کام کرو بھائی ورنہ شہباز شریف آجائے گا

شہباز شریف ایک عوامی آدمی ہیں اور عوام میں رہنا ، گھلنا ملنا اور عوام میں جانا پسند کرتے ہیں ۔ شہباز شریف وزیراعظم بن چکے ہیں ۔ اور اس کے باوجود وہ سڑک پر عوام کے درمیان میں جانے سے نہیں کترارہے ۔ دراصل شہباز شریف کی حقیقی طاقت ہی اُن کے کام اور عوام ہیں ۔ مخالفین اُن کی اس عادت کو شوبازی کہتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ شہباز شریف کی عوام میں بھاگ بھاگ کر جانے کی عادت سے جلتے بھی ہوں یا نفرت کرتے ہوں۔

پاکستانی سیاست اور پارلیمانی نظام میں صدر مملکت ، سینٹ کے چیئرمین اور سینٹرز کو نکال کر تقریباً سبھی عہدے عوامی اور کامی ہیں۔ لہٰذا صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ہوں یا قومی اسمبلی کے رکن ، صوبائی وزراء ہوں یا وفاقی وزراء ، صوبائی گورنرز ہوں یا وزراء اعلیٰ سبھی عوام سے منسلک ہیں ۔ وزیراعظم پاکستان کا رتبہ ، مقام اور عہدہ ان سب منصبوں سے اوپر ہے ۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے عہدے پر فائز شخص عوام سے دور رہ کر اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے اور کچھ نہ کرنے پر وزیراعظم ہاؤس کے عقبی دروازے سے چپ چاپ واپس لوٹ جائے ۔ وزیراعظم کا یہ منصب اور کرسی کانٹوں کی کرسی ہے ۔ جتنی بڑی کرسی ، اتنی بڑی آزمائش ، اتنی بڑی ذمہ داری اور اتنی بڑی جوابدہی ۔

گزشتہ دنوں معروف صحافی طلعت حسین صاحب نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ شہباز شریف صاحب کو اب میئر کی طرح نہیں بلکہ وزیراعظم کی طرح سوچنا ہو گا ۔ میں طلعت حسین صاحب سے ففٹی پرسنٹ متفق ہوں ۔ میرا خیال ہے کہ یہ زیادہ مناسب ہوگا کہ شہباز شریف وزیراعظم کی طرح سوچیں اور میئر کی طرح کام کریں ۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری پاکستانی قوم میں چند فیصد ایسے لوگ بھی ہیں جو ڈر کر کام کرتے ہیں ۔ چند فیصد ایسے درویش بھی ہیں کہ جن کے سروں پر کام پڑتا ہے تو وہ کام کرتے ہیں ۔ چند فیصد ایسے لوگ بھی ہیں جو رشوت لے کر کام کرتے ہیں اور غالباً پچاس فیصد سے زیادہ لوگ ایسے بھی ہیں جو شوقیہ فنکار ہیں اور وہ دفاتر میں فارغ بیٹھ کر اپنا اور قوم کا وقت ضائع کرکے واپس گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اورمہینوں کے اختتام پر بھاری تنخواہیں جیبوں میں ڈال لیتے ہیں ۔ لہٰذا اس مکس ہانڈی کو کوئی اناڑی باورچی نہیں پکا سکتا ۔ پاکستان کے اِن محکموں اور اداروں کو چلانے کیلئے یہ ڈر بہر حال موجود رہنا چاہیے کہ کام کرو بھائی ورنہ شہباز شریف آجائے گا ۔

انڈین معروف فلم شعلے میں لوگ ڈاکو گبر سنگھ سے ڈرتے تھے ۔ پاکستان کے سرکاری محکموں میں ویلے اور مشٹنڈے قسم کے سرکاری آفیسر شہباز شریف سے ڈرتے ہیں ۔ یہ ڈر اور خوف قائم بھی رہنا چاہیے ۔ غفلت اور کوتاہی پر سرکاری آفیسروں کو معطل کر نے کا جو ریکارڈ شہباز شریف نے بنایا ہے وہ ابھی تک کوئی نہیں توڑ سکا۔

شہباز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پی کے ایل آئی جیسے ہسپتالوں میں جا کر انتظامیہ سے پوچھتا ہے کہ 20اپریشن تھیٹرز میں سے 14اپریشن تھیٹرز خراب یا بند کیوں پڑے ہیں ۔شہباز شریف کو تکلیف یہ ہے کہ وہ جیلوں میں جا کر قیدیوں سے پوچھتا ہے کہ اُنہیں جیلوں میں مناسب سہولیات دستیاب ہیں یا نہیں ۔ شہباز شریف کو یہ بات بھی ازیت دیتی ہے کہ رمضان بازاروں میں اشیا ء کے نرخ زیادہ کیوں ہیں ۔ شہباز شریف کو یہ بات بھی چبھتی ہے کہ نوجوانوں کو فراہم کی جانے والی معیاری تعلیم میں کسی صورت کمی نہ آنے پائے ۔

