قطر کا قدیم اور روایتی بازار سُوق الوقف

سُوق الوقف دوحہ کا قدیم ترین اور روایتی تاریخی بازار ہے۔سُوق کے معنی بازار اور وقف کا مطلب رُکنا ہے۔ اس بازار کا ذکر قطر کی تاریخ میں بھی ملتا ہے۔سُوق الو قف میں داخل ہوئے تو جیسے قدیم دور میں آگئے۔ تنگ گلیاں، چھوٹی چھوٹی دُکانیں، انواع و اقسام کی اشیائے فروخت، ریستوران، قہوہ خانے، گاؤ تکیہ والے چائے خانے جس میں حقہ، کھجوریں اور روایتی عربی قہوے کے ساتھ دیگر اشیائے خوردونوش دستیاب تھیں۔ ہم نے اپنے بیگ گوہر کے واقف کار ایک پشتون دکان دار کے پاس رکھ دیے اور خود ان تنگ اور پیچ دار گلیوں میں گھومنا پھرنا شروع ہو گئے۔ گرمی کافی تھی مگر میں نے برداشت کرنے کا تہیہ کر لیا۔ بازار کے اندر چھوٹی سی مسجد نظر آئی تو ہم نے نمازِ ظہر ادا کی۔ دوپہر کے ان گرم اوقات میں گاہک خال خال تھے۔ دُکان دار بھی سستا رہے تھے۔ مجھے اس سے غرض نہیں تھی۔ میں تو صدیوں قدیم اس تاریخی بازار میں قطریوں کا روایتی طرزِ حیات اور قدیمی طرزِ تجارت دیکھنے کا متمنی تھا۔ یہ بازار اور یہ گلی کوچے صدیوں پرانی قطری تہذیب کی عکاسی کر رہے تھے۔ جب قرب و جوار سے اُونٹوں پر بیٹھ کرلوگ اس بازار میں خریداری کی غرض سے آتے تھے۔ سمندر کے قرب کی وجہ سے یہ بین الاقوامی تاجروں اور سیاحوں کا بھی مرکز تھا۔

بظاہر یہ بازار دو تین سو سال قدیم ہے مگر یہ چند برس قبل بسایا گیا ہے۔ تاہم سُوق الوقف صدیوں سے دوحہ میں موجود تھا اور اسی شکل میں تھا۔ اصل اور قدیم سُوق الوقف یہاں سے کچھ فاصلے پر واقع تھا۔ نئے مقام اور نئے سرے سے بسانے میں اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا کہ اس کے روایتی خدوخال اور تاریخی ہئیت متاثر نہ ہو۔ پھر بھی اس میں کچھ جدید سہولیات جیسے ائیرکنڈیشنز کی خنکی، برقی قمقمے اور زیر زمین پارکنگ کا اضافہ کیا گیا۔ اس کی گلیاں تنگ اور زیادہ تر چھتی ہوئی ہیں جو اس سنگلاخ دُھوپ میں ہمارے لیے بہترین سائبان ثابت ہوئیں۔

سُوق الوقف سمیت یہ علاقہ تفریحی اور سیاحتی مرکز ہے۔سامنے سمندر کے کنارے خوبصورت و دِلکش پارک ہے۔ یہ سب سے مقبول ساحلی پارک ہے جو شام اور رات کے وقت عوام الناس سے بھرا ہوتا ہے۔ تھوڑے ہی فاصلے پر مشہور اسلامک میوزیم ہے۔اسی وجہ سے سُوق الوقف یہاں بنایا گیا۔ بنایا کیا گیا، قدیم سُوق الوقف جیسے اُٹھا کر یہاں رکھ دیا گیا۔ اس میں کوئی ظاہری تبدیلی نہیں کی گئی۔ ٹیڑھی میڑھی تنگ، تاریک اور قدرے ٹھنڈی گلیوں میں گھومتے گھومتے ہم ایک قہوہ خانے میں جا بیٹھے۔ اس میں روایتی عربی قالین اورگاؤ تکیے تھے۔ پتلون قمیض میں ہونے کے باوجود یہاں بیٹھنے میں راحت محسوس ہوئی۔ گوہر نے مٹی کی ایک صراحی سے مٹی کے پیالے میں پانی اُنڈیلا اور میرے آگے رکھا۔ پانی ٹھنڈا اور شیر یں تھا۔ ایک مرتبان میں کھجوریں تھیں ایک تھرماس میں قہوہ تھا۔ ہم نے چند کھجوریں کھائیں، چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں سیاہ قہوہ اُنڈیلا۔ قہوہ اگرچہ کڑواتھا مگر میرے لیے نیا نہیں تھا۔ قیامِ عمان کے دوران میں اکثر نوشِ جان کرتا رہتا تھا۔ اس لیے چند گھونٹ کی پیالی ختم کرنے میں دقت نہ ہوئی۔

