شرابِ سیاست: نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

ام الخبائث ہونےکے باوجود شراب مغربی تہذیب کے نزدیک روشن خیالی اور ترقی پسندی کی علامت ہے ۔ اس لیے اگر فیفا عالمی کپ کے دوران کھلے عام شراب نوشی پر پابندی لگائی جاتی ہے تو اسے دقیانوسیت یا انسانی حقوق کی پامالی قرار دیا جاتا ہے۔ معاشرے کے شرفاء اگر کسی برائی میں ملوث ہوجائیں تو عام لوگ اس کو اچھائی سمجھ کر نقالی کرنے لگتے ہیں اور زہریلی شراب پینے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ شراب بذاتِ خود زہر ہے ۔ مہنگی شراب دھیما زہر ہے جو آہستہ آہستہ دماغ اور جگر کو مفلوج کرتی ہے۔ اس کے برعکس سستی شراب کا زہر فوراً انسانی رگوں میں سرائیت کرکے موت کا فرشتہ بن جاتی ہے۔ 2018 میں عالمی ادارہ صحت (WHO) کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق شراب نوشی سے دنیا بھر میں ہر سال تیس لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ یہ ایڈز اور سڑک پر ہونے والے حادثات میں مرنے والے افراد کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ایک تازہ جائزے میں برطانیہ کے دفترِ شماریات نے انکشاف کیا کہ 2021 میں ملک کے اندر شراب سے مرنے والے افراد نو ہزار 641 تھے۔ 2019 میں صرف سات ہزار 565 اموات ہوئی تھیں ، یعنی شراب کی اموات میں 27 فیصد اضافہ ہوا۔

برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں زہریلی شراب سے کوئی ہلاک نہیں ہوتا بلکہ سب میٹھے زہر کا شکار ہوتےہیں۔ ہندوستان میں اس طرح مرنے والوں کا حساب بھی نہیں رکھا جاتا بلکہ صرف زہر یلی شراب پی کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد پر اکتفاء کرلیا جاتا ہے۔ ملک بھر میں 2016 کے اندر شراب کے سبب مجموعی طور پر 1054 لوگوں نے اپنی جوان گنوائی، 2017 میں 1510، 2018 میں 1365، 2019 میں 1296 اور 2020 میں 947 لوگوں کی جان گئی۔سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2016 سے 2021 کے درمیان مدھیہ پردیش میں زہریلی شراب سے مرنے والے سب سے زیادہ یعنی 1322 تھےلیکن چونکہ وہاں بی جے پی کی سرکار ہے اس لیے نہ کوئی توجہ دیتا ہے اور نہ کمیشن حرکت میں آتا ہے۔ اس کے بعد کرناٹک کا نمبر آتا ہے جہاں اس عرصے میں 1013 لوگ ہلاک ہوئے لیکن وہاں بھی رام راجیہ ہے اس لیے چنتا کی کوئی بات نہیں۔ تیسرے نمبر پر پنجاب ہے جہاں 852لوگ لقمۂ اجل بنے اور اس کے بعد یوگی جی کے اتر پردیش کی باری آتی ہے جس میں 425 لوگوں کی ہلاکت درج کی گئی۔
اس کے برعکس بہار میں اس مدت کے دوران محض 23 اموات درج کی گئی ہیں جو ملک میں سب سے کم تھی لیکن ابھی حال میں چونکہ بہار کےسارن میں زہریلی شراب سے 73؍ افراد کی موت ہو گئی تو اچانک قومی انسانی حقوق کمیشن بیدار ہوگیا اور اس نے معاملے کا نوٹس لے کر تحقیقات کے لیے اپنی ایک ٹیم بھی روانہ کردی ۔ بظاہر یہ اچھی بات ہے بشرطیکہ حقوقِ انسانی کے معاملہ کم ازکم تفریق و امتیاز نہ کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے جن صوبوں میں لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ دے کر اقتدار پر فائز کردیا کیا ان کی جان کسی اہمیت کی حامل نہیں ہے ؟ ان بیچاروں کا کیا قصور ہے جو وہاں زہریلی شراب پی کر مرنے والوں کو این ایچ آر سی نظر انداز کردیتا ہے؟ کسی اور صوبے کا نہ سہی تو کم ازکم گجرات کا تو خیال رکھنا چاہیے جہاں کے لوگوں نے بی جے پی کو غیر معمولی کامیابی سے نوازہ ہے۔ کسی کو اگر یہ غلط فہمی ہے کہ گجرات میں شراب بندی کے سبب لوگ شراب کو چھوتے تک نہیں تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہاں شراب کا سالانہ تقریباً 15000 کروڑ کا غیر قانونی کاروبار ہو تا ہے لیکن نہ ای ڈی اورنہ سی بی آئی کوئی نہیں جاتا۔ امسال جولائی کے اندرگجرات کے بوٹاد ضلع میں زہریلی شراب پینے کی وجہ سے 46 اموات ہوئیں لیکن انسانی حقوق کا کمیشن خواب خرگوش میں مست رہا۔ کیاگجراتیوں کی زندگی بہاریوں سے ارزاں ہے؟

