کچھ عرصہ قبل بچوں کے کہنے پر ایک انڈین فلم دیکھنے کا
اتفاق ہوا، جس کا نام ”گبر از بیک“تھا۔ اس فلم میں اکشے کمار کو بھارت کے
کرپٹ سسٹم کے خلاف لڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ میں چونکہ خود ڈرامہ نگار ہوں
اور کہانیاں گھڑنے کا ہنر بھی جانتا ہوں۔ اس لیے فلموں میں دکھائی اور
بنائی جانے والی اکثر و بیشتر کہانیاں مجھے زیادہ متاثر نہیں کرتیں۔
اکشے کمار کی فلم گبر از بیک میں بھی بھارت کے نجی ہسپتالوں کی لوٹ مار
دکھاتے ہوئے جب ایک سین میں دکھایا گیا کہ ایک پرائیویٹ ہسپتال والے ایک
پہلے سے مرے ہوئے مردہ شخص کے علاج کیلئے بھی لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں،
تو میں تعجب سے بڑبڑایا۔
یہ کیا بکواس ہے؟ ایسا کہاں ہوتا ہے؟ مانا کہ پرائیویٹ ہسپتال کروڑوں روپے
کماتے ہیں، لیکن وہ اتنانہیں گر سکتے کہ ایک مردے کا علاج شروع کردیں۔اور
اُس مردے کے نام پر لاکھوں روپے لوٹ لیں۔
فلم ختم ہوئی، میں دل میں سوچنے لگا کہ صرف بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی
تہمت اورالزام تراشی کا کلچر جس تیزی سے پھیل رہا ہے، اُس نے ہمارے معاشرے
کی اخلاقی بنیادوں اور قدروں کو تہس نہس کر دیا ہے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے جس
میں ہم ڈرامے اور فلم کے کہانی کار بھی شامل ہیں۔میں خود کو کوس رہا تھا
اور ”گبر از بیک“ کے کہانی کار کو بھی۔
اس بات کو کئی مہینے گز ر گئے اور میں اکشے کی فلم کو بھی بھول گیا، پھر
میں نے ایک حقیقی فلم دیکھی۔
چند ہفتے قبل میرے ایک عزیز کی بیٹی کا لاہور سے نکلتے ہی مو ٹروے پر
ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ وہ اپنی چھوٹی بہن بہنوئی اور ملازمہ کے ساتھ ڈیرہ غازی
خان جانے کیلئے نکلی تھی، مگر موٹروے پر چڑھتے ہی اُن کی کار کو ایک تیز
رفتار بس نے ٹکر مار دی۔
میرے عزیز کی بیٹی جنہیں لاہور جوہر ٹاؤن نہر کنارے واقع نجی ہسپتا ل میں
لایا گیا، وہ بے ہوش ضرور تھیں، تاہم شدید ز خمی نہیں تھیں۔ یہاں سے نجی
ہسپتال والوں کی فلم کا آغاز ہوتا ہے۔
مریضہ جن کا نام حنا نعمان تھا۔ ہسپتال میں داخل ہوتے ہی آئی سی یو وارڈ نے
اُنہیں فوراً نک کالر لگا دی۔ بتایا گیا کہ گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ ایم آر
آئی اور سٹی سکین بھی فوری کر دئیے گئے۔ پسلیوں کا ایکس رے کر کے دو پسلیوں
کا فریکچر بتایا گیا۔ دماغ میں حادثے کی وجہ سے بننے والے بلڈ کلوٹ بھی
دکھا دئیے گئے۔ اِن حالات میں سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ مریضہ کو مسلسل
بے ہوشی کی دوا دی جاتی رہی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ اگر یہ ہوش میں آئیں تو
انہیں شدید صدمہ پہنچنے کا ڈر ہے۔
یہ لاہور کے اُس مہنگے ترین نجی ہسپتال کا آئی سی یو تھا، جہاں پنجاب کی