اس قہوہ خانے میں ائیرکنڈیشنر نہیں تھا مگر پھر بھی گرمی نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی اس کی چھت مٹی اور گھاس پھونس سے بنی تھی اور در و دیوار پر سبز بیلیں تھیں۔ اس بازار کی جملہ دکانیں اسی قدیم طور سے بنی ہیں۔ یہ حکومتِ قطر کی قابل ستائش کوشش ہے کہ ُانہوں نے اس روایتی طرزِ تعمیر اور تاریخی ورثے کو قائم رکھا ہے۔ ہمارے علاوہ دو قطری کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔ ایک نے عربی میں کچھ کہا۔ گوہر نے بتایا ۔’’وہ پوچھ رہا ہے آپ کچھ کھائیں گے؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’آپ کی مرضی ہے تو کچھ لے لیتے ہیں۔ ویسے مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘ میں نے صبح جتنے انڈے اور پراٹھے کھائے تھے وہ اتنی جلدی ہضم ہونے والے نہیں تھے۔ گوہر نے کہا ۔’’میں بھی کھانا کھا کر آیا ہوں۔‘‘

ہم نے قطری دکان دار کو منع کر دیا۔ وہ پھر گفتگو میں منہمک ہو گئے۔ ادھر گوہر نے سگریٹ سلگائی اور تکیے سے ٹیک لگا کر مزے سے دُھواں اُُڑانے لگا۔ میں حیران ہوا کیونکہ عرصہ ہوا کسی کو کمرے کے اندر سگریٹ نوشی کرتے نہیں دیکھا تھا۔ آسٹریلیا اور یورپ میں ریستوران، دفتر، اسٹیشن، غرضیکہ کسی بھی عمارت کے اندر سگریٹ نوشی کی مکمل ممانعت ہے۔ حتیٰ کہ کھلی جگہ پربھی جہاں لوگ موجود ہوں سگریٹ نہیں پی سکتے۔ قہوہ خانے میں حقّہ اور شیشہ بھی موجود تھا ۔بلکہ تمام ریستورانوں میں یہ دونوں چیزیں موجود تھیں۔ ہم بہر حال ان سے دُور رہے۔ قہوہ خانے سے اُٹھے تو میں کاؤنٹر پر گیا اور بل طلب کیا۔ قطری میرا چہرہ دیکھنے لگا ۔ میں سمجھا اُسے انگریزی سمجھ نہیں آئی لہٰذا عربی میں کہا۔ کَمْ ریال (کتنے ریال)۔ اس کی حیرت بدستور قائم تھی۔ اتنی دیر میں گوہر نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا۔ ’’سر چلیں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’مگر ہم نے کھجوروں اور قہوے کا بل ادا نہیں کیا۔‘‘

وہ پھر بولا ’’سر چلیں۔‘‘ میں حیران ہو کر چل پڑا ۔ باہر نکل کر گوہر نے بتایا۔ ’’اس طرح کے قہوہ خانوں میں کھجوریں اور قہوہ مفت ہوتا ہے۔ یہ عربوں کی روایت ہے۔ اپنے مہمان کی کم از کم ان دو چیزوں سے تواضع ضرور کرتے ہیں۔‘‘

