حجاب کے معاملے پر ایران کے خلاف مغربی اور یورپی یونین
ممالک کی جانب سے پابندیاں عائد کئے جارہے ہیں۔ حجاب اسلام کے تشخص کو
اجاگر کرتا ہے ۔ خواتین کو عزت و احترام فراہم کرتا ہے۔ پردہ نشین خواتین
اور لڑکیاں اور اپنے گھر کے باہر نکلتے ہیں تو مکمل حجاب میں رہنا پسند
کرتی ہیں اور کیوں نہ ہو انہیں جو عزت و احترام شریعت مطہرہ نے دیا ہے۔
ایران اور افغانستان میں مکمل حجاب یا درست حجاب پہننا لازمی ہے۔ جن جن
ممالک میں خواتین حجاب میں نکلتی ہے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے
اور ان ممالک میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات بھی نہ ہونے کے برابر
دکھائی دیتے ہیں۔ دشمنانِ اسلام نیمسلم خواتین کو بے پردہ کرنے اور اسلام
کے تشخص کو پامال کرنے کیلئے ہمیشہ حجاب کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں ۔
افغانستان اور ایران کی حکومتیں جس طرح خواتین کو مکمل حجاب میں رہنے کیلئے
سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں ۔ان ممالک کی حکومتوں کے خلاف ملک و بیرون ملک
احتجاج جاری ہے ۔ واضح رہے کہ سال رواں ماہِ ستمبر میں ایران کی ایک 22سالہ
طالبہ مہسا امینی کو درست حجاب نہ کرنے کی وجہ سے ایران کی اخلاقی پولیس نے
حراست میں لیا تھا جہاں دوران حراست انکی موت واقع ہوگئی تھی اسکی ہلاکت کے
بعد اخلاقی پولیس کے خلاف احتجاج کا آغاز ہوا تھا اور پھر یہ احتجاج پُر
تشدد ہوتا گیا ، سیکیوریٹی فورسز کی جانب سے احتجاجیوں کے خلاف سخت
کارروائی کی گئی اس طرح یہ پُرتشدد احتجاج میں بدل گیا۔ پُرتشدد احتجاج اور
سخت کارروائیوں کی وجہ سے ایران کی ساکھ عالمی سطح پر متاثر ہوئی ہے۔ایرانی
حکومت کا احتجاجیو ں سے نمٹنے کیلئے سخت رویہ اور احتجاجیوں کی پرُتشدد
کارروائیو ں کی وجہ سے سینکڑوں احتجاجی اور سیکیوریٹی عہدیدار ہلاک یا زخمی
ہوگئے۔ احتجاج میں حصہ لینے والے دو نوجوان مجید رضا اور محسن شیکری جنکی
عمریں 23،23سال بتائی جارہی ہے انہیں پھانسی کی سزادے دی گئی اور ان پر
’’خدا کا دشمن‘‘ہونے کا الزام لگایا گیاجو ایرانی قانون کا حصہ بتایا جاتا
ہے۔ایرانی عدلیہ نے مزید افراد کو پھانسی کی سزا سنائی ہے ۔ حقوق انسانی کی
تنظیمو ں کے مطابق انکے علاوہ درجن بھر افراد کو ایسے الزامات کا سامنا ہے
جن پر انہیں سزائے موت ہوسکتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی عدلیہ نے
حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والے 400افراد کو جیل بھیجنے کا
حکم دیا اور ان کو 10سال تک کی سزائیں سنائی گئی ۔ حجاب سے متعلق سخت رویہ
اپنائے رکھنے پر ایرانی حکومت کے خلاف اقوام متحدہ کے کمیشن برائے خواتین
میں رکنیت منسوخ کردی گئی ہے۔ عرب نیوز کے مطابق جمعرات کوامریکہ کی جانب
سے تجویز کردہ قرار داد رائے شماری کیلئے پیش کی گئی کہ اقوام متحدہ کے
خواتین کی حیثیت پر کمیشن سے ایران کی رکنیت فوری طور پر ختم کی جائے۔
45اراکین پر مشتمل اقوام متحدہ کی معاشی اور سماجی کونسل نے قرار داد منظور
کرلی ۔ کونسل کے 29اراکین نے قرار داد کے حق میں ، 8اراکین نے اس کے خلاف
جبکہ 16رکن ممالک نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔ واضح رہے کہ ایران
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے خواتین کا سال 2022سے رکن ہے جس کی مدت 2026میں
ختم ہونی تھی، تاہم قرار داد کی منظوری کے بعد ایران اب اس کا حصہ نہیں
رہا۔ رکنیت منسوخ کئے جانے کے بعد اقوام متحدہ میں ایرانی مستقل مندوب امیر
سعید ایروانی نے امریکی قیادت میں کئے گئے اس فیصلے کو ’’غیر قانونی‘‘ اور