دوسری جانب شہباز شریف کے مخالفین کو یہی بات ناپسند ہے کہ شہباز شریف کو کونسی چیز چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ۔ شہباز شریف کے مخالفین کو یہی بات سخت ناپسند ہے کہ شہباز شریف وزیراعظم ہاؤس سے باہر ہی کیوں نکلتا ہے ۔ وہ غریبوں کے مفت علاج میں غفلت پر برہم کیوں ہوتا ہے ۔ وہ ہسپتالوں کے آلات خراب ہونے پر وضاحت کیوں طلب کرتا ہے ۔ شہباز شریف نے پاکستان کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلوائی تھی ۔ حالیہ لوڈ شیڈنگ پر بھی شہباز شریف سخت نالاں ہیں ۔ اور وہ کہہ چکے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے تک چین سے بیٹھوں گا نہ بیٹھنے دوں گا۔

بس یہی مسئلہ ہے شہباز شریف کا !محکموں کی غفلت اُسے منظور نہیں ۔ اداروں کی کوتاہی اُسے قبول نہیں ۔ شعبوں کی لاپرواہی پر بریفنگ مانگتا ہے ۔ اس بریفنگ پر کوئی اگر آئیں بائیں شائیں کرے تو شہباز شریف مطمئن نہیں ہوتا۔ پاکستان کے شہریوں کی خدمات میں فرائض کی کوتاہی اور غفلت پر شہباز شریف کو اطمینان دلانا یا جھوٹی تسلیاں دینا ممکن نہیں ۔ کام ہوگا تو فوراً ہنگامی بنیادوں پر آج اور ابھی ۔ کل کا لفظ شہباز شریف کی ڈکشنری میں نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کو اُس کی کارکردگی پر ہارنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔

1988میں سیاست میں قدم رکھنے والا شہبازشریف پاکستان میں ایک محنتی ، ثابت قدم ، جفاکش ، پرجوش ، حوصلہ مند اور پھرتیلے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر مشہور ہے ۔ اُس کے کام کا انداز سب سے منفرد اور غالباً دلچسپ بھی ہے ۔ شہباز شریف صاحب کو اگر غریب پرور شخصیت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ شہباز شریف 1988سے 2013تک تین بار وزیراعلیٰ پنجاب رہے اور اب وہ پاکستان کے 23ویں وزیراعظم کے طور پر منتخب ہوئے ہیں ۔ 2013کے الیکشن میں بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد شہباز شریف کی خواہش تھی کہ وہ وزیراعظم بن کر پاکستان کے عوام کی خدمت کریں، لیکن تب بھی پنجاب میں ترقی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے انہیں پنجاب ہی میں رکھا گیا۔

2018کے الیکشن کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو پنجاب جیسا بڑا صوبہ جہاں شہباز شریف نے گڈ گورننس کی اعلیٰ مثال قائم کی تھی۔ عثمان بزدار کو تھالی میں رکھ کر دے دیا گیا۔ جس کے بعد پنجاب میں انتظامی بد حالیوں کو سب نے دیکھا اور ششدر بھی ہوئے ۔ آج شہباز شریف وزیراعظم پاکستان بن کر ایک بار پھر اقتدار میں آئے ہیں ۔ یہ اقتدار مختصر سی مدت پر مشتمل ہے ۔ لیکن اس مختصر مدت کے اقتدار میں بھی شہباز شریف وزیراعظم ہاؤس میں کم اور عوام کے درمیان زیادہ دکھائی دیں گے۔ لاہور جیسے دورے کے بعد شہباز شریف کو چاہیے کہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی اپنے طوفانی دوروں کا سلسلہ جاری رکھے اور یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ شہباز شریف مختلف محکموں ، شعبوں ، اداروں ، ہسپتالوں ، جیلوں ، بازاروں کا دورہ بغیر اطلاع کے کریں تا کہ سب محکموں کی کارگردگی کی درست تصویر کا اندازہ ہو سکے۔ جب کسی ایک شعبے یا محکمے کے نااہل افسران پکڑے جائیں گے تو دوسرے شعبوں اور محکموں کے افسران خود سبق لیں گے اور یقینا ً یہ کہتے ہوئے بھی دکھائی دیں گے۔
کام کرو بھائی ورنہ شہباز شریف آجائے گا۔

 

Ahmed Naveed
About the Author: Ahmed Naveed Read More Articles by Ahmed Naveed: 47 Articles with 18233 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.