ان کی مہمان نوازی کی روایت سے میں بھی آشناتھا۔ میری حیرت اس وجہ سے تھی کہ یہ گھر نہیں قہوہ خانہ تھا۔قیامِ عمان کے دوران میں نے بہت کھجوریں کھائی تھیں اورکڑوا قہوہ پیا تھا۔ دراصل ہمارے ساتھ کام کرنے والے عمانی گھر سے کھجوریں اور قہوہ ضرور لاتے تھے۔ ہر ڈیڑھ دو گھنٹے بعد زمین پر چوکڑی مار کر بیٹھتے، ارد گرد موجودہر فرد کو بااصرار بلاتے، کھجوریں نکالتے، چھوٹی چھوٹی پیالیو ں میں قہوہ اُنڈیلتے اور قہوہ نوشی کے ساتھ اپنے گھروں میں غیر ملکی ملازماؤں کے بارے میں چسکے لے لے کر باتیں کرتے۔ جس طرح کھجوریں اور قہوہ ان کے لیے ضروری تھا اسی طرح حرمہ (عورت) کا ذِکر بھی لازم تھا۔ دوسری شادی کی خواہش اور کوششوں کا تذکرہ کر تے۔ جس کی پہلے سے دو بیویاں ہوتیں وہ تیسری کی تگ و دو میں ہوتا اور جس کی تین ہوتیں وہ چوتھی کے ارمان میں ہوتا۔ عمان میں شادی کرنے کے لیے مرد کے پاس اتنا پیسہ ہونا چاہئے کہ وہ عورت خرید سکے۔ جس کے پاس وافر پیسہ ہوتا اس کی لازماً چار بیویاں ہوتیں۔ بیویوں کے علاوہ انہوں نے فلپائن ، سری لنکا اور بھارت سے تعلق رکھنے عورتوں کو گھروں میں ملازم رکھا ہوا ہے ۔عرب ملکوں میں تقریباً ہر صاحب حیثیت نے ایسی ملازمائیں رکھی ہیں جو دراصل ان کی داشتائیں ہوتی ہیں۔ یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ صرف قطر میں لاکھوں عورتیں اس کام پر مامور ہیں۔ ایک ایک قطری کے گھر میں کئی کئی غیر مُلکی عورتیں ہیں۔ ان کی حیثیت لونڈیوں سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کے مکمل حقوق اس شخص کے پاس ہوتے ہیں جو انہیں سپانسر کر کے لاتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ انہیں آگے بھی پیش کرتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ایک موبائل ایپ کا انکشاف ہوا ہے جس کے ذریعے ایسی عورتوں کی خرید و فروخت اور ترسیل ہوتی ہے۔

جہاں تک شادی کا تعلق ہے اس میں عمر کا خیال بالکل نہیں رکھا جاتا۔ بس مرد کے پاس پیسا ہونا چاہے۔ اس کی جو بھی عمر ہو‘ نوجوان لڑکی سے شادی رچا سکتا ہے۔ میں نے ساٹھ سترسال کے بڈھوں کو دس بارہ سال کی کم سن لڑکی سے شادی رچاتے دیکھا ہے۔ جن کے پاس اتنا پیسا نہیں ہوتا کہ وہ دوسری اور تیسری شادی کر سکیں وہ اپنی عمر کے بوڑھوں کے ساتھ بیٹیوں کا تبادلہ کر لیتے ہیں۔ ہمارے ایک عمانی ویٹر کی عمرپچپن برس تھی۔ اس نے دواس نے ایک دوست کے ساتھ سوداکیا۔دوست کے ہاتھ میں اپنی تیرہ برس کی بیٹی کا ہاتھ دیا اور بدلے میں اس کی بارہ برس کی بیٹی بیاہ لایا۔ وٹے سٹے کی شادی تو دیکھتے اور سنتے آئے تھے مگر یہ ادلہ بدلہ میرے لیے نیا تھا۔ یہ سلسلہ عرب ملکوں میں عام ہے۔

ہم سوق الوقف کی ٹیڑھی میڑھی ، تنگ، چھتی ہوئی گلیوں میں آگے سے آگے جا رہے تھے۔ یہاں رنگ برنگی اشیا فروخت ہو رہی تھیں۔ ان میں قطرکے سووینئر، سجاوٹی اشیاء، عربی رُومال، قندورے، مصنوعی زیورات، مقامی وغیر مقامی ملبوسات، قسم قسم کے تحائف، طرح طرح کے نوادرات، نقشین ظروف، قہوے اور چائے کی دلکش پیالیاں، قرآنی طغرے، خواتین کی سجاوٹ کی اشیاء اور ملبوسات، بناوٹی پھول، گھروں کی سجاوٹ کی بے شمار چیزیں موجود تھیں۔ پاکستانی، ہندوستانی، بنگلہ دیشی، فلپائنی، نیپالی دکانوں میں ان کے ملک اور تہذیب و تمدن کی مناسبت سے دلکش اشیائے سجاوٹ و تحائف موجود تھے۔ علاوہ ازیں خشک میوہ جات، اشیائے خورد و نوش، پھل، قسم قسم کی کھجوریں اور ظروف کی دُکانیں اس بازار کا حصہ تھیں۔ چھوٹی چھوٹی دُکانیں اتنی سجی دھجی اور رنگین تھیں کہ رنگ ہی رنگ بکھرے نظر آتے تھے۔

