2022:نفرت سے محبت کی جانب سیاسی پیش رفت

2022کے اہم ترین سیاسی واقعات میں سے ایک بی جے پی کی گجرات میں غیر معمولی انتخابی کامیابی تھی۔ بلقیس بانو کے مجرمین کو رہا کرنےکے بعد فساد کو اپنا کارنامہ بتاکر اسے حاصل کیا گیا جو زاعفرانیوں کی پرانی حکمت عملی ہے۔ گجرات کے اندر کانگریس کا جو حال ہوا ویسی ہی درگت بی جے پی کی پنجاب میں بنی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کواس سال اترپردیش اور اتراکھنڈمیں اپنا اقتدار قائم رکھنے میں کامیاب تو حاصل ہوئی مگر دہلی اور ہماچل اس کے ہاتھ سے نکل گئے ۔ بی جے پی نے مہاراشٹر میں دولت کے زور سے شیوسینا کو توڑ پھر سے اپنی سرکار تو بنالی لیکن بہار میں بغیر کسی ٹوٹ پھوٹ کے اسے اقتدار سےبے دخل کرنے والا واقعہ بھی اسی سال رونما ہوا۔ بی جے پی کے دو عدد نائب وزرائے اعلیٰ اور کئی وزیر فی الحال بہار کے اندر سیاسی یتیمی کا شکار ہیں۔ اس طرح انتخابی میدان میں یہ کھیل برابر سرابر ہوگیا لیکن راہل گاندھی کا سڑک ناپتے ہوئے اٹل بہاری واجپائی کی سمادھی پر پہنچ جاناایک ایسا واقعہ ہے جس نے 2022؁کو یادگار بنادیا ۔ اس سال کی تاریخ لکھنے والا مؤرخ’بھارت جوڑو یاترا‘ کو نظر انداز نہیں کرسکے گا۔

107؍دن بعد تقریباً 3000 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے راہل گاندھی دہلی میں داخل ہوئے تو سب جانتے تھے کہ پورے خاندان کے ساتھ ان کی ملاقات ہوگی اور ایسا ہی ہوا۔ سونیا گاندھی کے ساتھ ان کی تصاویر دیکھ کر لوگ نمناک ہوگئے۔ پرینکا کا جوش حسبِ معمول تھا مگر رابرٹ وادرا کی موجودگی نے چونکا یا تو ضرور مگر حیرت نہیں ہوئی ۔ لال قلعہ پر راہُل گاندھی کی تقریر بھی خوب چلی ۔اس میں انہوں نے مودی حکومت کو ببانگ دہل اڈانی کی سرکار کہہ کر شہد کے چھتے ّ میں ہاتھ مار دیا۔ پریس کانفرنس میں جب پوچھا گیا کہ انہیں ٹھنڈ کیوں نہیں لگتی تو اس کا جواب تھا ان غریبوں سے جاکر پوچھو جو سڑک پر سوتے ہیں ۔ ہندوستان کا کسان اور مزدور اپنی زندگی میں کئی ہزار کلومیٹر چلتا ہے اس لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں۔یہ انکسار و تواضع اس رعونت کا جواب ہے جس کا اظہار وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ ہوتا ہے۔ وہ آئے دن ’پہلی بار‘ کا دعویٰ کرکے اپنے کارہائے نمایاں کو بیان کرتے ہیں ۔ راہل گاندھی اس یاترا میں وہ سب کررہے ہیں جو ان کا حریف نہیں کرسکتا مثلاً اتنا طویل پیدل سفر اور اس دوران کنٹینر میں قیام وغیرہ ۔

