اُن کا خیال تھا کہ عمران خان کا اعلان بھی نواز شریف کی
واپسی کے اعلان جیسا ہے۔ کچھ کے تو بول بول کے گلے خشک ہو گئے اور کچھ نے
قلم گھسیٹ گھسیٹ کر منوں ٹنوں کاغذ سیاہ کر دیا۔ اپنی حکومتیں خود توڑنا
کوئی خالہ جی کا گھر ہے۔ یہاں تو بلدیاتی انتخابات میں مضبوط امیدوار سامنے
آجائے تو لوگ اُس کے لیے سُپاری والا ڈھونڈتے ہیں۔ ہمارے ہاں Status Quoکا
سیاسی کلچر ایسا ہے جس کے اصول نرالے ہیں‘چمڑی جائے مگر دمڑی نہ جائے۔
عہدہ‘ مراعات اور نواز شات ملنی چاہئیں‘ عزت آنی جانی شے ہے۔ ارد گرد
دیکھئے اس طرح کے گروہ نہیں لشکر ملتے ہیں۔ ایسے میں ایک اکیلا شخص جس کو
سیاست کے گُرو گھنٹال سیاستدان ہی نہیں مانتے وہ 23تاریخ کو ملک کے
پارلیمانوں میں سے 66 فیصد اپنے لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے گھر بھیج دے گا۔
اُسے کہا جاتا ہے صوبہ پنجاب اور KPکی حکومتیں گئیں تو تمہاری پناہ گاہ ختم
ہو گئی۔ وہ گولیاں کھانے کے بعد خون کی ندی میں سے گزر کر بھی آرام سے
نہیں بیٹھا۔ ایک ایسے سیاسی کلچر میں جس نے پاکستان کو غریب کر دیا اور اُس
کے حکمران اتنے امیر کہ فلپائن کے مارکوس اور اُس کی بیوی امیلڈا‘ اُن کے
سامنے دونوں پانی بھرنے والے نظر آتے ہیں۔
کسی زمانے میں ایسے لوگوں کا دفاع اور وکالت کرنے والوں پر ستم بالائے ستم
کا محاورہ استعمال ہوتا تھا۔ اب یہ محاورہ بولتے ہوئے بھی ہنسی آتی ہے۔ اب
آپ اسے ادبِ لطیف میں گد گدی بھی کہہ سکتے ہیں۔ بے رحمانہ۔ آج میں آپ
کواپنے استعفوں کی کہانی بھی سنانا چاہ رہاہوں۔ اس لیے کہ اہم ترین عوامی
عہدوں سے میرے استعفے آج کے موضوع کے حسب ِ حال ہیں۔ لیکن پہلے یہ جان
لیجئے کہ عمران خان حقیقی آزادی مارچ کےClimaxپر اپنی دو حکومتوں کو توڑنے
کی طرف کیسے پلٹ گئے۔ حقیقی آزادی مارچ کا بنیادی مقصد تباہ کن معاشی
حالات‘ اُداس کر دینے والے غیر آئینی فیصلے اور بے رحم سیاسی عدم استحکام
کے تسلسل کو توڑنا تھا۔
عمران خان نے سائفر زدہ رجیم چینج آپریشن کے بعد 65سے زیادہ میگا عوامی
جلسے منعقد کیے اور اپنے مؤقف کو دلائل کے ساتھ قوم کے سامنے پیش کرتا چلا
گیا۔ ہر جلسہ پہلے والے سے بڑا تھا۔ ان جلسوں کی خاص بات یہ رہی کہ نہ قیمے
والے نان بانٹے گئے‘ نہ شرکا کی شکم سیری کے لیے شیرمال کا ناشتہ اور برین
واشنگ والی بریانی پیش کی گئی۔
دور دراز سے معذور‘ انتہائی بزرگ‘ سینئر سٹیزنز‘ ایکس سروس مین‘ خواتین‘
بچے‘ فیملیز اپنی ٹرانسپورٹ اور اپنے وسائل کے ساتھ ان جلسوں اور حقیقی
آزادی مارچ میں دور دراز سے آئے۔ مارچ شروع ہوا تو جی ٹی روڈ کے دونوں
جانب چڑھدا پنجاب اور لہندا پنجاب کے بطن تک علیحدہ علیحدہ مارچ چلنا شروع
ہو گئے۔ یہاں ایک پُر لطف بات یہ بھی سُن لیجئے کہ کچھ خواتین و حضرات ایسے
بھی تھے جوان جلسوں میں خالی جگہ تلاش کر نے کے لیے خفقان‘ ہیجان‘ خلجان کی