آگے چل کر ہم نے جیتے جاگتے،بولتے اور چہکتے ہوئے رنگوں کی دُنیا دیکھی۔ یہ انواع و اقسام کی رنگین چڑیاں تھیں۔ سیکڑوں، ہزاروں چڑیاں پنجروں میں بند اس طرح چہک رہی تھیں کہ طیور سے بھرے جنگل کا گمان ہوتا تھا۔ ان پنجروں میں نیلا، سبز، جامنی، سفید، خاکستری، نقرئی، سیاہ، بھورا، نارنجی، سرخ، پیلا، سنہرا ہر رنگ نظر آتا تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ قدرت نے اپنی اس ننھی اور نازک مخلوق کے ذریعے کارخانہِ قدرت کے تمام رنگ فضاؤں میں بکھیر دیے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ حضرت انسان نے فضاؤں میں بکھریکی میٹھی چہکار نغمہِ قفس بن کر رہ گئی ہے۔

اگلی دُکانوں میں بے شمار اقسام اور رنگوں کے طوطے تھے۔ جو دُنیا کے مختلف خطوں سے لائے گئے تھے۔ مختلف شکلوں کے نیلے، سبز، جامنی،سرخ اورزرد رنگکے یہ طوطے پنجروں میں بند گلی میں گزرنے والے افراد کو حسرت ویاس سے دیکھتے تھے۔ کئی طوطے ہیلو، مرحبا، سلام اور دیگر الفاظ بولتے تھے۔ طوطوں کی کئی دُکانیں’سوق الوقف کا حصہ ہیں۔چند دُکانیں کچھوؤں کی بھی تھیں جہاں چھوٹے چھوٹے سیکڑوں کچھوے رِینگ رہے تھے۔ ایک دکان میں باز اور عقاب بھی تھے۔ گول گول آنکھوں، مضبوط پنجوں اور خاکستری رنگت کے یہ عقاب لوگوں کی توجہ کا مرکز تھے۔ کئی قطری اور دیگر لوگ کھڑے ان کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ دو گاہک دکان دار سے ایک باز کا سودا کر رہے تھے۔

ایک پاکستانی دُکان میں پاکستان کی خصوصی مصنوعات جیسے رنگ برنگے ازاربند، موتیوں سے سجے پراندے، رنگین چوڑیاں، خواتین کے میک اپ کی اشیا، تبت کریم، ٹالکم پوڈر، نسوار، تمباکو، حقہ، رُوح افزا، ہاتھ سے بنی سویاں، سوہن حلوہ، پاکستان کے معروف مقامات کے دھاتی مجسمے، تصاویر، بچوں اور خواتین کے ملبوسات، پشاری چپل اور دیگر بے شمار پاکستانی مصنوعات برائے فروخت تھیں۔ دُکان دار کا تعلق خیبر پختون خواہ سے تھا اور گوہر کا واقف کار تھا۔ اس نے فوراً چائے منگوا لی اور ساتھ پاکستان کے بنے بسکٹ پیش کیے۔

پاکستان کے بسکٹ تو لذیذ تھے ہی مگر چائے گرم، خوشبودار اور مزے دار تھی۔ لیکن چھوٹی سی پیالی میں اور صرف چند گھونٹ تھی۔ دکان دار شام کے کھانے کی دعوت دے رہا تھا۔ میں نے شکریہ کے ساتھ معذرت کر لی کیونکہ آج شام کچھ ادبی احباب سے ملاقات طے تھی۔ سُوق الوقف بہت بڑا، دلچسپ اور رنگینیوں سے عبارت بازار ہے۔ ہم نے کئی گھنٹے یہاں گزار دیے پھر بھی دل نہیں بھرا ۔ مگر کئی گھنٹے چلنے اور کھڑے رہنے کے بعد میں تھک چکا تھا۔ اس لیے گوہر چمکنی سے کہا۔ ’’کہیں چل کر بیٹھتے ہیں اور اگر ایسی چائے کی ایک ایک پیالی اور مل جائے تو کیا بات ہے۔‘‘