بھارت جوڑو یاترا دراصل راہل گاندھی کے بارے پھیلائے جانے والی ساری غلط فہمیوں کو بلڈوزر سے روند رہی ہے۔ ان کو آعام طلب شہزادہ اور غیر سنجیدہ سیاستداں کہہ کر پکارا گیا۔ راہل کی شبیہ بگاڑنے کے لیے بی جے پی نے ہزاروں کروڈ روپئے خرچ کیے مگر ایک ماہ کے اندر انہوں نے اس خطیر رقم کو جلا کر خاک کردیا۔ بھارت جوڑو یاترا نے ایک نیا راہُل گاندھی دنیا کے سامنے پیش کیا جس کواگر اب کوئی پپو کہے تو وہ بذاتِ خود پپو نظر آتا ہے۔ دہلی کے اندر بھارت جوڑو یاترا کو دس دن کے لیے روک دیا گیا تاکہ شمال کی سردیوں کے لیے کنٹینرس کو مرمت کرکےتیار کیا جاسکے۔یہ موقع چونکہ عین کرسمس کے وقت آیا اس لیے بی جے پی کے رہنما اوروزیرِ پارلیمانی امور پرہلاد جوشی نے چٹکی لی کہ ’ تعطیل ایک بہانہ ہے باہر گھومنے جانا ہے گویا پیشنگوئی کی گئی بہت جلد راہل گاندھی چھٹی منانے بیرونِ ملک جانے والے ہیں ۔

پرہلاد جوشی نے اس معاملے میں جلدبازی سے کام لیا۔ وہ اگر اپنے آپ کو قابو میں رکھتے تو بعید نہیں کہ راہل گاندھی اپنی نانی نانا سے ملنے اٹلی چلے جاتے اور اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ وزیر اعظم کیمرے سمیت لاو لشکر کے ساتھ سرکاری خرچ پر اگر اپنی والدہ سے ملنے جاسکتے ہیں تو راہل اپنے ذاتی خرچ پر نانی نانا سے ملاقات کے لیے کیوں نہیں جاسکتے ؟ ان کا ننہال چونکہ ملک سے باہر ہے اس لیے وہ اسے تو ہندوستان میں لا نہیں سکتے اس لیے انہیں خود جانا پڑتا ہے۔ ان دنیا کے دیگر ممالک میں چھٹی منانے کے لیے جانے کا حق ہے۔ آٹھ ہزار کروڈ کے سرکاری جہاز پر بیرونِ ملک دوروں کی آڑ میں چھٹی منانے والے رہنما کے بھگت جب اپنے مخالفین پر ایسا بچکانہ اعتراض کرتے ہیں تو ان کی عقل پر بیک وقت ہنسی اور رونا دونوں آتاہے۔ راہل گاندھی کی پیدل یاترا کے ’کرن دھار‘ جئے رام رمیش نے پرہلاد جوشی کے بیان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ سارے بھارت یاتریوں کے سفر کی تفصیل سرکار کے پاس ہوگی۔ اس لیے اگر وزیر موصوف یہ ثابت کرنے کامیاب ہوجائیں کہ یہ تعطیل چھٹی منانے کا بہانا تھا تو وہ کھلے عام معذرت چاہیں گے بصورتِ دیگر پرہلاد جوشی سرِ عام معافی مانگیں ۔ انگریزوں سے معافی مانگنے والے ساورکر کے بھگت سنگھ پریوار کے جوشی نے ہنوز اپنی غلطی تسلیم نہیں کی ہے اور اس کی امید بھی کم ہے۔

بی جے پی والے سوچ رہے تھے کہ تعطیل کا عشرہ سکون سے گزرے گا لیکن اس وقفہ کے پہلے ہی دن راہل نے ایک ایسی حرکت کردی جو زعفرانیوں کے چشمِ تصور سے پرے تھی۔ راہل گاندھی نے کرسمس کے دن قومی رہنماوں کی سمادھیوں پر خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ یہسلسلہ حسبِ توقع گاندھی جی سے شروع ہوا اور پھر پنڈت نہرو سے اندرا گاندھی اور راجیوگاندھی تک پہنچ گیا ۔ اس کےساتھ شاستری جی اور چودھری چرن سنگھ کی زیارت بھی قابلِ فہم تھی کیونکہ اتر پردیش میں برہمنوں اور جاٹوں کی تالیفِ قلب کے لیے یہ ضروری تھا مگر ان کا آخری پڑاو یعنی اٹل بہاری واجپائی کی سمادھی پر خراجِ عقیدت چونکانے والا تھا ۔ اس ایک تیر سے راہُل گاندھی نے بیک وقت کئی شکار کرلیے جن کا جائزہ لینا اہم ہے۔ 25؍ دسمبر اٹل جی کی وفات کا دن ہے اس لیے راہل کو صرف انہیں کی سمادھی پر جانا چاہیے تھا لیکن کسی غلط پیغام کے نشر ہونے سےبچنے کے لیے اس کو آخر میں رکھا گیا۔ ویسے بھی اٹل نے ان سب کے بعد وزارت عظمیٰ کاعہدہ سنبھالا تھا اس لیے ترتیب میں بھی ٹھیک ہی تھی ۔ راہل گاندھی کے اس دورے نےان کے غیر ملکی دورے کی افواہ اڑانے والے پرہلاد جوشی کو ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ وہ اسے آسانی سے بھول نہیں پائیں گے ۔ راہل نے بتا دیا کہ وہاں تو نہیں گئے جس کی توقع بی جے پی والے کررہے تھے بلکہ کہیں اور پہنچ گئے جس کی توقع ا نہیں نہیں تھی۔ اپنے مخالفین کو حیرت زدہ کردینا ایک کامیاب سیاسی حکمت عملی تھی ۔

