پنجاب کی سیاست اس وقت اپنے عروج پر ہے سپیکر پنجاب
اسمبلی نے گورنر کے احکامات کو غیر آئینی کہتے ہوئے رد کردیا جبکہ گورنر
پنجاب نے سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیدیا معلوم دونوں کو ہے کہ
انکے سب کام ہی غیر آئینی ہیں یہ کیس جب عدالت جائیگا تو وقت برباد ہوگا
غریب لوگوں کا جنکو تاریخ دیدی جائیگی اور اسمبلی کا معاملہ ترجیحی بنیادوں
پر سنا جائیگاہماری عدالتیں بہت اچھا کام کررہی ہیں خاص کر انسانی حقوق کے
حوالہ سے عدالتوں کا کام بہت ہی متاثر کن ہے بعض اوقات عدلیہ کے فیصلوں پر
تنقید بھی ہوتی ہے ایک بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہماری آبادی میں بے
تحاشا اضافہ ہو چکا ہے جرائم بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا بلکہ بچے جن رہا
ہے کوچہ و بازار میں اور انکے مقابلے میں ہمارے پاس محدود نظام عدل موجود
ہے جسکے پاس ہزاروں کیس طوالت کا شکار ہیں ایک نسل کے بعد دوسری نسل بھی
تاریخیں بھگت رہی ہے اور ہماری مختصر سی عدلیہ بھی کام نمٹانے میں لگی ہوئی
ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ریلیف مل سکے مگر عدالتوں کا زیادہ وقت تو
ہمارے سیاستدان لے جاتے ہیں مجھے بلو چستان ہا ئی کورٹ کے جسٹس جنا ب جسٹس
عبدالحمید بلوچ اور انکے بنچ کے الفاظ تاریخی محسوس ہوئے بلکہ انہیں سنہری
حروف میں لکھ کر ہر پبلک مقام پر آویزاں کیا جائے تاکہ ہمیں بھی کچھ عقل
آئے شہباز گل کے خلا ف ضلع قلعہ عبداﷲ میں دائر مقدمہ سے متعلق دائر آئینی
درخواست جس میں ایک عام شخص نے موبائل پر ویڈیو دیکھ کر شہبا ز گل کے خلاف
قلعہ عبداﷲ میں بے بنیاد ایف آئی آر درج کرادی تھی کی سما عت پر ریمارکس
دیے کہ یہ اقتدار کی جنگ ہے اختلافات کی نہیں جب تک سیاستدان اپنے مفادات
نہیں چھوڑتے یہ ہوتا رہے گا اقتدار کیلئے سیاستدان سمجھوتا کرتے ہیں
سیاستدانوں کو سوچنا چاہئے کہ آج وہ اقتدار میں ہیں تو کل وہ اپوزیشن میں
ہونگے ۔ شہباز گل پر ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی ایک ایف آئی
آر ہوئی ہے ایک ہی کیس میں اتنی ایف آئی آرز ہونا آئین کی خلاف ورزی ہے،
ایک واقعہ پنڈی میں ہوتا ہے اور مقدمہ بلوچستان میں کس بنیاد پر درج ہوتا
ہے،پا کستان تحریک انصاف کے رہنما ء و سینیٹر اعظم سواتی پر بھی بلوچستان
میں 8مقدمات بنائے گئے تھے جنہیں عدالت نے ختم کیا اگر عدالت اعظم سواتی کے
مقدمات ختم نہ کرواتی تو اس بے چارے کو شائد لاڑکانہ کی سڑکوں پر ضرور
گھسیٹا جاتا اسی طرح لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے 1947 سے اب تک توشہ خانہ سے
تحائف لینے والی تمام شخصیات کی تفصیل طلب کرنا بھی خوش آئند ہے واضح ہونا
چاہیے کہ توشہ خانہ سے کس کس نے کیا کیا لوٹ مار کی ہے اور قومی تحائف
پرکیسے ہاتھ صاف کیے اور حالت یہ ہے کہ حکمرانوں نے ہمیں صرف ایک گھڑی کے
