صدیق کپن چھوٹ گئے، یوگی سرکار پکڑی گئی

صدیق کپن کی ضمانت کا مژدہ سن کر انگریزی کےوہ محاورہ یاد آگیا جس کا مفہوم ہے ’سب ٹھیک جب خاتمہ ٹھیک‘۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اس سال کے اپنے آخری فیصلے میں ضمانت دینے کااعلان کیا ۔ یوگی یُگ میں عدالت سے اس جرأت رندانہ کی توقع نہیں تھی کہ وہ منی لانڈرنگ کیس میں کیرالہ کے صحافی صدیق کپن کی رہائی کا راستہ صاف کردے گی ۔ لکھنؤ کی ضلع جیل میں بند کپن کو جسٹس دنیش کمار سنگھ نےغیر مشروط ضمانت دے کر ہمت کا مظاہرہ کیا۔ یہ فیصلہ چونکہ آخری کام کے دن سنایا گیا اس لیے رسمی کاغذی کارروائی 2 ؍جنوری کے بعد عدالت کے دوبارہ کھلنے پر ہو سکے گی اور 26 ماہ سے زائدکا طویل قید و بند کا ظالمانہ سلسلہ اختتام کو پہنچے گا۔ صدیق کپن کوئی بدعنوان سیاستداں نہیں بلکہ ملیالم نیوز پورٹل ‘اجی مکھم’ کے نمائندے اور کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کی دہلی یونٹ کے سکریٹری ہیں ۔ 5؍ اکتوبر 2020 کو انہیں ہاتھرس کی 19 سالہ دلت لڑکی کے ریپ اور موت کی خبررسانی کے لیے جاتے ہوے امن و امان کو خراب کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

یوگی راج میں ہاتھرس کے اندر 14؍ ستمبر 2020 کو ایک دلت لڑکی کی چار راجپوت بدمعاشوں نے آبرو ریزی کی۔ ناری بچاو ناری پڑھاو کا نعرہ لگانے والی سرکار کے انتظامیہ نے مظلوم کی مدد کرنے کے بجائے معاملے کو رفع دفع کرکے ظالموں کو بچانے کی بھرپور کوشش کی ۔ دہلی کےسرکاری اسپتال میں اس بے قصور بچی نے دم توڑ دیا تو اسے ہاتھرس لے جاکر راتوں رات اہل خانہ کی غیر موجودگی میں مٹی کا تیل ڈال کر نذرِ آتش کردیا گیا۔ سرکار کی سفاکی پر ساری دنیا میں خوب بدنامی ہوئی ۔ اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر پالتو میڈیا کو صدیق کپن کا جھنجھنا پکڑا دیا گیا تاکہ میڈیا اس بچی کو بھول کر صدیق کپن سے متعلق نت نئے جھوٹ پھیلانے میں مصروف ہوجائے ۔ صدیق کپن کی گرفتاری کے دو دن بعد یوپی پولیس نے ان کے خلاف ذات پات کی بنیاد پر فساد بھڑکانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑنے کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔

اتر پردیش حکومت جانتی تھی کہ ان بے بنیاد الزامات کا اس کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے ۔ عدالت سرکار کو پھٹکار لگاکر انہیں رہا کردے گی اس لیے کپن پر بغاوت اور یو اے پی اے کے تحت بھی مقدمات درج کیے گئے تاکہ گرفتاری کو طول دیا جاسکے ۔ اس مقصدمیں سرکار کو جزوی کامیابی ملی مگر امسال9؍ ستمبر کو سپریم کورٹ نے ان سنگین بے بنیاد الزامات میں بھی ضمانت دے دی۔ تاہم منی لانڈرنگ کیس کی وجہ سے انہیں رہا ئی نصیب نہیں ہوئی ۔ یہ موجودہ پیچیدہ نظام عدل کا المیہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ میں عظیم کامیابی حاصل کرنے کے باوجود صدیق کپن رہا نہیں ہوسکے۔ منی لانڈرنگ کا معاملہ 31؍ اکتوبر کو لکھنؤ کی ایک مقامی عدالت میں پیش ہوا مگر وہ سرکار ی چشم ابرو کے خلاف فیصلہ کر نے کی ہمت نہیں جٹا سکی اور ضمانت کی عرضی خارج کر دی گئی ۔صدیق کپن کی گرفتاری کے پانچ ماہ بعد فروری 2021 میں ای ڈی نے ان کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا تھا۔
سرکار کے اشاروں پر کٹھ پتلی کی مانند ناچنے والی بدنامِ زمانہ مرکزی ایجنسی نے کپن، رحمٰن، احمد اور عالم پر فسادات بھڑکانے کے لیے کالعدم تنظیم پی ایف آئی سےپیسہ لینے کا الزام لگایا تھا کیونکہ رحمٰن مذکورہ تنظیم کے طلبہ ونگ کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے قومی خازن اور اس کی دہلی یونٹ کے جنرل سکریٹری ہیں۔ یہ حقیقت قابلِ توجہ ہے جس وقت یہ گرفتاری عمل میں آئی پی ایف آئی پر پابندی نہیں تھی اس لیے اس کا رکن ہونا کوئی جرم نہیں تھا ۔ ای ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے قومی جنرل سکریٹری شریف نے ہاتھرس کے سفر کے لیے فنڈز فراہم کیے تھے۔ہاتھرس امریکہ میں نہیں ہے کہ وہاں جانے کے لیے کسی ایجنسی کے ذریعہ فنڈ کی فراہمی درکار ہو ۔ اپنی نام نہاد تحقیقات کے دوران ای ڈی نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ ہاتھرس کیس کے بعد ماحول خراب کرنے کے لیے پی ایف آئی کے اراکین کو 1.38 کروڑ روپے دیئے گئے تھے۔ یہ رقم کس نے اور کب دی اس کی تفصیل میڈیا میں نہیں آئی۔ یہ بچکانہ الزام بھی لگایا گیا کہ کپن نے پی ایف آئی ممبران کے کالے دھن کو سفید کرنے میں مدد کی تھی۔

وطن عزیز میں ای ڈی کس کے لیے اور کیسے کام کرتی ہے اس پر پی ایم ایل اے عدالت کا سنجے راوت کے ضمانت کا فیصلہ دیکھ لیا جائے تو صدیق کپن کو ملوث کرنے کی سازش کا اندازہ لگانا آسان ہوجاتا ہے۔ سنجے راوت کو ضمانت دیتے وقت جج دیشپانڈےنے نہایت واضح انداز میں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیاتھا۔ ان کے خیال میں یہ مخالفین کو پریشان کرنے کی مذموم کوشش تھی ۔ سنجے راوت سے زیادہ یہ تبصرہ صدیق کپن پر صادق آتا ہے۔ ممبئی کی خصوصی پی ایم ایل اے عدالت نےمنی لانڈرنگ کے معاملے میں تحقیق کے طریقۂ کار پر کہا تھا کہ اس نے اقتصادی گھپلے بازی کا اعتراف کرنے والے ایچ ڈی آئی ایل کے پروموٹرس راکیش اور سارنگ وادھوان سے جیل میں موجود ہونے کے باوجود تفتیش کی زحمت نہیں کی اورمہاڈا کے افسران کو بھی نظر انداز کرکے صرف سنجے راوت کو گرفتار کیا ۔ اس معاملے میں شکایت کنندہ سپنا پاٹکر سے بیجا الزام تراشی کے باوجود پوچھ تاچھ کی زحمت نہیں کی گئی۔مذکورہ فیصلے کے مطابق ایجنسی سنجے راؤت کی گرفتاری کا ایک بھی جواز نہیں پیش کرسکی ۔

مودی یُگ میں ایک ہندوتوا نواز رکن پارلیمان کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کرنے والی ایجنسی کےذریعہ صدیق کپن جیسے بیباک صحافی کو مظالم کا نشانہ توقع کے مطابق ہے؟ صدیق کپن جیسے صحافیوں پر بدعنوانی کا بے بنیاد الزام لگاکر حق گوئی پر قدغن لگانے کی کوشش کرنے والی یوپی حکومت بہت بڑی بدعنوانی میں ملوث ہوجانا مشیت کی پھٹکار ہے۔ اتر پردیش حکومت کا تازہ کرتوت فی الحال ذرائع ابلاغ کی زینت بنا ہوا ہے۔ ابھی حال میں 18؍ دسمبر کو یوگی سرکار نے امریکہ کی آسٹن یونیورسٹی کے ساتھ ایک معاہدے(ایم او یو) پر دستخط کرنے کا اعلان کیا۔ یہ معاہدہ وزیر خزانہ سریش کھنہ، سابق وزیر سدھارتھ ناتھ سنگھ، انفراسٹرکچر اور صنعتی ترقی کے ایڈیشنل چیف سکریٹری اروند کمار کی موجودگی میں ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت 42 بلین ڈالر (تقریباً 35000 کروڑ روپے) کی لاگت سے 5000 ایکڑ اراضی پر ایک ‘سمارٹ سٹی آف نالج’ بنانے کا فریب دیا گیا لیکن بہت جلد یہ غبارہ پھوٹ گیا۔

