قادری کالونی والٹن روڈ لاہور کی جٹاں والی گلی میں ایک
ایسا نوجوان (ملک محمد ریاض) اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیر ہے -جس کی عمر
تو زیادہ نہیں لیکن عقل و فہم کے اعتبار وہ کا فی سمجھ دار لگتا ہے ۔وہ
اردگرد دیکھنے کی بجائے نگاہیں زمین پر بچھائے اپنی منزل مقصود کی جانب
رواں دواں دکھائی دیتا ہے ۔ کبھی مسجد میں اس کی جھلک نظرآ بھی جائے تو
دوسری بار نظر اٹھنے سے پہلے وہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے ۔ یوں محسوس
ہوتا ہے کہ اسے اس معاشرے اور دنیا سے کچھ زیادہ لینا دینا نہیں ۔ لیکن وہ
مجھ سے جب بھی اور جہاں بھی ملتا ہے ۔یہی پوچھتا ہے مہنگائی کب کم ہوگی ۔
شہباز شریف کیا کررہا ہے ۔حالانکہ وہ پہلے مسلم لیگ ن میں دلچسپی رکھتا تھا
لیکن جب سے عمران خان اقتدار سے فارغ ہوئے ہیں اور ہر روز نئی سے نئی
تقریریں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کا
جھکاؤ عمران خان کی طرف ہوگیا ۔نومبر 2022ء میں وہ رشتہ ازدواج میں منسلک
ہو چکا ہے ۔اس لیے ہر شادی شدہ انسان کی طرح اسے بھی مہنگائی نے پریشان
کرنا شروع کردیا ہے ۔وہ جب بھی مجھ سے مہنگائی کے بارے میں پوچھتا ہے تو
میں اس کو کوئی امید دلانے کی بجائے اس لیے خاموش ہوجاتا ہوں کہ میں تو خود
مہنگائی کی منحوس دلدل میں پاؤں سے سر تک ڈوب چکا ہوں ۔بڑھتی ہوئی قیمتوں
کا اژدھاکسی روک ٹوک کے بغیر بڑھتا ہی چلاجا رہا ہے ۔بجلی کے بلوں نے الگ
پریشان کررکھا ہے ۔ایک عام آدمی جتنی تنخواہ لیتا ہے اس سے کہیں زیادہ بجلی
کے بل عام گھروں میں موصول ہورہے ہیں ۔ میرے گھر کے سامنے ایک کرایے
داررہتا ہے ۔اس کے تین چار بچے تو ہیں لیکن بڑا بیٹا قصائی کی دوکان پر صبح
سے شام تک محنت مزدوری کرتا ہے تو باقی بچے سکولوں میں پڑھنے کی بجائے والد
کا ہاتھ بٹاتے ہیں ۔ وہ کرایہ دار ساری رات جاگ کھانا تیا ر کرتا ہے اور جب
صبح لوگ دفتروں کو جا رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنی سائیکل ریڑھی کو پیدل ہی
کھینچتا ہو ا کسی ایسے مقام کی جانب گامزن ہوتا ہے جہاں اسے گاہکوں کی امید
ہوتی ہے۔
کل ملک ریاض نے مجھے واٹس پر تصویر کے ساتھ ایک مسیج بھیجا جس کو میں من
وعن یہاں لکھ رہا ہوں ۔"یہ واہگہ بارڈر لاہور سے صرف چند قدم دور انڈیا کا
اٹاری گاؤں ہے۔ اس گاؤں میں پیاز 25 روپے آٹا 30 روپے کلو ہے اور روٹی 3
روپے گھی 60 روپے کلو ہے، وہاں سے چند قدم مغرب کی جانب آئیں تو آگے لاہور
کا نواحی گاؤں برکی ہے۔ جس میں پیاز 230 آٹا 120 روپے کلو ہے۔ نان 25روپے ،روٹی
15 روپے اور گھی 500 روپے کلو ہے۔فصل ایک، زمین ایک، موسم ایک، ماحول ایک
زمیندار ایک جیسے، بس فرق ترجیحات کا ہے۔یہ سب کیسے ہوا اور کس کس نے عوام
کی پشت میں چھرا گھونپااس بارے میں کسی ایک پر الزام نہیں لگا یا جا سکتا ۔پاکستان
جب سے آزاد ہوا ہے ۔پے درپے جتنی بھی حکومتیں معرض وجود میں آئیں اور اپنی
جیبیں بھرکے عوام کو مہنگائی کی کنند چھری سے ذبح کرکے چلتی بنیں۔کسی نے
بھی غریب عوام کا احساس نہیں کیا۔اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکمران امیر
سے امیر ہوتے چلے گئے اور اس ملک کے عوام غریب سے غریب ہوتے جارہے ہیں ۔
