زرداری کی چال میں متحدہ گرفتار

شہر قائد میں بڑھتی ہوئی قتل و غارت گری،لوٹ مار ،بد امنی ،مخدوش حالات اور سیاسی جماعتوں کی کی طرف سے ایک دوسرے پرالزام تراشی کی وجہ سے اہل قلم و دانشوروں میں دو مختلف آرائیں پائی جاتی ہیں ۔ کچھ کے خیال میں متحدہ حکومت میں شامل ہوکر عوام میں اپنے گرتے ہوئے گراف کو مزید نہیں گرائے گی اور بعض کے قلم کاروں کے نزدیک ایم کیو ایم کا حکومت میں شامل ہونا ناگزیر ہے کیونکہ ایم کیو ایم حکومت میں رہ کر ہی سیاسی و غیر سیاسی فوائد سے مستفید ہوسکتی ہے کیونکہ حکومت سے علحیدگی پنجاب کے مختلف شہروں میں پھیلتے ہوئے ایم کیو ایم کے نیٹ ورک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ۔

پہلے پہل کراچی کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے اپنے جائز و ناجائز مطالبات تسلیم اور حکومت کو سرتسلیم خم کرانے کے لیے وہی پرانے ہھتکنڈے اور طور طریقے استعمال کیے گئے یعنی آئے دن یوم سوگ و ہڑتالیں ،بوری بند لاشیں اور اربوں روپے معشیت کا نقصان لیکن اس کے باوجود حکومت کے کان پر جونک تک نہیں رینگی بلکہ کراچی میں جاری دہشت گردی و خون ریزی کی ذمہ داری ایم کیو ایم اور اے این پی کی ذاتی رنجشوں کا نتیجہ قراردے دیا۔

سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کی جانب سے ایم کیو ایم پر بھتان بازی اور الطاف حسین کو ملک دشمن قرار دینا کوئی نئی بات نہیں لیکن مرزا کی شعلہ بیانی کے جواب میں ٣٠ اگست کوایم کیو کے رہنما فیصل سبزواری مرزا کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں بیمار ذہین شخصیت اور نسل پرست قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں اگر ایم کیوایم خلاف ملک دشمن عناصر ہونے کے شواہد موجود ہیں توعدالت کا دروازہ کھٹکائے اور ثابت کیا جائے ۔ بعض دوستوں کے نزدیک الطاف حسین کے خلاف اشتعال انگیزی مرزا ،زرداری گٹھ جوڑ ہے اگر ایسا ہوتا تو پھر شاید ذوالفقار مرزا کے نااستعفے قبول کیے جاتے ناپارٹی کی بنیادی رکنیت معطل کیے جانے کا امکان ہوتا ۔

درحقیقت زرداری صاحب کو صدارت مفاہمت یعنی این آر او کے وسیلے سے ملی ہے لہذا صدارت کے پہلے روز سے ہی زرداری صاحب صرف ایک نکاتی مفاہمتی پالیسی پر گامزن ہے کہ خودبھی کھاؤ ، دوسروں کو بھی کھلاؤ ور حکومت کیے جاؤں ۔ صدر زرداری کے پاس ایسے کارڈ موجود ہیں کہ وہ متحدہ کو حکومت میں شامل کیے بغیر بھی اپنی حمایت جاری رکھنے پر مجبور کرسکتے ہیں شاید یہی وجہ ہوکہ ہزار اختلاف ہونے کے باوجود گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو اپنا استعٰفی واپس لینا پڑا اور وفاق یعنی صدر کے نمائندے کی حیثیت سے سندھ کی ذمہ داری دوبارہ سنبھالنی پڑی۔ معتبر زرائع کے مطابق ١٦ اگست ٢٠١١ کو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی ہدایت پر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد متحدہ کی حکومت میں دوبارہ شمولیت کے لیے اسلام آباد روانہ ہوتے ہیں جہاں تین دن قیام کے دوران وہ صدر زرداری ، وزیراعظم گیلانی اور خورشید شاہ سے اہم ملاقاتیں کرتے ہیں ۔ ان ملاقاتوں میں متحدہ کی حکومت میں دوبارہ شمولیت کے معاملات پر گفت شنید ہورہی ہوتی ہے وہاں کراچی میں ٢٤ گھنٹے کے دوران چالیس لاشیں گرچکی ہوتی ہیں۔