اتر پردیش کی حکومت نے جس یونیورسٹی کے ساتھ اشتراک کیا اس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے کو امریکہ کی کیلی فورنیا ریاست نے اسےغیر تسلیم شدہ اداروں کی فہرست میں شامل کرچکی ہے۔ نومبر 2022 میں اس کا سرٹیفکیٹ رد کیا جاچکا ہےکیونکہ ایک معائنہ کے دوران پتہ چلا کہ یونیورسٹی کی عمارت خالی پڑی تھی۔ یونیورسٹی آف ٹیکساس امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کا ایک باوقار ادارہ ہے، جہاں ہندوستان سمیت تمام ممالک کے ہزاروں بین الاقوامی طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن یوپی حکومت نے جس یونیورسٹی کے ساتھ ایم او یو پر دستخط کیے وہ ایک الگ ادارہ ہے، جو ملتا جلتا نام رکھ کر عوام کو فریب دیتا ہے۔ تسلیم شدہ یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی فہرست میں غیر موجود آسٹن یونیورسٹی میں کوئی طالبعلم، اساتذہ یا تنخواہ دار ملازم نہیں ہے۔ اس کی ویب سائٹ پر جو پتہ دیا گیا ہے وہ درجن دیگر کمپنیوں کا ایڈریس ہے۔اسےاسٹوڈنٹ اینڈ ایکسچینج وزیٹر پروگرام میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ویزا جاری کروانے کی مجاز ہے، اس لیے یہ ادارہ ایف–1 یا ایم –1 ویزا پرآنے والےغیر ملکی طلبہ کو قبول نہیں کرسکتا۔ یہ انسٹی ٹیوٹ نہ تو کوئی ویزا سروس فراہم کراسکتا ہے اور نہ طلبا سے کوئی عہد کرسکتا ہے۔

اترپردیش کی حکومت نے ایک فریبی ادارے کے ساتھ اشتراک کرکے اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا جو منصوبہ بنایا وہ راز قبل ازوقت فاش ہوگیا ۔ اس جعلی ادارے کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہیں جتنی سرمایہ کاری یوپی سرکار اس میں کرنا چاہتی تھی ۔اب یہ لیپا پوتی ہورہی ہے کہ ایم او یو آسٹن یونیورسٹی کے ساتھ نہیں ‘آسٹن کنسلٹنگ گروپ’ کے ساتھ کیا گیا ہے اور ایسے میں یونیورسٹی کے وسائل کی چھان بین ضروری نہیں ہے۔ اس بدعنوانی پر اکھلیش یادو نے الزام لگایا کہ ایک جعلی ادارے سے معاہدہ کرنے کی خاطر یوپی میں سرمایہ کاری کے بہانےیوگی کے وزیروں نے عوام کے پیسے پر بیرون ملک کا سفر کیا اور عیش کی۔ اس کے بعد ایک فرضی معاہدہ کر کے جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا ۔
 
کانگریس نے کہا ’گول مال ہے بھائی سب گول مال ہے! بابااور صاحب کےوزیر ہوں یا افسر، ان کی گھپلے باز ی کے لیے انڈیا اور امریکہ برابر ہے۔ سرکاری خرچ پر امریکہ گھوم آئے اور اپنی کارستانی بھی دکھا دی۔اس بدعنوانی سے پلہ جھاڑتے ہوئےمرکزی وزارت خارجہ نے یوگی سرکار کو ذمہ دار ٹھہرا دیا ۔ یہ قدرت کا انصاف ہے کہ صدیق کپن جیسے بے قصور کو جیل میں ڈالنے والے خود پینتیس ہزار کروڈ کے گھپلے میں پھنس گئے۔ کاش کا ای ڈی اس بدعنوانی میں ملوث لوگوں کو گرفتار کرکے ان کی تحقیق کرتی لیکن اس کے لیے اقتدار کی تبدیلی کا انتظار کرنا ہوگا ۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450640 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.