صحرا ہو یا پہاڑ،،، دریا ہو یا جھیل،،، سندھ کا کوئی ثانی نہیں، صوفیاء
کرام کی پُرامن دھرتی قدرت کے کئی انمول خزانوں کو آغوش میں لئے بیٹھی ہے،
صرف یہ ہی نہیں گاوں، دیہات اور وہاں کے باسی بھی الگ پہچان رکھتے ہیں، یہ
ہی اسباب سندھ کو دیگر صوبوں سے جدا کرتے ہیں، جس کی ایک دلیل 1975 کا "رامسر
کنونشن" بھی ہے، جس میں جنگلی حیات سے متعلق سندھ کو فوقیت حاصل ہے، ملک کی
19 آب گاہوں کو "رامسر سائٹس" کا درجہ دیا گیا، جس میں سے 9 سندھ میں واقع
ہیں، ستمبر میں موسم سرما کی انگڑائی کے ساتھ ہی سائبریا سے مہمان پرندوں
کی سندھ میں آمد کا آغاز ہوتا ہے، جو فروری تک جاری رہتا ہے، مہمان پرندے
اپنے قیام کیلئے کینجھر، ہالیجی، ڈرگ جھیل، انڈس ڈیلٹا، انڈس ڈولفن ریزرو،
دیہہ اکڑو، جبو لگون، رن آف کچھ کا انتخاب کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہی روشنیوں
کے شہر کراچی میں مبارک ولیج، ماڑی پور، ہاکس بے اور ابراہیم حیدری کا ساحل
ان پرندوں کا مسکن ہے، دیدہ زیب رنگوں کے پرندوں کی مدہم پرواز سے جہاں
آسمان پر قوس قزاح کا منظر دکھائی دیتا ہے، وہیں ان کی خوبصورت چہچاہٹ
کانوں میں رس گھولتی ہے، مہمان پرندے 3 ہزار میل سے زائد کا سفر کرکے "انڈس
فلائی وے" کے راستے اگست میں پاکستان پہنچتے ہیں، جن میں کونج، نیل ہنس،
مرغابی، چینا بطخ، چیکلا، تلور، ڈگوش، آڑی، آبی باز، نیرگی، آڑی، بگلا،
گیز، ڈارٹرز، اسٹورکس اور دیگر اقسام کے پرندے بھی شامل ہیں تاہم ان
مہماںوں کی آمد کے ساتھ ہی میزبانوں کا روپ دھارے شکاری ان کی جان کے دشمن
بن جاتے ہیں، غیر قانونی شکار اور بیوپار نے مہمان پرندوں کو قدرے مایوس
کیا ہے، جس کے باعث اب کئی اقسام کے پرندوں نے سندھ سے منہ موڑ لیا ہے،
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے چند ذمہ داران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر
بتایا کہ سندھ میں وائلڈ لائف ایکٹ کے نفاذ کے باوجود مہمان پرندوں کا بے
دریغ شکار کیا جارہا ہے، جس میں ادارے میں موجود چند کرپٹ عناصر سہولت کار
کا کردار ادا کررہے ہیں، جو شکاریوں سے گٹھ جوڑ کرکے انہیں مہمان پرندوں کی
زندگیوں سے کہلواڑ کا لائسنس جاری کرتے ہیں، جس کے عوض انہیں نظرانہ دیا
جاتا ہے، ذمہ داران نے بتایا کہ ان عوامل کے باعث پچھلے چند سالوں سے سندھ
میں مہمان پرندوں کی آمد میں خاطر خواہ کمی ریکارڈ کی جارہی ہے، دوسری جانب
محکمہ جنگلی حیات کے کنزرویٹر جاوید مہر نے اس دعوے کی تردید کی اور موقف
اپنایا کہ کسی حد تک شکار کی بات درست ہے تاہم اس میں دیگر کئی عوامل بھی
شامل ہیں، سندھ میں پچھلے کئی سالوں سے بارشیں نہ ہونے سے آب گاہیں خشک
سالی کا شکار رہیں، جو مہمان پرندوں کی آمد میں کمی کا سبب بنیں تاہم گزشتہ
سال 2022ء میں غیر معمولی بارشوں کےبعد خشک آبگاہوں میں صاف پانی میں اضافہ
ہوا، جو خوش آئند ہے، جاوید مہر کے مطابق ستمبر 2020 میں جنگلی حیات کے
تحفظ کا قانون نافذ ہونے کےبعد سے غیرقانونی شکاریوں کے خلاف بھرپور
کارروائیاں کی گئیں، جس کےبعد غیرقانونی شکار میں واضح کمی ہوئی اور مہمان
پرندوں کی آمد میں ریکارڈ اضافہ ہوا، جنگلی حیات سندھ کی تاریخ میں پہلی
بار ضلع تھرپارکر میں ڈپٹی کنزرویٹر میر اعجاز حسین تالپور کی سربراہی میں
محکمہ جنگلی حیات نے جولائی 2022ء میں 7 چنکارا ہرن کے غیر قانونی شکار کے
الزام میں 3 شکاریوں سمیت کیس میں نامزد 5 ملزمان سے 23 لاکھ 20 ہزار
جرمانہ وصول کیا گیا، جاوید مہر کے مطابق جنگلی حیات تحفظ قانون کے تحت
مختلف اضلاع میں وائلڈ لائف پروٹیکشن پولیس اسٹیشن بھی قائم کئے گئے ہیں،
جو جنگلی حیات کی تاریخ میں منفرد حیثیت کے حامل ہیں، کنزرویٹر وائلڈ لائف
نے واضح کیا کہ پرندوں اور جانوروں کا شکار کرنے والے عناصر کسی رعایت کے
مستحق نہیں، قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
|