وہ چھوٹا سا چائے خانہ پاس ہی تھا جہاں سے ہمارے پٹھان دوست نے چائے منگوائی تھی۔ اس کے اندر بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی۔ گوہر نے چائے کا آرڈر دیا اور مجھے لے کر باہر ایک وسیع احاطے میں آگیا۔ اس صاف ستھرے پختہ صحن میں جگہ جگہ بنچ رکھے تھے۔ جہاں سیاح بیٹھے سستا رہے تھے۔ان میں یورپین مرد و زن کا ایک گروپ تھا۔ صحن میں انسانوں کے ساتھ ساتھ درجنوں کبوتر بھی موجود تھے۔ لوگ انہیں دانہ ڈالتے تو وہ دانہ ڈالنے والے شخص کے سر اور کاندھوں پر آبیٹھتے۔ٹریفالگر اسکوائر لندن کی طرح یہ کبوتر انسانوں سے گھلے ملے تھے۔تھوڑی دیر میں چائے خانہ کا ملازم جو ٹی شرٹ اور لنگی میں ملبوس تھا چائے کی چینک، دو پیالیاں اور ساتھ دودھ اور انڈے کی آمیزش کے ساتھ فرائی کے گئے فرنچ ٹوسٹ لے آیا۔ گوہر نے بتایا۔ ’’اس دُکان کی چائے اور ٹوسٹ پورے دوحہ میں مشہور ہے‘‘
دن بھر کی گرمی اور تھکاوٹ کے بعدسہ پہر کے ان خوشگوار لمحات میں اور اس دلکش سیاحتی مقام پر چائے جب پیالی میں اُنڈیلی تو اس کی بھاپ اور خوشبو سارے صحن میں پھیل گئی۔ ہمارے ارد گرد بیٹھے یورپی سیاح یہ خوشبو سونگھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں ستائش و طلب تھی۔ چائے کا ایک ایک جرعہ جسم و روح کو فرحت پہنچا رہا تھا۔ گرم اور شیریں سیال دہن سے حلق میں اُترتا اور ایک انوکھے ذائقے سے آشنا کرتا جاتا تھا۔ ایک ایک گھونٹ سے حرارت، خوشبو اور توانائی کی لہر سی جسم و جاں میں اُٹھتی محسوس ہوتی۔ چائے، چینی اور دودھ کی فن کارانہ آمیزش سے فرحت، ذائقے اور خوشبو کی نئی جہت وجود میں آئی تھی۔ جس فنکار نے ذائقوں کی دنیا میں یہ نئی تخلیق کی تھی اس کا ہاتھ چومنے کو جی چاہتا تھا۔ اس خوشبودار لذیذ چائے کے ساتھ ساتھ فرنچ ٹوسٹ بھی مظہرِ کمال تھی۔ دُودھ، چینی اور انڈے کی آمیزش کی ہلکی تہہ بریڈ پر اس مہارت سے جمائی گئی کہ خستگی اور ذائقے کی انوکھی قسم وجود میں آ گئی۔یوں سوق الوقف میں ایک چھوٹے سے چائے خانہ کے مالک نے اپنے کمالِ
فن کا ایسا جادو جگایا کہ ایک نئے اور منفرد ذائقے سے روشناس کرایا۔ اس کی بنائی چائے اور ٹوسٹ نے قطر کی پہلی شام میں رنگ بھر دیے تھے۔ آج کئی ماہ بعد جب یہ حروف تحریر کر رہا ہوں تو وہ لذت، وہ ذائقہ، وہ فرحت اب بھی محسوس کر رہا ہوں۔

(یہ مضمون طارق مرزا کے نئے سفرنامہ’’ ملکوں ملکوں دیکھا چاند‘‘ سے ماخوذ ہے، جو سنگ میل پبلشر نے شائع کی ہے )

 

Tariq Mehmood
About the Author: Tariq Mehmood Read More Articles by Tariq Mehmood: 38 Articles with 39266 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.