افغان طالبان کے افغانستان میں اقتدار میں آ نے اور طویل
عرصے سے پاک۔افغان نازک تعلقات کے باوجود پاکستان نے افغانستان میں ہونے
والی سیاسی تبدیلیوں کا مثبت جواب دیا اور باہمی تعلقات کو آسان بنانے کی
امید ظاہر کی۔ تاہم افغان طالبان کی ”فتح“ نے پاکستان میں کالعدم ”پاکستانی
طالبان“ کو متحرک کردیا اور ان کی دہشت گردی کی سرگرمیاں مزید فعال ہونے کے
باعث سرحدی کشیدگی میں بھی اضافہ ہوا۔ واضح رہے کہ متعدد فوجی آپریشنز کے
سلسلوں نے دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان سے افغانستان کی جانب دھکیل دیا تھا،
جن کی وقفے کے ساتھ شمال مغربی سرحدوں سے جڑے علاقوں میں واپسی کی اطلاعات
بھی سامنے آئی اور عوام نے ریاست سے سخت اقدامات کرنے کے مطالبات کئے۔ 2014
سے پاکستان نے دہشت گرد تنظیموں کا صفایا کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی، جس
کے بعد انتہا پسندوں کی ایک بڑی تعداد افغانستان فرار ہو نے میں کامیاب
ہوئی، جہاں اب ان کے کئی مضبوط ٹھکانے ہیں۔ چونکہ انتہا پسند ملکی حدود سے
باہر ہیں، اس لیے پاکستانی فوج اسے ختم نہیں کر سکتی اور صرف امارات
اسلامیہ سے کہہ سکتی ہے کہ وہ اپنے وعدے پر قائم رہے اور اپنی سرزمین سے
دیگر دہشت گرد گروپوں کی کاروائیوں کو کنٹرول کرے کیونکہ کالعدم تنظیموں کی
سر گرمیوں نے بھتا خوری کو بڑھا دیا ہے اور پر تشدد واقعات میں اضافہ
دیکھنے میں آرہا ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (PICSS) کے جاری
کردہ اعداد شمار کے مطابق سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران پاکستان میں دہشت
گردی کے 297 واقعات ہوئے جن میں 437 افراد مارے گئے جن میں 194 سیکیورٹی
فورسز کے اہلکار،191 عام شہری اور 706 افراد زخمی ہوئے جن میں 210 سیکیورٹی
فورسز کے اہلکار اور 493 عام شہری شامل تھے، جب کہ 2021 میں پاکستان میں
207 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 300 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جن میں سے
80 سے زائد حملے افغانستان سے کیے گئے۔ افغانستان میں اہم دہشت گرد تنظیموں
میں القاعدہ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (IMU)، ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ
(ETIM)، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور اسلامک اسٹیٹ ان خراسان
(IS-K) شامل ہیں۔ اب تک، افغان طالبان نے صرف IS-K کے خلاف کاروائی کی جب
کہ دیگر عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی نہ کرنے سے عالمی بردار ی میں تشویش
پائی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر)
کا کے مطابق افغان طالبان کے قبضے کے بعد سے 3لاکھ سے زیادہ افغانی فرار ہو
کر پاکستان آ چکے ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے پاکستان پر دہشت گردوں
کے حملوں کا پاکستانی معیشت پر بہت بڑا اثر پڑ رہا ہے ترجمان امریکی محکمہ
خارجہ نیڈ پرائس نے اپنے ایک بیان کہا کہ دہشت گرد پاکستان پر حملوں کیلئے
افغان سر زمین استعمال کر سکتے ہیں، نیڈ پرائس کا مزید کہنا تھا کہ کالعدم
ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد منظم ہو رہے ہیں، خدشہ ہے افغانستان پھر سے
عالمی دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہ بن جائے، پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ
میں اہم شراکت دار ہے، پاکستان کے ساتھ دفاعی شعبے میں تعاون جاری ہے دہشت
گردی سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کریں گے، ایسے تمام
