سیاسی جاہل

 تمہیں معلوم ہے کسی ملک کے لئے سب سے خطرناک آدمی کو نسا ہوتا ہے؟
جواب میں صرف یہی سننے کو ملا کہ کرپٹ حکمران
مگر دوسری طرف جواب کچھ اور ہی تھا۔۔۔۔۔
سب سے زیادہ سیاسی جاہل خطرناک ہوتا ہے۔یعنی ایک ایسا شخص جوکہ ہر بار سینہ تان کر یہی کہتا ہے کہ اسے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ نفرت ہے ایساآدمی نہ کچھ دیکھتا ہے، نا سنتا ہے ا ور نہ کچھ کرتا ہے ا س کو تو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ سیاست اصل میں پالیسیز بنانے کا نام ہے، اگر سیاسی جاہل اپنی کوئی رائے نہیں رکھے گا، سیاست میں ووٹ اور سپورٹ کے ذریعے اسکا حصہ نہیں بنے گاتو درحقیقت وہ خود کرپٹ حکمران کو بنانے والوں میں شامل ہوگا اورانہیں مضبوط کرے گا۔اور کوئی شک نہیں کہ سڑکوں پر بے حال پھرتے لوگوں،چوروں ، ڈاکو ؤں سب کا ذمہ دار ہوگاکیوکہ اس نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔

کچھ عرصے پہلے کسی کتاب میں جب یہ سطور پڑھیں تو لکھنے والے کا ہاتھ چومنے کا دل کیا کیوں کہ آج سے پہلے کسی نے ایک سیاسی جاہل کا اتنی باریک بینی سے پوسٹ مارٹم نہیں کیا تھا جس طرح سائنس کے ایک مضمون اناٹومی میں ہیو من باڈی کو پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن ہماری نادان عوام پھر بھی کچھ سمجھنے سے قاصر ہے اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ہر تیسرا شخص ایسا ہی نظر آتا ہے جو بظاہر تو اس ملک کا سب سے وفادار اور معزز شہری ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور ایک نارمل فرد کی طرح اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں مشغول رہتا ہے لیکن اصل میں یہی وہ افراد ہیں جو ایک کرپٹ اور ناتجربہ کار سیاست دان کو عوام کے سر پر مسلط کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ آج دنیا کی کسی بھی پارلیمنٹ یا سیاسی حلقے میں جتنے پارٹیز کے ہم نوا ملتے ہیں اس سے ذیادہ اس پارٹی کے مخالف ہوتے ہیں جن میں ایسے سیاسی جاہلوں کا تناسب کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ مخالف تو صرف وہ ہو تے ہیں جو دوسری پارٹی کے ممبر ہوتے ہیں۔

ووٹ ڈالنا ہر شہری کا فرض ہے اگر اپنا ووٹ سیاسی حق نہ سہی اپنے ملک کے وفادار شہری ہونے کے ناطے ایک ایسے امیدوار کو ڈال دیں جو حقیقت میں اسکا حقدار ہوتا ہے تو ان کے ایک ووٹ سے ایک امید کا دیا جل اٹھے اوراسی طرح کئی دیوں سے روشنی پھیل جائے جس طرح قطرہ قطرہ دریا میشود۔ اسی طرح ایک ایک صحیح ووٹ سے ایک وفادار او ر اہل امیدوار سامنے آ جائے لیکن کیا کہئے کہ یہاں لوگ صرف زبانی کلامی ہی اپنے فرض کو پورا کرتے نظر آتے ہیں اور رستم کی قبر پر لات مار کر آگے بڑھ جاتے ہیں، دیا جلانا اب کسی کے بس کی بات نہیں۔ بے چاری عوام ہمیشہ یہی کہتی نظر آتی ہے کہ ہمارے ایک ووٹ نے کونسا تیر مار لینا ہے وہ تو ویسے بھی ڈال دیا جائے گا لیکن اس معصوم عوام کو کون بتائے کے اگر وہ اپنا حق اور فرض ادا نہیں کریں گے خود اپنا ووٹ جاکر نہیں ڈالیں گے تو پھر کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’جو کسی کا نہیں تو صرف میرا ہے‘۔

اور ایک بار پھر وہی آجائے گا جسے صرف اپنے لوگوں اور اپنے خیرخواہوں کی پرواہ ہوگی۔ اور پردرد عوام چیخ چیخ کر مہنگائی، بیروزگاری کا رونا رو رہی ہوگی لیکن اب بھی وہ اپنے اوپر یہ الزام لینے کو تیار نہیں ہوں گے کہ اس میں ان کا کتنا بڑا ہاتھ ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا

ہاں تو جناب کیا آپ کے اردگرد بھی ایسے ہی سیاسی جاہل موجود ہیں جو ایک بار پھر ان ہی زورآوروں کو میدان میں لانے والے ہیں جن کے ہاتھوں ہم پچھلے بیس سالوں سے دھوکہ کھاتے آرہے ہیں جو بار بار کہیں نعرہ لگاتے ہیں کہ
ا ب کی باری۔۔۔۔، تو کہیں
آیا آیا۔۔۔۔۔۔،۔ اور نہ جانے کیا کیا۔
 

Arshi Abbas
About the Author: Arshi Abbas Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.