کانگریس پارٹی کے صدر ملکارجن کھرگے نے راجستھان کے اندر
راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا میں ایک ایسی دھماکہ خیز تقریر کی کہ بی
جے پی اس کی مخالفت کرنے پر مجبور ہوگئی ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میڈیا کو
اسے نشر کرناپڑا اور اس طرح وہ خطاب وائرل ہوگیا ۔ الور کے اندر کھرگے نے
کہا کہ کانگریس کے بہت سارےرہنماوں نے آزادی کی لڑائی میں اپنی جانیں دیں
لیکن بی جے پی والوں کے گھروں سے آزادی کی لڑائی میں ایک کتا بھی نہیں مرا۔
اس بیان میں تو بی جے پی کو کتا نہیں کہا گیا مگر اس نے ازخود اس لقب کو
اپنے اوپر اوڑھ کر ہنگامہ شروع کردیا ۔ فروری2017 میں کھرگے یہی بات ایوان
کے اندر کہہ چکے ہیں ۔ اس کے جواب میں چراغ پا ہوکر وزیر اعظم مودی نے کہا
تھا کہ ’’ اس وقت ہم تھے یا نہیں تھے۔ ہمارے کتے بھی تھے یا نہیں تھے ۔
اوروں کے کتے ہوسکتے ہیں ۔ ہم کتوں والی پرمپرا( روایت) سے پلے بڑھے نہیں
ہیں لیکن ملک کے کروڈہا کروڈ لوگ تھے ‘‘۔ وزیر اعظم کے اس جواب میں چونکہ
چار مرتبہ کتوں کا ذکر ہوا تھا اس لیے اس گفتگو ہونی چاہیے۔
پہلی بات تو یہ ملکارجن کھرگے نے یہ نہیں کہا کہ اس وقت ہندوتوا کے
علمبردار موجود ہی نہیں تھے بلکہ سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کیا کررہے تھے ؟ کس
کے آگے دم ہلا رہے تھے اور کس کے تلوے چاٹ رہے تھے ۔ اپنے مخالف کی زبان
سے کتے کے ذکر پر آگ بگولہ ہونے والے وزیر اعظم نریندر مودی خود اپنے
ذریعہ کتے کے پلےّ کا ذکر بھول گئے ۔ ٹائم میگزین کے نامہ نگار نے جب ان سے
گجرات کے فساد سے متعلق معافی مانگنے پر اصرار کیا تو انہوں نے بھی کہا تھا
کہ اگرنادانستہ طور پر بھی میری گاڑی کے نیچے کوئی کتے کا پلاّ آجائے تو
دکھ ہوتا ہی ہے۔وزیر اعظم بتائیں کہ اس طرح مظلومین کو کتے کا پلاّ کہنا
کون سی پرمپرا ہے؟ یہ بات درست ہے کہ مودی جی کتے نہیں ایسا میڈیا پالتے
ہیں جو اپنے آقا کی وفاداری میں نہ صرف بھونکتا بلکہ وقت ضرورت کاٹتا بھی
ہے۔ یہ معاملہ میڈیا تک محدود نہیں ہے۔ مودی جی نےٹائم میگزین کے نمائندے
کے سامنے جس فساد کو نادانستہ حرکت کہا اسی کو ان کا وزیر داخلہ سبق سکھانا
کہتے ہیں ۔ یہ کتے کی وفاداری نہیں بلکہ لومڑی کی مکاری ہے۔
وزیر اعظم نے اس وقت اپنے خطاب میں1857 کی جنگ آزادی کا ذکر تو کیا تھا
لیکن اس کے قائد بہادر شاہ ظفر کا نام بتانے سے کترا گئے۔ یہ خیانت نہیں تو
کیا ہے؟ الور میں ملکارجن کھرگے نے کہا کہ ہم نے ملک کو آزادی دلائی جبکہ
اندرا اور راجیو گاندھی نے ملک کی یکجہتی کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔
ہماری پارٹی کے لیڈروں نے جانیں دی ہیں آپ نے کیا کیا؟ کیا آپ کے گھر میں
کسی نے ملک کے لیے جان بھی دی ہے؟ کیا کسی نے کوئی قربانی دی ہے؟ آزادی کی
جنگ سے فرار اور بلاواسطہ انگریزوں کے ساتھ ساز باز دراصل سنگھ پریوار کی
دکھتی رگ ہے۔ کھرگے نے جب اس پر ہاتھ رکھا تو وہ لوگ تلملا اٹھے کیونکہ ان
کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ سنگھ نے اگر آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا ہوتا