پیچھے لگایا ہوا ہے اگر ہمارے اداروں نے پاکستان کو سنبھالا دینا ہے تو پھر
ملک کے ٹاپ 50 لیڈروں کا فوری احتساب ہونا چاہیے گزشتہ چالیس برسوں سے قوم
پر مسلط حکمرانوں نے ملک کو معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر تباہ کر دیا عدم
اعتماد کے نام پر آج سے نہیں مہینوں سے تماشا جاری ہے پی ڈی ایم اور
پیپلزپارٹی نے 22کروڑ عوام کو یرغمال بنایا ہوا ہے موجودہ حکمران طبقہ جب
تک سیاست میں ہے خوشحال رہے گا اس وقت تک قوم خوار ہوتی رہے گی 75برسوں سے
مسلط اشرافیہ نے سازش کے ذریعے ملک کو اسلامی نظام سے محروم رکھاہوا ہے بار
بار حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعتیں اقتدار سے الگ ہو کر سسٹم کی خرابی کی
شکایات کرتی ہیں حالانکہ وہ خود سسٹم کا حصہ اور اس کی رکھوالی پر معمور
ہیں موجودہ فرسودہ سسٹم سے صرف حکمرانوں کی دولت اور جائدادوں میں اضافہ ہو
رہا ہے اورغریب فاقوں پر مجبور ہیں انہوں صرف معروں سے مرغوب کیا جاتا رہا
کبھی روٹی کپڑا اور مکان اور کبھی ایشین ٹائیگر جیسے نعروں کے ساتھ دھوکا
دیا گیا نعرے لگانے والے ظالم جاگیرداروں، وڈیروں اور کرپٹ سرمایہ داروں کے
نام پاناما لیکس اور پنڈوراپیپرز میں آئے مگر ان سے کسی نے جواب طلبی نہیں
کی یہی وجہ ہے کہ آج ہماری معیشت تباہ اور معاشرہ زوال کا شکار ہے مہنگائی
اور بے روزگاری نے لوگوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے ملک کے مختلف حصوں میں
امن و امان کی صورت انتہائی مخدوش ہے دھماکوں اور دہشت گردی کا رکا ہوا
سلسلہ پھر سے شروع ہو رہا ہے اسکے ساتھ ساتھ کرونا بھی سر اٹھا رہا ہے
مریضوں کی تعداد میں اضافہ اور ادویات غائب ہوتی جارہی ہیں لوگ ہر لمحہ
اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کررہے ہیں اور ان مسائل کے ذمہ داران وہی حکمران
ہیں جنھوں نے ہمارے وسائل پر قبضہ جما کر برسہابرس سے ہمیں بنیادی سہولیات
تک سے محروم کیا ہوا ہے کوئی پارٹی کوئی لیڈر آئین کی روح اور جمہوری اقدار
کے مطابق کام کے لیے تیار نہیں سیاسی اقتصادی محاذ پر ہیجانی کیفیت سے عام
آدمی پس گیا ہے قومی قیادت نے ہوش کے ناخن کے ساتھ سیاسی جمہوری انتخابی
بحران پر قابو نہ پایا تو ہولناک نتائج برآمد ہوں گے لیکن نتائج سے بے
پرواہ اتحادی حکومت اس وقت صرف حکمرانی انجوائے کررہی ہے اور اگر کوئی انکی
ترجیح ہے تو وہ مقدمات کا خاتمہ اتحادیوں کی ترجیح ہے جبکہ اقتصادی بحرانوں
کے خاتمہ کے لیے ان کا کوئی پروگرام نہیں ایسا لگتا ہے کہ ایڈہاک ازم اور
قرضوں کا بوجھ بڑھانا ہی اِن کی اسٹریٹجی ہے عوام کی باتیں کرنے والے
حکمرانوں کو چاہیے کہ ماضی کی خطاؤں پر واویلہ کرنے سے نہیں بلکہ ماضی کی
خرابیون سے سبق سیکھ کر 2023ء کے عام انتخابات کو ترقی، خوشحالی اور
استحکام کا ذریعہ بنایا کر پارٹی اور ذاتی مفادات کے بجائے قومی ترجیحات پر
اتفاق کیا جائے۔
|