امریکہ کی پالیسی کو ایران مخالف قرار دیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران
کی رکنیت ختم کرنے سے قبل ایران سمیت فلسطین اور دیگر 17ممالک نے اقوام
متحدہ کی معاشی اور سوشل کونسل کو خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اس
معاملے پر ووٹنگ کروانے سے ایسی مثال قائم ہوگی جس سے مختلف کلچر، رواج اور
روایات رکھنے والے دیگر رکن ممالک کو اس قسم کے کمیشن کی سرگرمیوں میں اپنا
حصہ ادا کرنے سے روکا جاسکے گا۔ خط میں کونسل کے اراکین پر زور دیا گیا تھا
کہ وہ امریکہ کے اس اقدام کے خلاف ووٹ کا استعمال کریں تاکہ آئندہ بین
الاقوامی سسٹم میں سے کسی بھی قانونی طو رپر منتخب ملک کو نہ نکالا جاسکے۔
ایران نے مغربی ممالک پر الزام عائد کیا کہ انسانی حقوق کی کونسل کا
استعمال کرتے ہوئے ایران کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ گذشتہ مہینے اقوام
متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے ایران میں جاری مظاہروں کو دبانے کے خلاف
غیر جانبدار تحقیقات کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ یورپی یونین نے بھی ایران
کے آرمی چیف عبدالرحیم موسوی ،نائب وزیر داخلہ ، پاسداران انقلاب کے
علاقائی کمانڈرزکے ویزوں پر پابندی ہوگی جبکہ ان کے اثاثے بھی ضبط کئے
جائیں گے۔ سرکاری ریڈیواسلامک ریپبلک آف ایران براڈ کاسٹنگ (آئی آر آئی بی)
کے ڈائرکٹرز، ٹی وی کے عہدیداروں پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس طرح
یورپی یونین کی جانب سے لگائی جانے والے نئی پابندیوں میں 60سے زائد افراد
کے نام شامل بتائے جاتے ہیں۔ یہ پابندیاں ایران میں ہونے والے احتجاج اور
پھانسی کی سزا دیئے جانے کے بعد کی گئی ہے اس کے علاوہ تہران کی جانب سے
روس کی حمایت اوریوکرین پر حملے کیلئے ڈرونز کی فراہمی بھی شامل ہے۔
یمن جنگ میں تین ہزار معصوم بچے ہلاک
اقتدار کی چاہت نے تین ہزار سے زائد معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
صدرعبدربہ منصور ہادی کی حکومت کو بچانے اور انہیں صدارت کے عہدے پر فائز
رکھنے کیلئے باغی حوثیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں اور پھر حوثی
باغیوں کی جوابی کارروائیوں کے نتیجہ میں یمن کے مردو خواتین کے ساتھ ساتھ
تقریباً چار ہزار بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال
یونیسف نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یمن میں جاری جنگ کے دوران مارچ
2015 سے ستمبر 2022 کے درمیان کم از کم تین ہزار 774 بچے ہلاک ہوئے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یونیسف کی جانب سے جاری حالیہ اعداد و شمار کے
مطابق جنگ کے باعث 7 ہزار 245 بچے معذور ہوئے ہیں۔یونیسف نے فوری طور پر
جنگ بندی کے معاہدے کی تجدید کا مطالبہ کیا ہے جو اپریل سے اکتوبر تک
نافذالعمل رہا۔یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ
معاہدے کی تجدید انسانی امداد پہنچانے کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔ رپورٹ میں
کہا گیا ہے کہ مارچ 2015 سے ستمبر 2022 کے درمیان 3 ہزار 904 نوجوان لڑکوں
کو جنگ میں لڑنے کی غرض سے بھرتی کیا گیا۔کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ ’اگر
یمن کے بچوں کا اچھا مستقبل چاہتے ہیں تو پھر فریقین، عالمی برادری اور
تمام بااثر عناصر کو بچوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کی مدد کرنے کی یقین
دہانی کرانی ہوگی۔‘اقوام متحدہ کے مطابق حوثیوں نے بڑے پیمانے پر بارودی
سرنگوں کا استعمال کیا جس سے جولائی اور ستمبر کے درمیان کم از کم 74 بچے
ہلاک ہوئے۔واضح رہے کہ اس سے قبل حوثی حکام جنگ میں لڑنے کے لئے دس سال کی