اشرافیہ اپنا علاج کروا کر فخر اور تسلی محسوس کرتی ہے۔ پاکستان میں مریض
اور بیمار امیر ہو یا غریب خدا کے بعد ہسپتال کے طبی عملے کے رحم و کرم پر
ہوتا ہے۔ ہماری مریضہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو ا۔
جس آئی سی یو میں اُنہیں رکھا گیاتھا اُس کے باہر ایک سیکورٹی گارڈ 24گھنٹے
ایسے چاک و چوبند کھڑا رہتا تھا جیسے کسی بنک کے باہرسیکیورٹی گارڈ۔ اس آئی
سی یو میں مریضوں سے ملنا سخت منع تھا۔ اس وارڈ میں ڈاکٹر کون تھے۔ کب آتے
تھے، کب جاتے تھے، کن شعبوں سے وابستہ تھے۔ اِن تمام سوالوں کے جواب راز ہی
رہے۔ تاہم رات بارہ ایک بجے مریضوں کے لواحقین کو نیند سے اُٹھا کر لاکھ
روپے کا بل تھما دیا جاتا اور کہا جاتا کہ یہ آج کا بل ہے، اِسے ادا کریں۔
لاہور کے اُس عالیشان پرائیویٹ ہسپتال میں جب مسلسل چار دن تک مریضہ کی
آنکھیں نہ کھلیں، تو ہماری آنکھیں مکمل طو ر پر کھل گئیں۔ فیصلہ کیا گیا کہ
حنا نعمان کو فوری طور پر جنرل ہسپتال منتقل کیا جائے۔ نجی ہسپتال والوں نے
ہاتھ سے سونے کی چڑیا جاتے دیکھ کر ہمیں مزید ڈرانا شروع کر دیا۔ اُن کا
اصرار تھا کہ ہماری مریضہ کی حالت ٹھیک نہیں۔ ہسپتال کے لاکھ ڈرانے کے
باوجود میرے کزن نے ہمت دکھائی۔ ہم سے لکھوایا گیا کہ مریضہ کو کچھ بھی ہوا
تو ہم ذمہ دار ہونگے۔ ہم نے اُس ذمہ داری کو قبول کیا اور جوہر ٹاؤن کے نجی
ہسپتال سے سرکاری جنرل ہسپتال شفٹ ہو گئے۔
جنرل ہسپتال کے دماغ کے وارڈ میں شفٹ ہوتے ہی ڈاکٹر ز نے حنا نعمان کی نک
کالر اُتار دی۔ ڈاکٹر ز نے بتایا کہ ایم آر آئی، سٹی سکین سب کچھ نارمل ہے۔
پسلیوں میں کوئی فریکچر نہیں ہے۔ لہٰذا ہم بیٹی کو کھلائیں، پلائیں،
بٹھائیں حتیٰ کہ وارڈ میں چلائیں۔
یہاں تمام تر علاج مفت تھا۔ حنا نعمان کے مہنگے نجی ہسپتال سے جنرل ہسپتال
کے مفت سرکاری اور بہترین علاج کی کہانی میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ یہ
وہ تلخ حقیقت اور سچائی ہے، جیسے بچشم سر ہم نے دیکھا، جھیلا، سہا اور
برداشت کیا۔ اگر میرے عزیز اپنی بیٹی کو نجی ہسپتال سے سرکاری ہسپتال شفٹ
نہ کرتے تو پتہ نہیں اُسے مزید کتنے دن بے ہوش رکھا جاتا۔ نجی ہسپتال کے
اُسی آئی سی یو میں ایک شخص ایک سال سے وینٹی لیٹر پر ہے اور ہسپتال والے
ایک سال میں اُس بیمار شخص کے گھر والوں سے ڈیڑ ھ کروڑ روپے کما چکے ہیں۔
یہ لاہور کے صرف ایک نجی ہسپتال کی کہانی ہے۔ جو ہر طرح سے ”گبر از بیک“ کی
طرح فلمی لگتی ضرور ہے مگر یہ فلم نہیں بلکہ حقیقی اور سچی آپ بیتی ہے۔
پاکستان کے سینکڑوں مہنگے نجی ہسپتالوں میں کتنی فلمیں چل رہی ہیں، اِن کا
حساب لگانا مشکل ہے۔
حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پرائیویٹ ہسپتالوں کو چیک کرے کہ وہ وسیلہ
زندگی بننے کے بجائے لوٹ مار کا بے رحم کھیل کیوں کھیل رہے ہیں۔پرائیویٹ
اور نجی ہسپتالوں کو وسیلہ زندگی ہونا چاہیے وسیلہئ دولت و اسباب نہیں۔
|