سطح سے اوپر اُٹھ کر ہلکان ہونے تک جاپہنچے‘ لیکن عمران خان کی عوامی پذیر
ائی کی گرد کو بھی یہ پروپیگنڈا چھو نہ سکا۔
اسی سفر میں وزیر آباد کا شہر آگیا۔ جہاں شکاری گھات لگا کر بیٹھے ہوئے
تھے‘ بالکل ویسے ہی جیسے کینیا کی شکار گاہ میں ارشد شریف کو Hunt Downکرنے
کے لیے شکاری شکار کے انتظار میں تھے۔ عمران خان کو جتنی گولیاں ماری گئیں
اُن سے بچنا معجزہ تھا‘ جو لگیں اُسے لاہور کے بڑے میڈیکل ڈاکٹر
Miracleقرار دے رہے ہیں۔
دو گولیاں خون کی سب سے بڑی Arteryکے پاس کھڑی ہو گئیں جیسے فرشتہ ٔاجل نے
کہا ہو‘ ابھی نہیں! عمران خان اب بھی ان زخموں کے Healing Processسے گزر
رہے ہیں۔اگلے روز میں زمان پارک اُن کے گھر میں بیٹھا تھا وہ مجھے گولی کا
زخم کھانے کے تجربے کے بارے میں بتا رہے تھے۔ کہنے لگے: فائرنگ سے ہِٹ ہونے
کے بعد میں گرا تو مجھے کوئی درد کسی جگہ نہیں ہو ا۔ میں نے اپنے کندھے‘
چھاتی‘ گردن اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں بچ گیا ہوں۔
پنڈلیوں‘ ٹانگوں اور گھٹنے میں یوں لگا کہ جیسے آگ کا شعلہ اندر سے انہیں
جلا رہا ہے۔
کچھ نیک دل خواتین و حضرات کے لیے یہ سب کا سب مذاق ہے۔ میں اس سے پہلے
پوٹھوہار کے علاقے کے دو معروف لوگوں کے پیٹ میں گولی لگنے اور دوسری طرف
سے Exitہونے کے تجربے اُن کی زبانی سُن چکا ہوں۔ جن میں سے ایک میرا عزیز
جی ٹی روڈ پر واقع تاریخی شہر روات کے علاقے کی یونین کونسل کاچیئرمین تھا
اور دوسرا راولپنڈی سے میرا کلائنٹ اور PDM سینیٹر۔ بس اتنا کہنا کافی
ہے‘جس تن لاگے‘ سوتن جانے۔
یہاں سے مارچ نے نیا ٹرن لیا۔ یہ دنیا کا واحد سیاسی مارچ تھا جس میں سے
قائد نکل گیا لیکن مارچ پھر بھی چلتا رہا۔ عمران خان کے بغیر یہ مارچ مختلف
شہروں سے ہوتا ہوا تین سو کلومیڑ کا سفر طے کر کے بالآخر راولپنڈی آن
پہنچا۔ اس سارے عرصے میں جو تیاریاںپاکستان تحریک انصاف نے کیں وہ سنگل
پوائنٹ احتجاجی ایجنڈے پر مر کوز تھیں۔ ہر حال میں اسلام آباد جانا ہے۔
لاکھوں کے مجمع کے سامنے چند سو کنٹینرز کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اتنے بڑے
Mobکو گولیوں کی بوچھاڑ کے علاوہ کسی طریقے سے نہیں روکا جا سکتا تھا۔ ایسے
میں کچھ بیرونِ ملک اور کچھ اندرونِ ملک لوگ آگ کی زباں اور آتشیں لہجے
میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ اسلام آباد کے ریڈ
زون کو ICTکے شرقی ضلع کے سارے سیکٹر زتک بڑھا دیا گیا۔ زیرو پوائنٹ سے
فیصل مسجد تک تمام رہائشی اور کمرشل علاقے اس میں شامل تھے۔ احتجاجی عمران
خان نے گہری سانس لی جس میں سے Statesmanاُبھر کر سامنے آیا۔ یوں خون
آشام احتجاج کے خواب دیکھنے والے خوف کی لہر میں ڈوب گئے۔ اس خوف کے دو
نام ہیں‘ ایک عمران خان اور دوسر ا عوام۔
جو 70فیصد سے لے کر 75فیصد تک فوری الیکشن کے مطالبے پریک زبان اور اکٹھے
ہیں۔
|