نے کبھی
سوچا نہیں تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس حد تک جا سکتے ہیں۔
سعودی عرب کا ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان جوشِ جوانی میں تھا۔ اسی جوش
میں اس نے یمن کے حوثیوں پر حملہ کیا ۔اسلحہ سے لیس ہونے اور امریکہ کی مدد
کے باوجود یہ جنگ ابھی بھی جاری ہے۔ سعودی عرب یہ چاہتا تھا کہ قطر بھی اس
جنگ میں شریک ہو۔ جبکہ قطر چین کی طرح جنگ سے دور رہ کر معاشی ترقی کی بلند
ترین سطح پر گامزن رہنا چاہتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمان ملکوں کی
گروہ بندی کے خلاف اور غیر جانب دار رہنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس نے ا
یران کے خلاف قائم ہونے والے اتحاد میں بھی حصہ نہیں لیا۔ قطر کے امیر شیخ
شمیم بن حماد کی ان پالیسیوں کا سعودی عرب کے ولی عہد نے بہت برا منایا اور
اچانک قطر پر معاشی اور دیگر پابندیاں عائد کر دیں۔ یوں سعودیہ اور یو اے
ای کے راستے جو اشیائے خورد و نوش قطر میں آتی تھیں، آنا بند ہو گئیں۔ اس
صورتِ حال سے قطری حکومت خاصی پریشان ہوئی ۔مگر انہوں نے جوان مردی سے اس
صورتِ حال کا مقابلہ کیا۔انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر ترکی، چین، ایران،
پاکستان اور یورپی ممالک سے یہ اشیا منگوانا شروع کر دیں۔ یو اے ای اور
سعودی عرب کا فضائی راستہ بند ہونے کی وجہ سے ان کا سفر مزید طویل ہو گیا
مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اس مسئلے کا حل مستقل بنیادوں پر کیا۔ مثال
کے طور پر دودھ، دہی، مکھن وغیرہ کی کمی پوری کرنے کے لیے دس گیارہ ہزار
بھینسیں اور ان کا چارہ فوری در آمد کیا۔ اشیائے خورد و نوش سے بھرے جہاز
ترکی اور دوسرے ممالک سے آنا شروع ہو گئے۔ یوں قطر کی حکومت نے اپنے بر وقت
اقدامات کے ذریعے اپنی عوام کو پریشانی سے بچا لیا۔
یورپی ممالک کی نسبت قطر میں ارزانی کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں افراد کا
معاوضہ یورپ کی نسبت بہت کم ہے۔ آسٹریلیا، امریکہ اور یورپ میں کسی بھی
کاروبار میں سب سے زیادہ اخراجات افراد کا معاوضہ ہوتا ہے۔ ان ممالک میں
قانون کے مطابق کم از کم معاوضہ طے ہے، جو کاروبار چلے یا نہ چلے بہر صورت
پورا ادا کرنا پڑتا ہے۔ ملازمین کو اوور ٹائم، رات اور ہفتہ وار تعطیلات کے
دوران کام کرنے کا اضافی معاوضہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی چھٹیوں کی تنخواہ،
ان کیSupper Annuation اور ان کا ٹیکس بھی آجر ادا کرتاہے۔ یوں یورپ میں
وہی کاروبار پنپ سکتے ہیں جو یہ تمام اخراجات ادا کرنے کے قابل ہوں۔
لیکن قطر میں ملازمین کو یہ سہولیات میسر نہیں ،جس کا احسا س مجھے قطر
پہنچتے ہو گیا۔ہوٹل کے کمرے میں جاکرمیں نے سامان کھول کر فون چارجر نکالا۔
مگر پلگ ساکٹ میں نہیں گیا۔ جب اس کا حل سمجھ نہیں آیا تو میں نے استقبالیہ
پر فون کیا اور انہیں اپنا مسئلہ بتایا۔منیجرنے کہا ۔’’قطر کے لیے آپ کو
الگ پلگ خریدنا پڑے گا۔ا ٓپ چائیں تو ملازم بھیج کر ابھی منگوا لیتا ہوں۔‘‘
’’ابھی‘‘ میں نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جہاں اڑھائی بج رہے تھے۔ پورپ
کے کسی ہوٹل میں ہوتا تو اس وقت کوئی ملازم بات کرنے کے لیے بھی دستیاب نہ
ہوتا۔ لیکن یہاں منیجر کہہ رہا تھا۔ ’’جی ابھی آجائے گا یہی کوئی پانچ ریال
لگیں گے۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے منگوا لیں‘‘۔ آسٹریلین پسِ منظر کے ساتھ یہ سب کچھ