"یہاں میں یہ عرض کرتا چلوں کہ دو تین سال پہلے ہم میاں بیوی والٹن روڈ کے
معروف " فائن میڈیکل اینڈ جنرل سٹور" پہنچے تو اپنی خریداری کے علاوہ مجھے
ایک تھرموس جو خاصا بڑا تھا، دکھائی دیا میں نے اس کی قیمت پوچھی تو جنرل
سٹور کے ملازم نے بتایا 1300/-روپے ہے ۔ میں نے جب اسے خریدنے کی خواہش کا
اظہار کیا تو بیگم نے یہ کہتے ہوئے مخالفت کردی کہ ایک چھوٹا تھرموس گھر
میں موجود ہے ، پھر اسے خریدنے کا جواز نہیں بنتا ۔میں نے بیگم کی بات کو
رد کرتے ہوئے وہ تھرموس خرید کر گھر لے آیا ۔بیگم نے اس تھرموس کو کسی خاص
جگہ پر رکھ کر محفوظ کر لیا ۔جب سے عمر بڑھتی جا رہی ہے تو میں اکثر باتوں
کو بھول جاتا ہوں ۔مجھے یاد نہیں رہا کہ سب سے بڑا جو تھرموس ہم نے خریدا
تھا وہ کہاں ہے ۔وقت گزرتا رہا ۔میں یہ کہتے ہوئے اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ادا
کرتاہوں کہ رات کو میں خبرنامہ سنتے ہی سو جاتا ہوں تو غیبی طاقت مجھے صبح
تین چار بجے بیدار کردیتی ہے ۔گرمیوں میں تو کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا
پڑتا لیکن جب سے سردی کا موسم شروع ہوا ہے ۔توصبح تین چار بجے ٹینکی کے سخت
ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن وضو کے بغیر نماز پڑھی بھی
نہیں جاسکتی ۔اس لیے جب برف جیسے ٹھنڈے پانی سے طہارت اور وضوکرنا پڑتا ہے
تو پورا جسم تھر تھر کانپ اٹھتا ہے دوسرے لفظوں میں نانی یاد آ جاتی ہے ۔ایسا
بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایک مرتبہ کی بجائے دو مرتبہ وضو توڑ کر بنانا
پڑتا ہے ۔پچھلے سال ہم موٹر چلاکر تازہ پانی حاصل کرنے کی جستجو کرتے رہے ۔لیکن
اب جبکہ ٹیوب ویل چلنے کا شیڈول تبدیل ہو چکا ہے تو الصبح موٹر تازہ پانی
نہیں کھینچتی ۔چنانچہ ٹھنڈے پانی ہی سے وضوکرنا ہمارا مقدربن چکا تھا ۔یہ
بھی بتاتا چلو ں کہ ٹھنڈے پانی سے وضوکرنے سے چھینکوں کے ساتھ ساتھ نزلہ
زکام بھی مسلسل رہنے لگا ہے ۔ ڈاکٹروں کے کلینکوں کے مسلسل چکر کاٹنے کے
ساتھ ساتھ پیسے بھی بہت خرچ ہونے لگے ہیں ۔جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد پیسیوں کی
ہمارے پاس قلت ہے۔بیوی اور بیٹوں سے مانگتے اچھا نہیں لگتا ۔اس لیے بار بار
ڈاکٹروں کے پاس جانے کی بجائے بیماری کو دانتوں کے نیچے داب کر بیٹھنا ہی
پڑتا ہے ۔کسی نے کیا خوب کہا تھاکہ جوانی ہمیشہ نہیں رہتی ۔بڑھاپا جب آتا
ہے تو اپنے ساتھ بے شمار بیماریاں لے کر آتا ہے ۔ان بیماریوں کو وقتی طور
پر دبانے اور صحت اور زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے پاپڑبیلنے پڑتے ہیں
۔بات کچھ لمبی ہوگئی ۔ ہم اپنے موضوع کی جانب آتے ہیں۔
میرے پوتے پوتیوں کو قرآن پڑھانے کے لیے ایک قاری اور حافظ محمد افضل صاحب
گھر پر تشریف لاتے ہیں ۔سردی ہو یا گرمی ان کے روٹین میں فرق نہیں پڑتا
۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ جذبات لیس کے ساتھ ساتھ سردی اور گرمی لیس بھی ہیں
۔میں نے کبھی ان کی زبان سے کسی بھی موسم یا واقعے کے بارے میں احتجاج کے
لہجے میں بات کرتے نہیں دیکھا ۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اﷲ تعالی جس کے
