ممکن ہے پاکستان میں بہت سے لوگ جذام کے لفظ سے نا آشنا
ہوں، مگر کوڑھ کے لفظ اور بیماری کے بارے میں سبھی جانتے ہیں۔ کوڑھ ایک
متعدی اور چھوت کی بیماری ہے۔ یہ مرض ایک سے دوسرے کو لگتا ہے۔ جذام یعنی
کوڑھ کے مرض میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے۔ جسم میں پیپ پڑ جاتی ہے
اور مریض کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے۔ کوڑھی کے جسم سے شدید بو
بھی آتی ہے۔
کوڑھ کے مریض اپنے جسم کے حصوں او ر خاص طو رپر ہاتھوں، ٹانگوں اور منہ کو
کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں کو لپیٹ کر رکھتے ہیں۔ کوڑھ کا مریض اپنے چہرے کی
خوبصورتی بھی کھو دیتا ہے اور خرابی شکل اور بدنمائی کی وجہ سے شدید خوف
میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بھارت کی اسی کی دھائی کی مشہور فلم دیش پریمی میں
شرمیلا ٹیگور نے کوڑھی کا کردار ادا کیا، 1973کی میوزیکل رومانوی فلم بوبی
کی شوٹنگ سے چند ماہ قبل
ڈمپل کباڈیہ کو جذام یعنی کوڑھ کی تشخیص ہوئی تھی۔ اس بات کا تذکرہ ڈمپل
کباڈیہ اپنے کسی انٹرویو میں کر چکی ہیں۔
پریسی یعنی جذام یا کوڑھ 1950-60کے درمیان پاکستان اور خاص طور پر کراچی
میں پھیلنا شروع ہوا۔ یہ مرض اُس وقت لا علاج سمجھا جاتا تھا۔ مذہبی طبقے
نے اِسے اللہ کا عذاب قرار دیا اور یوں جسے کوڑھ ہو جاتا اُسے شہر سے باہر
ویرانوں میں پھینک دیا جاتا جہاں کوڑھ کا مریض سسک سسک کر دم توڑ دیتا۔
ساٹھ کے عشرے میں پاکستان میں پریسی کا مرض بہت تیزی سے پھیلا۔ یہاں تک کہ
شہروں سے باہر کوڑھیوں کیلئے رہائش گاہیں تعمیر کر ا دی گئیں۔ یہ رہائش
گاہیں کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں اور لوگ آنکھ، منہ، ناک لپیٹ کر اِن احاطوں
کے قریب سے گزرتے تھے۔ جن لوگوں نے ان مریضوں تک کھانا پہنچانا ہوتا وہ
باہر کھڑے ہوکر دیواروں کے اوپر سے اندر پھینک دیتے۔ کیچڑاور مٹی میں لتھڑی
اِن روٹیوں کو کوڑھی کے مریض جھاڑ کر کھا لیتے اور اپنی موت کا انتظار کرنے
لگتے۔
اِن حالات میں آسمان سے ایک فرشتہ اُترا۔ جرمنی کی رہائشی ڈاکٹر روتھ فاؤ
کو ایک ٹی وی پروگرام کے ذریعے اس بھیانک بیماری کا پتہ چلا۔ پاکستان کے
کوڑھ کے مریضوں کیلئے نئی زندگی کا فرشتہ بننے والی ڈاکٹر روتھ فاؤ نے یورپ
کی خوبصورتیوں، رعنائیوں اور آسائشوں کو چھوڑ کر پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔
آدھے منہ پر نور برستا آدھے منہ پر چیرے
آدھے تن پر کوڑھ کے دھبے آدھے تن پر ہیرے
ساحر لدھیانوی کے اس شعر کی حقیقت سے ڈاکٹر روتھ فاؤ مکمل طو رپر آشنا
تھیں۔ انہوں نے پاکستان پہنچ کر کوڑھ کے مریضوں کے اعضا سے ٹپکتے ہوئے کوڑھ
کے نیچے اپنے ہاتھ رکھ دئیے۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ پاکستان میں جذام کے مریضوں کیلئے سلامتی اور نئی زندگی بن
کر آئیں۔ اس عظیم ہستی نے اُن مریضوں کوجن کے سگے اُنہیں بے آسرا چھوڑ گئے
تھے، اپنے ہاتھ سے دوا کھلائی اور اُن کی مرہم پٹی کی۔ ڈاکٹر فاؤ نے کراچی
ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر جذام کے مرض کیلئے پہلا چھوٹا سا
سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کرد یا۔
وہ مرض جسے خدا کا عذاب سمجھا گیا، جسے لوگوں کے گناہوں کی سزا کہا گیا، جس
کی وجہ سے اپنے، اپنوں کو بے یارو مدد گار چھوڑ گئے۔اُس کے خاتمے اور تدراک
کیلئے پرائے وطن سے آئی فرشتہ صفت ڈاکٹر روتھ فاؤ محاذ بنائے کھڑی تھی۔
آسمانوں پر بیٹھا بھی جذبہ اور نیک نیتی دیکھتا ہے۔ خدا نے ڈاکٹر روتھ فاؤ
کے ہاتھ میں ایسی شفا دی کہ وہ مریضوں کا علاج کرتیں اور کوڑھ کا مرض ختم
ہوتا چلا جاتا۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ اور ڈاکٹر آئی کے گل نے مل کر کراچی میں 1963میں میری پریسی
سینٹر بنایا جو دو سال بعد ہسپتال کی شکل اختیار کر گیا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ ہم
سب کیلئے رول ماڈل ہیں۔ وہ جرمنی سے پاکستان کوڑھ کو مریضوں کے علاج کیلئے
آئیں اور پھر پاکستان کو ہی اپنا گھر بنا لیا اور واپس نہیں گئیں۔
جذام کے خاتمے کیلئے ڈاکٹر روتھ فاؤ کی خدمات کے اعتراف میں اُنہیں
”پاکستان کی مدر ٹریسا“ کا خطاب دیا گیا۔ ڈاکٹر فاؤ کو اُن کی بے مثال
خدمات کے صلے میں ہلال پاکستان، ہلا ل امتیاز، نشان قائداعظم اور ستارہ
قائداعظم کے اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ نے ساٹھ ہزار سے
زائد کوڑھ کے مریضوں کو نئی زندگی دی۔ وہ پاکستان میں جذام کے خلاف بہت بڑا
انقلاب لائیں۔ انہوں نے ملک بھر میں 156سے زائد جذام سینٹر بنائے۔ ڈاکٹر
روتھ کی کوششوں سے پاکستان میں یہ موذی مرض ختم ہوا اور عالمی ادارہ صحت نے
1996ٰمیں پاکستان کو ”پریسی کنٹر ولڈ“ ملک قراردے دیا۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ درحقیقت جذام کے مریضوں کی ماں تھیں۔ پاکستان میں اُن کی
خدمات کی شہرت سن کر ایران سے مریض علاج کیلئے پاکستان آئے۔ گندے اور میلے
کپڑوں میں ملبوس جذام کے مریضوں کے علاج سے قبل ڈاکٹر روتھ فاؤ اُن کے کپڑے
صاف کرتیں، اُن کے ہاتھ منہ دھلاتیں، پہننے کیلئے نئے کپڑے دیتیں، اُن
مریضوں کے ساتھ ہی بیٹھ کر کھانا کھاتیں۔ اُ س دُبلی پتلی عورت کو کوئی ڈر
تھا نہ خوف۔ انسانیت اُس کی ذات کا حصہ تھا۔ خدمت اُس کے نصاب کا حصہ تھا۔
وہ جنہیں سگی اولادیں چھوڑ گئیں۔ وہ جنہیں خدا کا عذاب قرار دیا گیا، وہ جو
مجبور اورلاچار بنا دئیے گئے، وہ جن کیلئے ویرانوں میں الگ بستیاں آباد کر
دی گئیں، وہ جو بجلی، پانی اور علاج کی بنیادی سہولتوں سے محروم کر دئیے
گئے۔ اُنہیں ڈاکٹر روتھ فاؤ نے گلے لگایا اپنی آنکھوں کا تارا بنایا۔
کہنے کو اور لکھنے کو ڈاکٹر روتھ فاؤ کی زندگی پر بہت کچھ کہا اورلکھا جا
سکتا ہے۔ تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ مہم جوئی کا اگر کوئی نام ہے، محبت
کا اگر کوئی چہرہ ہے، انسانیت کا اگر کوئی روپ ہے، خدمت کی اگر کوئی شکل
ہے، زندگی کا اگر کوئی مقصد ہے تو ہم اپنے سامنے ڈاکٹر روتھ فاؤ کو کھڑا
پائیں گے۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ کی آخری کتاب کا نام تھا، ”دی لاسٹ ورڈ از لو“جو اُن کے
مرنے کے ایک سال بعد شائع ہوئی تھی۔
اگر ہو سکے تو ضرور پڑھیں، شائد بہت سوں کو اپنی زندگیوں کا مقصد مل جائے۔
|