میرے لیے انوکھا تھا اور بیان کرنے کی وجہ بھی یہی ہے۔ تھوڑی دیر بعد ملازم
پلگ لے کر میرے دروازے پر موجود تھا۔
یہاں پر آسٹریلین نظامِ معیشت کی ایک اہم بات کا ذکر کرتا چلوں کیونکہ
پاکستان میں آج کل یہ موضوع اکثر زیر بحث رہتاہے۔ آسٹریلیا میں آپ کوئی بھی
کاروبار کریں آمدنی کا تیس فیصد حصہ ٹیکس کی شکل میں حکومت کو ادا کرنا
پڑتا ہے۔ یہ ملازمین کے ٹیکس، پنشن اور دیگر مراعات کے علاوہ ہے۔ یوں حساب
لگایا جائے تو آمدنی کا نصف حکومت کے خزانے میں پہنچ جاتا ہے۔ اس سے کوئی
بھی کاروبار چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑامبرّا نہیں ہے۔ اس لیے حکومت کے پاس
اتنی رقم جمع ہو جاتی ہے کہ وہ بے فکر فلاحی اور ترقیاتی کام کرتے چلے جاتے
ہیں۔ کیا پاکستان کی عوام اور کاروباری حضرات یہ قربانی دینے کے لیے تیار
ہیں۔ اگر نہیں تو پھر حکومت سے شکوہ کرنا چھوڑ دیں۔ حکومت کے ساتھ لو اور
دو والا معاملہ ہوتا ہے۔ صرف لینے پر اصرار مناسب نہیں۔ کچھ لینے کے لیے
کچھ دینا بھی پڑے گا۔ پوری دنیا میں یہی طریقہ رائج ہے۔
جہاں تک ملازمین کے حقوق کا تعلق ہے۔ آسٹریلیا میں ملازمین کے حقوق اتنے
زیادہ ہیں اور قانون ان کی اس طرح پشت پناہی کرتا ہے کہ مالک ان سے دُرشت
لہجے میں بات تک کرنے کا مجاز نہیں ہے۔طے شدہ کام کے علاوہ ان سے فالتو کام
نہیں لے سکتا۔ ان پر ذہنی، نفسیاتی یا جسمانی دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ اس لیے
مالکان ہوں یا افسران وہ اپنا کام خود کرتے ہیں۔ وہ ذاتی کام کے لیے کسی
ملازم کو نہیں کہہ سکتے۔ جب تک میں پاکستان میں تھامجھے اس بات کا احساس
نہیں تھا کہ یہاں ملازمین کے ساتھ کتنی زیادتی ہوتی ہے۔ جب ملک سے باہر گیا
تو معلوم ہوا کہ اندازِ جہاں کچھ اور ہے۔ اور ملازم ہونے کا یہ مقصد ہر گز
نہیں ہے کہ آپ نے خود کو فروخت کر دیا ہے۔ پاکستان میں ملازمت کے دوران میں
نے ایک ہی بات سیکھی کہ باس کو خوش رکھو۔ اب بھی ملازمین کی اکثریت یہی کام
کرتی ہے۔ ملازمین کو ذہنی اذیت پہنچائی جاتی ہے اور ان کی صلاحیتوں کو
پنپنے نہیں دیا جاتا۔ نہ ان سے ملک و قوم کے لیے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ یوں
کتنے ہی چراغ جو قوم و ملک کانام روشن کر سکتے تھے ہمیشہ کے لیے بجھا دیے
جاتے ہیں۔
گزشتہ برس میں پاکستان میں تھا ۔میرے ایک دوست نے جو تقریباً پچیس برس سے
ایک سرکاری محکمے میں ملازم ہیں ایک شام میرے ساتھ ایک تقریب میں جانا
تھا۔ان کی چھٹی پانچ بچے ہوتی تھی اور چھ بجے ہم نے گھر سے روانہ ہوتا تھا۔
اس شام میں انتظار کرتا رہ گیا مگر وہ صاحب نہ آئے ۔اس ادارے میں موبائل لے
جانے کی اجازت نہیں ہے لہٰذا ان کی کوئی خبر نہیں تھی۔ آٹھ بجے ان کا فون
آیا اور بولے ۔’’سوری میری ابھی چھٹی ہوئی ہے۔‘‘ میں نے پوچھا ۔’’ کیوں،
کیا کوئی ہنگامی کام آ گیا تھا؟‘‘ بولے ۔’’یہ بات نہیں تھی، دراصل ہمارا
افسر کسی وجہ سے رکا ہوا تھا اس لیے دفتر کا کوئی شخص اُٹھ کر نہیں گیا۔‘‘
میں انگشتِ بدنداں رہ گیا۔یہ واقعہ اگر کسی یورپین یا آسٹریلین کو سنایا
جائے تو اسے یقین نہیں آئے گا کہ کسی دیس میں ایسا بھی ہوتا ہے۔ یورپ میں
اگر کوئی افسر یہ حرکت کرے تو اس کے خلاف کیس بن جائے گا کہ ملازمین کو
حبسِ بے جا میں رکھا ۔
بہرحال تین ملکوں کے تقابلی جائزہ سے ان کی طرزِ معیشت و معاشرت کا سرسری ا
ندازہ ہو جاتا ہے اور یہ بھی کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔
|