ہوس کی انتہا

 پاکستانی سیاست ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جس میں ملک روز بروز تنزلی کی جانب محوَ سفر ہے۔قائدین کے رویے انتہائی غیر سنجیدہ ہی ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے ریاست کی بقا پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور اس کے دیوالیہ ہونے کی افواہیں گھڑی جا رہی ہیں۔فوج تختہِ مشق بنی ہوئی ہے اور اسے مختلف القابوں سے نوازا جا رہا ہے اسے کبھی جانور،کبھی میر جعفر کبھی میر صادق اور کبھی غدار کہہ کر مخا طب کیا جاتا ہے اور پھرانہی سے اپنے اقتدار کی بھیک مانگی جاتی ہے ۔گویا کہ ساری جنگ ذاتی اقتدار کے گرد گھوم رہی ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفاعی رویہ اپنائے ہوئے ہے تاکہ حالات مزید ابتر نہ ہو جائیں اور ر یاست کسی ان دیکھے المیہ کا شکار نہ ہو جائے۔عدالتوں ،الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کی جس طرح مٹی پلید کی جا رہی ہے اس کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔الیکشن کمشنر کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں جس سے فضا مزید کشیدہ ہوتی جا رہی ہے اور ملک عدمِ استحکام کا شکار بنتا جا رہا ہے۔کسی کو کسی پراعتبار نہیں رہا لہذا کوئی بھی کسی کی بات سننے اور تسلیم کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہے ۔عدا لتی فیصلوں کا کھلے عام مذاق اڑایا جا رہا ہے اور انھیں من و عن تسلیم کرنے کی روائت کمزور پڑتی جا رہی ہے ۔ذاتی انا کو ہمالیہ سے بھی بلند ہو چکی ہے ۔ پارلیمنٹ اپنی ساکھ کھوتی جا رہی ہے۔اس میں جرات مندانہ فیصلے کرنے کی سکت نہیں رہی کیونکہ ملک کی سب سے بڑی جماعت پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کئے ہوئے ہے۔اداروں کے درمیان دھینگا مشتی اور لڑائی سے ریاست کمزور سے کمزور تر ہو تی جا رہی ہے۔فوج کی جانب انگلیاں اٹھانے اور الزامات لگانے سے اس ادارے کی توقیر پر حرف آ رہا ہے جو پاکستان کیلئے انتہائی مہلک ہے۔اختلافات اپنی جگہ لیکن ریڈ لائن کو عبور نہیں کیا جانا چائیے۔ریڈ لائن کی حساسیت مدِ نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔عدمِ اعتماد کے فقدان اور دشنام طرازی نے پاکستان کو اقوامِ عالم میں تماشہ بنا رکھا ہے۔باہمی احترام،اورعزت و وقار کا جوہر مفقود ہو رہا ہے جبکہ مخالفین کی تضحیک اور بے عزتی کو جرات کا استعارہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔جو کوئی بھی اپنے مخالف کو بڑی گالی دیتا ہے وہی دادو تحسین کا مستحق قرار پا رہا ہے۔جو اپوزیشن میں ہوتا ہے وہ اسی طرح کا غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرتا ہے جس سے دوسروں کی تضحیک کا پہلو نکلتا ہو ۔ سیاست چمکانے کے اور بھی کئی طریقے ہیں لہذا ادارں کو متنازعہ بنانے اور ان کی بے توقیری سے اعراض برتاجانا ضروری ہے ۔ ہمارے ہاں مثل مشہور ہے کہ امریکہ اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی بو چھاڑ عوامی مقبولیت کے اہم پیمانے ہیں اور اپوزیشن جماعتیں ایسے ہی نعروں کاسہارا لیتی ہیں ۔ افراد بدل جاتے ہیں لیکن تنقید نہیں بدلتی۔کبھی ایک جماعت اور کبھی دوسری جماعت ایسا طرزِ عمل اختیار کرتی ہے۔ معاشرے کے محروم طبقات اس طرح کے بیانیہ کو اچک لیتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے من میں مچلتی ہوئی بے چینیاں قرار کا جامہ پہن لیتی ہیں ۔ ،۔