اقدامات کریں گے جس سے ہمارے مفادات متاثر نہ ہوں۔
برسوں سے پاکستان افغانستان سر زمین میں محفوظ کمین گاہوں میں چھپے دہشت
گردوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اور یہاں تک کہ دہشت گرد
تنظیموں کے ساتھ مبینہ ”مفاہمت“ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے نتائج حسب
توقع نہیں نکلے بلکہ اس کا الٹا اثر ہوا اور دہشت گرد منظم ہوئے اور مزید
طاقت حاصل کرکے ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے لگے اور ان کے حملوں میں خطرناک حد
تک اضافہ ہو گیا جس کے بعد سے سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے،
دہشت گرد تنظیموں کی تشکیل پیچیدہ ہے، کسی حتمی اور محفوظ معاہدے تک پہنچنا
مشکل ہے، اور پاکستان میں دہشت گرد قوتوں کو روکنا، اس لئے بھی مشکل ہو رہا
ہے کیونکہ پڑوسی ممالک ایسے عناصر کے خلاف موثر کاروائی نہیں کرتے، بالخصوص
افغانستان کے ہمراہ امریکہ کے خلاف مسلح اتحادی ہونے کی وجہ سے امارات
اسلامیہ ان پر سختی کرنے سے گریزاں ہے اور ان واقعات اور انتہا پسندوں کے
ساتھ معاملات کو پاکستان کا داخلی معاملہ قرار دیتے ہیں۔
افغان پالیسیاں اندرون ملک اسلام پسند بنیاد پرستی کو ہوا دیتی اور ریاست
کی عمل داری کو چیلنج کرتی رہیں گی۔ پاکستان اس وقت تک افغانستان کے ساتھ
دیر پا امن قائم نہیں کر سکتا، جب تک انتہا پسند عناصر کے خلاف افغان
طالبان تعاون نہ کرے، بصورت دیگر انتہا پسند اور کالعدم تنظیمیں افغانستان
اور پاکستان میں پر تشدد واقعات کو آگے بڑھاتے رہیں گے۔ ممکنہ طور پر ایک
ایسا وقت آسکتا ہے، جب یہی عناصر خود افغان طالبان کے لئے خطرہ بن جائیں
گے۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ مفادات کے حصول کے لئے انتہا پسند
تنظیمیں اور جماعتیں عالمی دہشت گرد قرار پانی والی گروہوں کے ساتھ ملے او
انہوں نے پر تشدد واقعات میں بڑے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ لہٰذا،
افغانستان کی دو باہمی متصادم شناختوں کی ایک وسیع ری اسٹرکچرنگ اور افغان
طالبان کو ایک نظر ثانی پسند ریاست اور ایک جمود والے ملک کہلانے کے بجائے
دنیا کے ساتھ مل کر چلنا ہوگا، ایک قدامت پسند اور بنیاد پرست مملکت کی
شناخت کے بجائے مزید بحرانوں کو روکنے کے لیے عوام کے مفاد میں پالیسیوں کو
تبدیلی کرنے کی ضرورت زیادہ ہے۔ خطے کی عوام مزید کسی نئی خانہ جنگی یا جنگ
کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
داعش (خراسان) اس وقت بہت بڑے خطرے کی صورت میں افغان طالبان کے سامنے
موجود ہے، اطلاعات کے مطابق داعش (خراسان) میں بھرتی ہونے والوں میں سابق
افغان سیکورٹی فورسز کے اہلکار وں کے ساتھ نسلی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر
پڑوسی ممالک سے بھی انتہا پسند شامل ہو رہے ہیں۔ جن کا ایجنڈا افغان طالبان
کی قوت کو کمزور کرتے ہوئے ختم کرنا، پاکستان سمیت ان تمام پڑوسی ممالک سے
تعلقات خراب کرانا بھی ہے جنہوں نے امن کے قیام کے لئے بین الافغان
مذاکرات، روسی فارمیٹ اور دوحہ معاہدے کے لئے تعاون و سہولت کاری کی تھی۔
داعشی فتنے کو روکنے کے لئے عراق اور شام کے طرز عالمی قوتیں ایک بار پھر
زمین پر آئے بغیر کاروائیاں کر سکتی ہے، جس سے افغانستان میں ہونے والے
حملوں کو روکنے کی صلاحیت نہ ہونے سے افغان طالبان کی حکومت کے نظام و
انصرام پر گرفت کمزور ہوسکتی ہے۔ جس کا فائدہ وہ قوتیں اٹھائیں گی جو اس
وقت کمزور ہونے کی وجہ سے خاموش ہیں اور افغان طالبان میں دھڑے بازی اور
کمزوری کے منتظر ہیں۔
|