سینے میں قرآن محفوظ کرتا ہے ان کی خوب حفاظت بھی کرتا ہے۔ایک دن قاری افضل
صاحب سے سردی میں وضو کے لیے ٹھنڈے پانی کے استعمال کے حوالے سے بات ہو رہی
تھی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا آپ کے گھر میں تھرموس نہیں ہے ۔میں نے کہا
جی ہے ۔تو انہوں نے کہا رات پانی ابال کر تھرموس میں محفوظ کر لیا کریں اور
صبح جب آپ تہجد کے لیے اٹھیں تو تھرموس کا گرم پانی آپ کے وضوکے لیے دستیاب
ہو گا ۔قاری محمد افضل صاحب کی یہ بات میرے دل کو لگی۔ میں نے اسی وقت بیگم
کو کہہ دیا کہ تھرموس میں رات کو ابلاہوا گرم پانی ڈال کر رکھ لیا
کریں۔اگلی صبح ہم اسی سے وضو کرلیا کریں گے ۔بیگم نے اپنی جانب سے کوئی
تجویز دینے کی بجائے میری بات پر اسی وقت عمل شروع کردیا اور بڑا تھرموس جو
میں نے دو تین سال پہلے 1300 روپے کا خریدا تھا ۔اس کو اس مقصد کے لیے
استعمال کرنا شروع کردیا ۔دو تین دن استعمال کے بعد پتہ چلا کہ وہ تھرموس
لیک کرتا ہے ۔جس میز پر اسے رکھا جاتا تھا اس میز پر پڑی ہوئی میری ادویات
سمیت تمام چیزیں گیلی ہوجاتی ہیں ۔ایک دن ہم دونوں میاں بیوی فائن میڈیکل
اینڈ جنرل سٹور والٹن روڈ لاہور کینٹ جا پہنچے ۔اور متعلقہ افراد کو شکایت
کے لہجے میں بتایا کہ جو تھرموس چند سال پہلے آپ سے خریدا گیا تھا وہ لیک
کرتا ہے ۔اسے تبدیل کردیں یا ٹھیک کردیں ۔انہوں نے ہمیں کرسی پر بیٹھنے کے
لیے کہا اور تازہ پانی کے دو گلاس ہمیں پلائے ۔
ان میں سے ایک شخص تھرموس کو کھول کر ٹھیک کرنے لگا ۔جس جگہ ہم دونوں بیٹھے
تھے اس جگہ کے سامنے تھرموس کافی تعداد میں رکھے ہوئے تھے ۔لیکن جس تھرموس
کو ہم دیکھتے اس کو قیمت ہماری توقع سے کہیں زیادہ ہوتی ۔چھوٹے سے چھوٹا
تھرموس دو ہزار کاتھا جبکہ درمیانہ چار ہزار سے آٹھ ہزار روپے کا تھا
۔قیمتیں دیکھ کر ہماری تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔حیرت کی بات یہ ہے
کہ ہمارے جس تھرموس کو ٹھیک کیا جارہا تھا ۔اس جیسا ایک بھی تھرموس وہاں
موجود نہیں تھا بلکہ اس سے کہیں چھوٹے تھرموس ہی موجود تھے ۔ہمیں بتایا گیا
کہ آپ نے جو تھرموس 1300روپے کا خریدا تھا اس کی قیمت اب 12000روپے ہو چکی
ہے ۔اتنا مہنگا تھرموس چونکہ اب کوئی خریدتا نہیں ۔اس لیے اب ہمارے سٹاک
میں موجودبھی نہیں ہے۔یہ سن کر ہمارے تو ہوش اڑ گئے ۔دو تین سالوں میں اتنی
مہنگائی ہوچکی ہے کہ ہر چیز کی قیمت خود بخود دس گنا زیادہ بڑھ چکی ہے
۔جبکہ لوگوں کی قوت خرید پہلے سے بھی زیادہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان حالات
میں لوگ کیسے زندہ رہیں گے ۔
یہاں میں ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں ۔
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے جنوبی ایشیا ریجن میں پاکستان کو دوسرا
مہنگا ترین ملک قرار دیتے ہوئے ملک میں مہنگائی کی شرح زیادہ رہنے کی
پیشگوئی کی ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے سال 2022 کا آؤٹ لک جاری
کیاجس میں پاکستان میں آئندہ آنے والے مہینوں میں مہنگائی کی شرح زیادہ
رہنے کی پیشنگوئی کی گئی ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں مزید گراوٹ ہوسکتی
ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 26.6 فیصد ہے۔اے ڈی بی کی پیشنگوئی کے
