خوجک سرنگ کی دلچسپ کہانی
خوجک سرنگ کے بارے میں سطحی معلومات ہر وہ شخص رکھتا ھے جس کو 2005 تک
چھپنے والی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا پانچ روپے کا نوٹ یاد ھے۔ یوں تو چمن
شہر اور اس کے خوجک پاس سے متعدد بار گزرنے کا موقع ملا مگر یہ عام سفر خاص
تب بنا جب شیلا باغ ریلوے اسٹیشن جانے کا موقع ملا اور وہاں واقع خوجک ٹنل
دیکھنے کا موقع بھی میسر آیا۔
آج سے ایک سو تیس سال قبل برطانوی انجینئرز نے مقامی و ہندوستانی مزدوروں
کی مدد سے 3.9 کلومیٹر طویل جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا سرنگ خوجک یا کوژک
کامیابی سے تعمیر کرلیا تھا۔
خوجک سرنگ پر کام کا آغاز 14 اپریل 1888 ء میں ہوا اور صرف تین سال کے عرصے
میں ہزاروں مزدوروں نے اپنے قوت بازی سے اس سرنگ کو 5 ستمبر 1891 مکمل
کرلیا تھا۔
اس دور کے حوالے سے کچھ مصدقہ و غیر مصدقہ کہانیاں عام پائی جاتی ھے جیسے
کہ مشہور ھے کہ؛
انگریز سرکار نے اس سرنگ کی کھدائی کے لیے جس چیف انجینئیر کی خدمات حاصل
کی تھی اس نے پہاڑ کا سروے مکمل کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اگر پہاڑ کے
دونوں اطراف سے کھدائی کا کام شروع کیا جائے اور یہ کام مسلسل جاری رہےتو
تین سال چار ماہ اور 21 دن کے اندر دونوں اطراف کے مزدور آ ملیں گے۔ کہا
جاتا ھے کہ پروجیکٹ کے آخری دنوں میں افواہیں پھیلنے لگی کہ انجینئر کا
سروے غلط ثابت ہوا ھے اور دونوں اطراف سے کام کرنے والے مزدور غلط سمت میں
آگے بڑھ رہے ہیں ان افواوں نے مزدوروں میں بے چینی اور مایوسی پیدا کردی
تھی جبکہ چیف انجینئر بھی زہنی کوفت کا شکار ہوگیا تھا۔ انجینئر نے اپنے
بتائے گئے مقررہ وقت پر ٹنل کے دونوں اطراف کے مزدوروں کا آپس میں نہ ملنے
پر خود کو پہاڑ سے نیچے پھینک کر خودکشی کرلیا تھا جبکہ اسی رات کے آخری
شفٹ میں کام کرنے والے دونوں اطراف کے مزدور کچھ ہی گھنٹے بعد سرنگ کے آپس
میں مل گئے۔ بعد میں کئے جانے والے تحقیقات میں یہ پتہ چلا کہ انجینئر کا
اندازہ بالکل درست تھا، ایک دن مزدوروں نے لاپروائی کا مظاہرہ کرکے پورا دن
کام نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے سرنگ کے دونوں سرے اپنے مقررہ وقت سے ایک دن
قبل نہ مل پائے۔
یہ بھی کہا جاتا ھے کہ انگریزوں نے سرنگ کی کھدائی کرنے والے مزدوروں کی
تفریحی و توانائی کے لیے ہندوستان کی ایک مشہور رقاصہ "شیلا" کو مذکورہ
ریلوے اسٹیشن پر لے آئے تو جو کہ رقص کرکے مزدوروں کو تفریح فراہم کرتی تھی
اور شیلا کی نسبت مذکورہ ریلوے اسٹیشن کا نام شیلا باغ مشہور ہوا۔ تاہم کچھ
مورخ شیلا نام کو شیلا رقاصہ کی بجائے پشتو لفظ سے منسوب کرتے ہیں جس سے
مراد پہاڑی چشمہ یا پہاڑی ندی قرار دیتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ھے شدید سردی کی وجہ سے 800 سو مزدور نمونیا اور ٹائفائڈ
کا شکار ہوکر مرگئے تھے جن کو شیلا باغ کے اردگرد دفنایا گیا تھا۔
اس سرنگ کی میں مزید دلچسپ چیزیں یہ ھے کہ اس میں ایک گیٹ کی سہولت بھی دی
گئی تھی جو بند بھی ہوسکتی ھے۔
شدید گرمی میں آپ سرنگ کو قریب جائیں تو ایک ٹھنڈی ہوا سرنگ سے باہر کی
جانب آتی ھے جس کا اپنا ایک لطف ھے۔
یہ مقام جسے عوام کی تفریحی کے لیے وقف ہونا چاہئیے تھا جس سے سیاحت کو بھی
فروغ ملتا مگر اس کے قریب جانا یا تصاویر کھینچنے کے لیے اجازت درکار ھے۔
|