گجرات تو خیر وزیر اعظم نریندر مودی کی جنم بھومی ہے لیکن اترپردیش کو تو انہوں اپنی کرم بھومی کے طور پرازخود پسند کیا اور ان کی ولیعہدی کے دعویدار یوگی ادیتیہ ناتھ وہاں پر برسرِ اقتدار ہیں ۔ اس کے باوجود گزشتہ سال مئی میں علی گڑھ کے اندر زہریلی شراب سے 18 افراد ہلاک ہوگئے ۔ اترپردیش میں چونکہ شراب پر پابندی نہیں ہے اس لیے اسے لائسنس والی شراب کی دکانوں سے خریدا گیا تھا ۔ انتظامیہ نے علاقہ کی پانچ دوکانوں کو سیل کردیا اور پورے علی گڑھ ضلع میں دیسی شراب کی دوکانوں کو بھی تفتیش کی تکمیل تک مقفل کردیا لیکن مرکزی سرکار کی کان پر جوں نہیں رینگی۔ اس موقع پر پرینکا گاندھی نے اپنے ٹویٹ کرکے پوچھا تھا کہ ''آگرہ میں زہریلی شراب سے 13 اموات ہوئیں۔ رواں برس اترپردیش میں زہریلی شراب سے تقریباً 200؍ اموات ہوئی ہیں، یوپی میں شراب مافیا زہریلی شراب کی کھلے عام تجارت کر رہے ہیں، صحافیوں اور پولیس پر حملہ کر رہے ہیں، لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ بی جے پی سرکار شراب مافیا پر کیوں مہربان ہے؟''۔ اس تیکھے سوال کا جواب دینے کی زحمت کسی نے نہیں کی ۔

اترپردیش اور اتراکھنڈ کے اندر فروری 2019 میں بھی زہریلی شراب پینے سے 105 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اتفاق سے اترپردیش آدتیہ ناتھ یوگی کی کرم بھومی اور اتراکھنڈ ان کی جنم بھومی ہے۔ ان دونوں صوبوں میں ڈبل انجن سرکار کے باوجود یہ سانحہ رونما ہوگیالیکن کسی قومی ادارے کی نظر التفات اس پر نہیں پڑی اور مرنے والوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا جبکہ بہار کے اند ر بی جے پی والے معاوضہ دینے کامطالبہ کررہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی مسترد کردینے والے بہاریوں کو معاوضہ اور اسے گلے لگانے کے باوجود اترپردیشیوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اس کا سیدھا مطلب ہے اگر ملک کے لوگ بی جے پی کی مرکزی حکومت کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ریاست میں اس کو اقتدار سے محروم کردینا چاہیے۔ اس کے برعکس اگر لوگوں نے اسے دونوں جگہ کامیاب کردیا تو انہیں بھلا دیا جائے گا ۔ آئندہ سال ملک کے چار اہم صوبوں میں ریاستی انتخابات کا انعقاد ہوگا ۔ رائے دہندگان کی سمجھ میں اگر بی جے پی کا یہ ناروا سلوک آجائے تو وہ اسے سبق سکھا دیں گے لیکن امکان کم ہے کیونکہ ایک عام ہندوستانی دماغ کے بجائے دل یاپیٹ سے سوچنے کا کام لیتا ہے اور اکثر غلط فیصلے کر بیٹھتا ہے۔