مطابق پاکستان میں توانائی مزید مہنگی ہونے کا خدشہ ہے، جنوبی ایشیا میں
معاشی ترقی کی شرح سیلاب کی وجہ سے کم ہوگئی ہے، پاکستان اور بنگلہ دیش کے
سیلابوں نے معاشی ترقی کو متاثر کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق سری لنکا خطے میں سب
سے زیادہ مہنگا ملک ہے جہاں مہنگائی کے بڑھنے کی شرح 70.6 فیصد ہے، بنگلہ
دیش میں مہنگائی کے بڑھنے کی شرح 8.9 فیصد جبکہ بھارت میں مہنگائی کے بڑھنے
کی شرح 6.8 فیصد ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے
پاکستانی معیشت کو پے در پے نقصان پہنچایا ہے، سیلاب سے زراعت خاص طور پر
گندم کی فصل اور لائیو اسٹاک کو نقصان پہنچا یا ہے۔
یہ رپورٹ تو ایشیائی ترقیاتی بنک کی تھی لیکن اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ
ہوگا کہ پاکستان میں حکومت اور انتظامی ادارے صرف نام کے ہیں ۔ افسر اور
ملازمین صرف تنخواہیں لینے کے لیے دفتر جاتے ہیں لیکن وہ اپنے انتظامی
فرائض انجام دینے میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں ۔ صبح نماز فجر کے بعد جب میں
گھر واپس آتا ہوں تو دودھ کے ساتھ دو تین رس لیتا ہوں ۔ تین چار بجے اٹھنے
کی وجہ سے مجھے بھوک کی شدت کا احساس ہوتا ہے ۔ اس کے بعد میں ایک دو گھنٹہ
آرام کرکے نو ساڑھے نو۔ دس بجے دوبارہ بیدار ہوتا ہوں ،پھر ناشتہ کرتا ہوں
۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ابتدا ء میں رس 45روپے کا پیکٹ ملتا تھا ۔پھر اس
کی قیمت 55روپے ہوگئی ۔ایک دو مہینے ہی گزرے ہونگے تو وہ 65روپے سے بڑھتا
ہوا 80روپے تک جا پہنچا ۔اب ان رسوں کی کوالٹی بڑی حد تک کم ہو چکی ہے لیکن
رسوں کے ایک پیکٹ کی قیمت 110 روپے ہوچکی ہے ۔جبکہ اسی کمپنی کے کیک رس جس
میں چینی ، میدے اور انڈے کا استعمال بھی ہوتا ہے اس کی قیمت 120روپے ہے
۔وہ انڈہ جو پچھلے چند سالوں میں آٹھ دس روپے کا ہوتا تھا وہ بھی 22سے
25روپے کا ایک انڈہ ہوچکا ہے ۔کسی دل جلے نے اسی تناظر میں کہا تھا عمران
خان نے صحیح کہا تھا کہ مرغیاں اور کٹے اپنے گھروں میں پال لوں ۔ انڈوں کے
ساتھ ساتھ مرغیوں اور کٹوں کا گوشت بھی سستا میسر آئے گا۔ لیکن پاکستانی
قوم نے عمران خان کی اس بات پر دھیان نہیں دیا اب پچھتا رہی ہے ۔
ملک محمد ریاض نے اوپر جس بات کی جانب توجہ دلائی ہے وہ بالکل ٹھیک ہے ایک
گاؤں سرحد سے مشرقی جانب اور ایک گاؤں بین الاقوامی سرحد سے مغرب کی جانب
موجود ہے لیکن دونوں گاؤں کی دنیا اور اشیائے خورد نوش کی قیمتوں میں زمین
آسمان کا فرق ہے ۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں اور وہ ہندو اور سکھ لیکن خوف خدا
اور انسان دوستی میں وہ ہم سے کہیں زیادہ آگے ہیں ۔اب یہ بات حکمرانوں کے
سوچنے والی ہے کہ وہ ڈالر کی پرواز کو روکیں اور پاکستان کرنسی کو استحکام
دے کر اندرون ملک اور بیرون ملک سے آنے والی اشیائے خورد نوش اور ایشائے
ضروریہ کی قیمتوں کو عام آدمی کی پہنچ میں لائیں وگرنہ پہلے سمگلر سرحد کو
عبور کرکے سمگلنگ کرتے ،اب عوام سے کام نہ شروع کردے ۔کیونکہ پاکستان میں
رہنے کا جینا مہنگائی اور حکمرانوں کی غلط حکمت عملی کی بنا پر دشوار ہوچکا
ہے۔ |