اس وقت گالم گلوچ،نفرت ،بد کلامی اور الزامات کی ایسی دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے کہ کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کل کیا ہونے والا ہے؟ اس اندازِ سیاست نے قومی مزاج کو بھی بگاڑ کر رکھ دیاہے۔گلی گلی تماشہ لگا ہوا ہے اور کوئی کسی کو اہمیت دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔سیاست کا یہ نیا آہنگ تمام سیاسی جماعتوں کے دلوں کی دھڑکن بنا ہوا ہے اور وہ اس سے لا تعلقی اختیار کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ہر جماعت میں ایسے منہ پھٹ (بے شرم بھونکے ) موجود ہیں جو اس طرح کے اندازِ بیاں کو ہوا دیتے ہیں۔ان کے ہر جملے سے نفرت اور مناشقت کی بوآتی ہے۔ دشنام طرازی ان کی پہچان ہوتی ہے جسے وہ بڑے طمطراق سے جاری و ساری رکھتے ہیں کیونکہ انھیں اپنے قائد کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے ۔ لانگ مارچ اور دھرنوں کا ایک لا متناہی سلسلہ پھیلا ہوا ہے،شہر شہر عوامی مہم کی باز گشت سنائی دے رہی ہے جس کا واحد مقصدعوامی جذبات کو ہوا دے کر ذاتی مقاصد کیلئے فضا ہموار کرنا ہے۔ملکی استحکام اور اس کی ترقی کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔اس طرح کے طرزِ عمل کا منطقی نتیجہ معاشی تباہی کی صورت میں ظاہر ہو گا ۔ نوجوانوں کو ایک ایسی ڈگر کا مسافر بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں جن کا منطقی نتیجہ پاکستان میں انتشار کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ ریلیوں اور جلسے جلوسوں سے عام م شہری متاثر ہو رہا ہے امن و امان درہم برہم ہو رہا ہے اور عوام کی زندگی اجیرن بنی ہوئی جبکہ مہنگائی ، بے روزگاری اور بد امنی نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے۔عام شہری جس طرح ذہنی دباؤ کا شکار ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ایسا اندھیر مچا ہوا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا لیکن سیاست دانوں کی پھرتیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔جھوٹے وعدوں کی کہکشاں رونقِ بازار بنی ہوئی ہے ۔جو بھی آتا ہے وعدے وعید اور دلکش نعروں سے عوا م کو بیوقوف بنانے کی مشق کرتا ہے تا کہ اس کے اقتدار کی راہیں کشادہ ہو جائیں ۔ محرومیوں کے مارے ہوئے افراد جھوٹے وعدوں کی رنگینی کے اسیر ہو جاتے ہیں اور یہ جا ن نہیں پاتے کہ سیاستدان مکرو فریب اور جھوٹ کا جال بن رہے ہیں ۔،۔

عوام کو ذاتی خواہشات کااسیر بنانے کیلئے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، انھیں رنگین سپنے دکھائے جاتے ہیں ،انھیں نوکریوں اور گھروں کا لالچ دے کرجس طرح پلیک میل کیا جاتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔پولیس میں اصلاحات،کرپشن کا خاتمہ،رشوت سے چھٹکارا،وی آئی پی کلچر سے نجات،جنوبی پنجاب صوبہ کا قیام ،آئی ایم ایف کو خیر آباد،نئے ڈیمزکی تعمیر ،جدید ہسپتال ، اعلی یونیورسٹیاں،بہترین انفرا سٹرکچر اور وزیرِ اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی کے قیام جیسے دلکش دعوے نجانے کہاں دم دبا کر بھاگ گئے ہیں؟امانت و دیانت کے پیکر وں نے جس صالح اور دیانت مند معاشرہ کو قائم کرنا تھا کیا وہ کہیں نظر آ رہا ہے؟رشوت ستانی اور کرپشن زوروں پر ہے۔قرضوں کی بھرمار نے ہمارا بھرکس نکال دیا ہے ۔کشکول اٹھانے والی قوم کا ایسا ہی انجام ہو تا ہے۔مشہور محاورہ ہے کہ (دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا) ۔سچ تو یہ ہے کہ بہتر دنوں کی نوید میں عوام جن سیاسی جماعتوں کی حمائت پر سب کچھ لٹانے کیلئے آٓمادہ ہوجاتے ہیں وہ انھیں بیچ منجدھار میں چھوڑ کر آنکھیں پھیر لیتی ہیں ۔ ۱۹۷۱؁ میں ہم نے یہی دیکھا تھا۔دلکش نعرے تھے اور عوام ان نعروں کی اسیر تھی۔اسٹیبلشمنٹ اپنے اقتدار کے دوام کی خاطر سازشییں رچائے ہوئی تھی ۔ کوئی کسی پر اعتبار نہیں کر رہا تھا۔شیخ مجیب الرحمان بنگلہ دیش کی راگنی الاپ رہا تھا۔بنگالی عوام علیحدہ وطن کے جذباتی نعروں کے جوش میں سب کچھ فراموش کر چکے تھے ۔ فوج اور عوام ایک دوسرے کے آمنے ساامنے تھے جسے بھارت جیسا مکار دشمن ہوا دے رہا تھا۔مکتی باہنی کے جتھے جھنین بھارتی حکومت نے اسلحہ اور گولہ بارود سے مسلح کر رکھا تھاان کا واحد مقصد پاک فوج پر حملے کرنا تھا۔ ،خون بہتا رہا،ملک کمزور ہوتا رہا لیکن اقتدار کی ہوس نے کہیں رکنے کا نام نہ لیا ۔جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا ۔ پاکستان کا ایک بازو کاٹ کر اسے دو لخت کر دیا گیا ۔ آج بھی اقتدار کی وہی جنگ جاری ہے ۔ چہرے بدل گے ہیں لیکن ہوس کا رنگ نہیں بدلا۔ملک ڈوب رہا ہے لیکن ذاتی فتح کی حسرت کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ جمہوریت کے نام پر جو تماشہ سجا ہوا ہے وہ انتہائی شرمناک ہے ۔پٹاری سے ہر روز ایک نیا شوشہ بر آمد ہو تا ہے جس سے ملک بدنام ہو رہا ہے لیکن کسی کو اس کا احساس نہیں ہے۔ہر کوئی اپنی ڈفلی بجا رہا ہے لیکن اس ڈفلی میں ملکی استحکام کا کہیں نام و نشان نہیں ہے ۔کاش کوئی ایک لیڈرایسا ہوتا جو ملکی وقار کو مقدم رکھتا اور اس کے استحکام کی خاطر ذاتی انا کی قربانی دیتا لیکن ایسا لیڈر کہیں نظر نہیں آ رہا۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 448795 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.