تو ایک فہرست پیش کردیتے لیکن وہ تو موجود ہی نہیں ہے۔ خود ساختہ ویر ونایک
دامود رساورکر نے ابتداء آزادی کی جنگ کا حصہ تو بنے مگر پھر معافی مانگ
کر انگریزوں کی وفاداری اختیار کرلی ۔ ہندوتوا نوازوں میں سے صرف ایک شخص
ناتھو رام گوڈسے کو پھانسی تو ہوئی مگر گاندھی جی کے قتل کی پاداش میں ۔
ملکارجن کھرگے نے اپنی مذکورہ تقریر میں یہ بھی کہا کہ سرحد پر ہمارے 20
فوجی شہید ہوگئے۔ مودی جی اور چین کے شی جن پنگ کی 18 بار ملاقات ہوئی،
جھولے پر بیٹھے۔ آپ لوگ مل رہے ہیں لیکن اگر ہم آپ سے بات کرنے کو کہتے ہیں
تو آپ بحث کرنے کو تیار نہیں۔ راجناتھ سنگھ نے ایک صفحہ کا بیان دیا اور اس
کے بعد چلے گئے۔ ہم کہہ رہے ہیں کہ ایوان میں بحث کروائیں، ہمیں بھی
بتائیں، ملک کو بھی بتائیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ حکومت کیا کر رہی ہے؟ موجودہ
حکومت کا چین پر بحث سے آنکھیں چرانا اس کی کمزوری ظاہر کرتا ہے۔ ساری
دنیا حکومت حقائق کی پردہ پوشی پرحیرت زدہ ہے۔ ارجنٹینا کی فٹبال میں
کامیابی پر تو وزیر اعظم مبارکباد دیتے ہیں مگر چین پر چپی ّ سادھ لیتے ہیں
۔ ہندوستانیوں کی فٹبال میں دلچسپی ہے اس کا اندازہ اس کھیل کی عالمی درجہ
بندی میں ملک کے 108؍ویں مقام سے لگایا جاسکتا ہے۔ چین کے معاملے وزیر اعظم
نے ایک خوفناک خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ وزیر دفاع تین منٹ بول کر ایوان سے
رفو چکر ہوجاتے ہیں اور باہر آنے کے بعد وزیر داخلہ چنگھاڑتے ہیں ۔ اس
کیفیت پر طنز کرتے ہوئے کھرگے نے کہا کہ باہر تو شیر ببرکی طرح بات کرتے
ہیں لیکن چلتے چوہے کی طرح ہیں یعنی میدانِ عمل میں چوہے بن جاتے ہیں ۔ اس
تبصرے سے بی جے پی والوں کے زخموں پر مزید نمک پاشی ہوگئی لیکن یہ تو ان کے
اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔
کانگریس صدر ملکارجن کھرگے کی الور کے خطاب کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان
ایوان ِ بالا میں لے آئے اور ہنگامہ شروع کرکے معافی مانگنے کا مطالبہ
کرنے لگے ۔کانگریس ارکان نے بھی اس کی مخالف شروع کردی دنیا کے سب سے وسیع
جمہوریت کا ایوان پارلیمان مچھلی بازار بن گیا۔ خوب شور شرابے کے بعد جب
ارکان کے پرسکون ہوئے تو قائد ایوان پیوش گوئل نے کہا کہ مسٹر کھرگے نے
راجستھان کے الورکی ایک تقریر میں انتہائی ناشائستہ زبان کا استعمال کیا
اور بے بنیاد باتیں کہیں۔انہوں نے کہا کہ کانگریس لیڈر نے ایوان اور اہل
وطن کی توہین کی ہے۔ اس لئے انہیں معافی مانگنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ
کانگریس کی وجہ سے جموں و کشمیر کی صورتحال آج ایسی ہے۔ اس کے ساتھ ہی
کانگریس کی حکومت کے دوران ہی چین نے 38000 کلومیٹر ہندوستانی علاقہ پر
قبضہ کرلیا تھا۔ بدقسمتی سے بی جے پی والے اپنے آپ کو ملک کا مالک سمجھتے
ہیں اور اپنی توہین کو قوم کی تضحیک بتاتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔گوئل
یہ بھی بھول گئے کہ ہندوستان کے علاقوں پر چینی قبضے کا ذکرکرنے سے کانگریس
کی نہیں بلکہ ملک کی توہین ہوتی ہے۔