١٨ اگست کو رابطہ کمیٹی کے رہنما رضا ہارون کراچی میں دہشت گردی کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے پہلی بار اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کراچی میں بدامنی اور دہشت گردی دو سیاسی جماعتوں کے درمیان لڑائی کی وجہ نہیں بلکہ یہ گینگ وار اور جرائم پیشہ افراد کی لڑائی ہے ۔ رابطہ کمیٹی کی جانب سے کراچی کی مخدوش صورتحال کا ذمہ دار اے این پی اور پیپلزپارٹی کے بجائے جرائم پیشہ عناصر کو ٹھیرانا متحدہ کا حکومت میں شامل ہونے کا واضح سگنل تھا اس سے قبل قائد تحریک الطاف حسین کی طرف سے آصف زرداری پر لیاری کے جرائم پیشہ افراد اور قائم علی شاہ پر لینڈ مافیا کی پشت پناہی کا الزامات لگائے گئے تھے۔

٢٠ اگست کوایوان صدرسے جاری پریس ریلیز کے مطابق ملک کے وسیع ترمفاد اور کراچی کے امن وامان کے لیے صدر زرداری ایک بار پھر متحدہ کے قائد کو باضابطہ طور حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں ۔ جس کے جواب میں الطاف حسین حکومت کے حساس اداروں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت کی ایماء پر یہ ادارے برطانوی حکومت کو ایم کیو ایم کے خلاف گمراہ کن مواد فراہم کر رہے ہیں صدارتی ترجمان اس خبر کو بے بنیاد قرار دے کر تردید کردیتا ہے لیکن الطاف حسین وزیراعظم کو کراچی میں امن قائم نہ کرنے پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیتے ہیں ۔ الطاف حسین کی جانب سے حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے ماضی میں زرداری صاحب کو بھی گھر لوٹ جانے کا کہہ چکے تھے ۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ سابق جنرل کے صدارت سے مستعفی ہونے کہ بعد الطاف حسین وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے زرداری کو صدارت کی کرسی پر براجمان ہونے کا مشورہ دیا تھا جس کے بعد نا چاہتے ہوئے بھی میاں نوازشریف نے زرداری صاحب کو صدارت کے لیے موزوں ترین امیدوار قراردیا تھا۔

٢٣ اگست کو وزیراعظم گیلانی کی کراچی آمد سے قبل میڈیا پر خبری گردش کررہی تھی کہ وزیر اعظم نائن زیرو جاینگے جہاں متحدہ حکومت میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کردیگی لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا کے ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر فاروق ستار نے ایک بار پھر حکومتی شخصیات پر الزامات کی بوچھاڑ کردی جس کا مقصد حکومت پر مزید دباؤ بڑھانا تھا لیکن زرداری صاحب نے اس دفعہ ایسی چال چلی تھی کہ متحدہ پوری طرح جال میں پھنس گئی تھی ۔

صدر زرداری نے پہلے اس خبر سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا کہ سرکاری ادارے ایم کیو ایم کے خلاف غلط شواہد برطانوی حکومت فراہم کررہے ہیں لیکن بعد ازاں بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس خبر کو نشر کیا جاتا ہے کہ اسکاٹ لینڈ کی خفیہ اطلاع پر کراچی ائیر پورٹ سے دو مشتبہ افراد کوحراست میں لے لیا گیا ہے جو ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث ہیں اور ان کا تعلق کراچی کی ایک سیاسی جماعت سے ہے جو اسٹوڈنت ویزے پر لندن گئے تھے ۔

ان مشتبہ افراد کی حراست کے بعد ذوالفقار مرزا کا الطاف حسین پر پٹھانوں کو قتل اور ملک توڑنے کا الزام لگانا ایم کیوایم کا خاموشی اختیار کرنا لندن پوسٹ کی اشاعت میں الطاف حسین کی ساؤتھ افریقہ فرار اور گرفتار ہونے کی اطلاع پھر ہسپتال میں زیر علاچ ہونے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف بڑا گریٹ گیم کھیلا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود نہں سوائے حکومت میں شامل ہونے کے کیونکہ زرداری کے پاس ایسے کارڈ موجود ہیں کہ متحدہ کی ساکھ کو ناصرف برطانیہ بلکہ عالمی سطح پر بری طرح متاثر کرسکتے ہیں۔
abad ali
About the Author: abad ali Read More Articles by abad ali: 38 Articles with 37420 views I have been working with Electronic Media of Pakistan in different capacities during my professional career and associated with country’s reputed medi.. View More