یوگی ادیتیہ ناتھ کے بعد بی جے پی کا سب سے بڑا سرپھرا رہنما فی الحال آسام کا وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما ہے۔ دو سال قبل اس کی ریاست میں بھی زہریلی شراب پینے سے کم سے کم 99 افراد ہلاک ہوگئے اور 100 سے زائد لوگوں کو علاج کے لیے اسپتال میں داخل کرناپڑا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ متاثرین میں آسام کے اندر چائے کے کھیتوں پر کام کرنے والی متعدد خواتین بھی شامل تھیں ۔آسام کے ضلع گولاگھٹ اور جورہٹ میں یہ سانحہ پیش آیا۔ اسپتال میں بھرتی ایک متاثر نے بتایا کہ اس نے آدھا لیٹر شراب خریدی اور کھانا کھانے سے پہلے پی لی اورکچھ دیر بعد سر درد کرنے لگا۔ صبح تک بے چینی کی شکایت رہی اور پھرسینے میں شدید درد بھی شروع ہوگیا۔ اس کے بعد ٹی پلانٹیشن اسپتال لےجایا گیا تو اس نے ضلعی دواخانہ بھیج دیا۔ حکام نے تفتیش کے لیے مقامی انکوائری کمیشن قائم کردیا ۔ریاستی پولیس نے ایک شخص کو زہریلی شراب بیچنے کے جرم میں گرفتار کیا نیزایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے دو اہلکار معطل کیے گئے اور سارامعاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا۔ کاش کے انسانی حقوق کا قومی کمیشن اس جانب بھی توجہ کرتا۔ ان واقعات کے تناظر میں اگر آر جے ڈی رکن پارلیمان منوج جھا نےایوان میں قومی حقوق انسانی کمیشن جیسے اداروں کی تفریق آمیز کارروائی پر بحث کا مطالبہ کیا تو کیا غلط کیا ؟

پروفیسر منوج جھا کا کہنا ہے کہ این ایچ آر سی نے حال میں بہار کے اندرہونے والی شراب سے اموات کے افسوسناک واقعہ پر بہار حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے لیکن کمیشن گجرات، ہریانہ اور اتر پردیش جیسی ریاستوں میں ہوئے اس قسم کے واقعات پر خاموش ہے اور نہ ہی وہاں کا کوئی دورہ کیا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جب کسی دیگر ریاست میں نقلی شراب سے ہوئی اموات پر کمیشن نے کسی قسم کا نوٹس لیا ہو۔ موربی پل حادثے میں بھی جہاں 150 سے زیادہ لوگوں کی جان گئی تھی، کمیشن نے جائے حادثہ کا دورہ تک نہیں کیا ۔ حقوق انسانی کمیشن جیسے مرکزی ادارے جنھیں غیر جانبدار ہونا چاہیے انھیں بھی تفریق والا بنا دیا جائے تو اس پر بحث ہونی چاہیے ۔ ان کے مطابق اس قسم کے غلط رویے سے قومی حقوق انسانی کمیشن کی معتبریت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے، ساتھ ہی ایسے اقدام سے ریاستوں سے جڑے معاملوں میں ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ جس ادارے کی ذمہ داری حقوق انسانی کے تحفظ ہے اسے ان حقوق کو پامال کرنے کا آلۂٔ کار بنا لیا جائے لیکن یہ مودی یگ ہے اور اس کا نعرہ ہے ’مودی ہے تو ممکن ہے‘۔ سچ تو یہ ہے اس زہریلی سیاست کے مضر اثرات نقلی شراب سے زیادہ خطرناک ہیں لیکن اقتدار کے نشے میں دھتُ حکمرانوں اس کا احساس کیونکر ہوسکتا ہے؟
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450123 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.