پیوش گوئل کے احمقانہ مطالبے کے جواب میں حزب اختلاف کے رہنما کھرگے نے کہا
کہ پارٹی کی بھارت جوڑو یاترا کے دوران الور میں ان کی تقریر ایوان کے اندر
نہیں بلکہ باہر کی گئی تھی۔ اس لیے پارلیمنٹ کے اندر اس پر معافی کا مطالبہ
نہایت نامعقول ہے۔ اپنے موقف کو دوہراتے ہوئے کھرگے نے ایک اور ایسی بات
کہہ دی جو بی جے پی کے سوہانِ جان بن گئی۔ انہوں نے نہلے پر دہلا چلاتے
ہوئے کہا کہ یہ ایک المیہ ہی ہے کہ تحریک آزادی کے دوران جن لوگوں نے
انگریزوں سے معافی مانگی تھی، وہ آزادی کی جنگ لڑنے والوں سے معافی کا
مطالبہ کررہے ہیں۔ اس جملے میں موجود طنز اوربرجستگی لا جواب ہے۔ کھرگے نے
مزید کہا کہ کانگریس نے ہمیشہ ملک کو متحد کرنے کی بات کی ہے۔ سابق وزرائے
اعظم اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی نے ملک کی خاطر اپنی جانیں دی ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ آپ میں سے کتنے لوگوں نے ملک کی یکجہتی کے لئے جان دی
ہے۔ کانگریس نے ملک کو متحد رکھا ہے؟ کھرگے کا یہ سوال تھوڑا سا غلط ہوگیا
۔ وہ اگر پوچھتے کہ آپ میں سے کتنے لوگوں نے ملک کی یکجہتی کو تباہ و برباد
کیا ہے تو بی جے پی کے لیے ایک لمبی چوڑی فہرست کو پیش کرنا آسان ہوجاتا۔
یہ مشیت کا انصاف ہے کہ ایوانِ بالا میں ملکا رجن کھرگے سے معافی کا مطالبہ
کرنے والے مرکزی وزیر پیوش گوئل نے دو دن بعد ہی بہار سے متعلق ایک ایسا
بیان دے دیا کہ انہیں ساورکر کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے معافی مانگنے کے
لیے مجبور ہونا پڑا۔ اپنے بیان پر ہنگامہ بڑھتا ہوا دیکھ کر گوئل نے ایوان
میں کہا کہ "میں اپنا بیان واپس لیتا ہوں۔ میرا ارادہ کسی کو ٹھیس پہنچانے
کا نہیں تھا۔ "یہ نوبت اس لیے آئی کہ غیر ذمہ دار مرکزی وزیر نے ایوان کے
اندر کہہ دیا تھا کہ 'ان کا بس چلے تو ملک کو بہار ہی بنا دیں'۔ پیوش گوئل
کا یہ کہنا تھا کہ آر جے ڈی اور جنتا دل یو کی طرف سے تلخ رد عمل شروع
ہوگیا۔ ان سے معافی کا مطالبہ کیا گیا جو اپنے منطقی نتیجے پر پہنچا ۔ اس
بیان پر آر جے ڈی نے سخت اعتراض ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ بی جے پی بہار
کو بدنام کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ بہار کے نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے
پیوش گویل کے بیان پر کہا کہ یہ بہار کو بے عزت کرنے والے لوگ ہیں۔ بی جے
پی کے لوگ بہار کوحقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کا تبصرہ بہار کے نفرت
کا اظہار ہے۔ ایوان میں یہ بیان افسوسناک، تکبر سے پُر، تعصب پر مبنی
اوررعونت سے لبریز ہے۔ یہ بی جے پی کے قومیت والے ڈھونگ کی قلعی بھی کھولتا
ہے۔ اس کے لیے مرکزی حکومت اور پیوش گوئل جی پورے بہار سے معافی مانگیں۔
"اس طرح پیوش گوئل نے معافی تلافی کا جو کھیل اپنے مخالفین کو گھیرنے کے
لیے شروع کیا تھا وہ خود اس میں گھِر گئے۔ بالآخر انہیں معافی مانگنے کے
بعد اپنی جان چھڑانی پڑی ۔ ان کی حالت زار پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
الجھا ہے پانوں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
|