عمر کے لڑکوں کو بھرتی کرنے کا اعتراف کر چکے ہیں۔یونیسف نے گذشتہ ہفتہ
دنیا بھر میں تنازعات اور آفات سے متاثرہ بچوں کی امداد کیلئے 10.3ارب ڈالر
کی درخواست کی تھی جن میں سے 484.5ملین ڈالر یمن کیلئے مختص کئے جائیں
گے۔یمن کی معاشی صورتحال جنگ سے پہلے ہی انتہائی خراب تھی جنگ کے دوران تو
یہ صورتحال انتہائی سنگین نوعیت اختیار کرگئی ہے ، مزید جنگ بندی جتنا جلد
ممکن ہوسکے کی جانی چاہیے ۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامیپر پھر ایک مرتبہ شیخ حسینہ کاقہر
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے سربراہ امیر شفیق الرحمن کو منگل کے روز
گرفتار کرلیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بنگلہ دیش کی پولیس نے کہا ہے کہ
اس نے ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت کے سربراہ کو ڈھاکہ میں گرفتار کیا
ہے۔بتایا جاتا ہے کہ چندروز قبل جماعت اسلامی نے اعلان کیا تھا کہ وہ
وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی برطرفی کیلئے اپوزیشن کے احتجاج میں شرکت کرے
گی۔پولیس ترجمان فاروق احمد نے الزامات کی تفصیل دیے بغیر کہا کہ انسداد
دہشت گردی کے افسران نے جماعت اسلامی کے امیر شفیق الرحمان کو گرفتار
کیا۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کئی برسوں تک جماعت اسلامی بنگلہ دیش
نیشنلسٹ پارٹی کی بڑی اتحادی تھی۔ ان کے اتحاد نے 2001 سے 2006 تک حکومت کی
تھی۔تاہم جب شیخ حسینہ واجد نے 2009 میں اقتدار سنبھالا تو جماعت اسلامی کی
تمام لیڈرشپ کو حراست میں لیا گیا تھا اور ان پر 1971 میں پاکستان کے خلاف
جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے تحت مقدمات قائم کیے گئے۔الزامات عائد
ہونے کے بعد 2013 سے 2016 کے درمیان جماعت اسلامی کے پانچ رہنماؤں کو
پھانسی دی گئی تھی۔ جماعت اسلامی کے ان رہنماؤں کو سزائیں دیئے جانے کے
خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران سینکڑوں کارکنان ہلاک
ہوئے تے جبکہ ہزاروں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ہفتہ کو حکومت مخالف احتجاج
کے موقع پر بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے دو رہنماؤں کو بھی تشدد پر اکسانے
کے الزام پر گرفتار کیا گیا تھا۔بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی شیخ حسینہ واجد سے
استعفیٰ دینے اور نگراں حکومت کے تحت صاف اور شفاف انتخابات کا مطالبہ کر
رہی ہے۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کی موجودگی میں صاف اور شفاف
انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے۔ شیخ حسینہ واجد پر 2014 اور 2018 کے
انتخابات میں دھاندلی کا الزام ہے۔جماعت اسلامی کے امیر شفیق الرحمن کے
فرزند کو گذشتہ ماہ پولیس نے انتہا پسندی پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا
تھا۔بنگلہ دیش میں حالیہ مہینوں میں معاشی بحران، لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کی
وجہ سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔بتایا جاتا ہے کہ اس دوران ہزاروں
اپوزیشن کے اراکین بھی گرفتار ہوئے۔اقوام متحدہ سمیت مغربی ممالک نے بنگلہ
دیش میں سیاسی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔اب دیکھنا ہیکہ جماعت
اسلامی کے امیر کو حراست میں لئے جانے کے بعد ملک کے حالات کس کروٹ بدلتے
ہیں۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے دورِ اقتدار میں جس طرح انکے مخالفین کے
خلاف کارروائیاں کیں گئیں ہیں اسے بنگلہ دیش کی تاریخ یاد رکھا جائے گا۰۰۰
**********
|