وزیر اعظم سمیت بی جے پی والوں کا پسندیدہ مشغلہ اٹھتے بیٹھتے ملک کے گوں ناگوں مسائل کے لیے پنڈت نہرو کو موردِ الزام ٹھہراناہے۔ سنگھ پریوار نے تو گاندھی جی تک کو بھی ہیرو سے وِلن بنادیا ہے۔راہل گاندھی نے اپنے عمل سے یہ درس دیا ہے کہ قومی رہنماوں کے ساتھ حسن سلوک کیا ہوتا ہے ؟ ان کے ساتھ نظریاتی اختلاف کے باوجود آئینی عہدے کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے انسانی سطح پر باہم احترام کا معاملہ کیسے کیا جاتا ہے؟ ملک کے لوگوں نے دیکھا کہ دوسروں سے نفرت کرکے ملک توڑنے والے کیسے ہوتےہیں اور محبت کی بنیاد پر عوام کو جوڑنے والوں کا ظرف کس قدر مختلف ہوتا ہے؟راہل گاندھی نے بی جے پی کے سامنے آئینہ رکھ کر بغیر مکھوٹے کے اس کی اصلی صورت دکھادی۔ اٹل بہاری واجپائی نے کئی مواقع پر بہت ہی کھل کر پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی تک کی تعریف و توصیف کی تھی ۔ اس کے برعکس نریندر مودی اور ان کے حواری کشمیر سے لے کر چین تک ہر تنازع کے لیے پنڈت نہرو کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ ا س اقدام نے بی جے پی کے اندر اختلاف رائے پیدا کردیا اور مختلف انداز میں اس کی مخالفت ہونے لگی۔

یہ طوفان ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی والدہ ہیرا بین کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اور انہیں اسپتال میں داخل کرانا پڑا ۔ اس اطلاع کے بعد وزیر اعظم اپنی والدہ کی عیادت کےلیے احمد آباد میں 'یو این مہتا انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی اینڈ ریسرچ سینٹر' پہنچ گئے۔ ا س موقع پر جہاں ملک کے اہمرہنماوں نے ہیرا بین کی جلد صحت یابی کے لئے دعا کی وہیں راہل گاندھی نے بھی اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ’’ماں اور بیٹے کے درمیان محبت کا رشتہ لازوال اور انمول ہوتا ہے۔ مودی جی، اس مشکل وقت میں میری محبت اور حمایت آپ کے ساتھ ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کی والدہ جلد صحت یاب ہو جائیں گی۔‘‘ کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی نے بھی ٹوئٹ لکھا ’’وزیر اعظم نریندر مودی کی والدہ کے بیمار ہونے کی خبر موصول ہوئی ہے۔ اس گھڑی میں ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہوں‘‘۔ ان پیغامات کے دودن بعد ہیرا بین اس دنیا کو داغِ مفارقت دے گئیں مگر نفرت کی آگ اگلنے والی ہندوستانی سیاست میں یہ محبت کا ایک خوشگوار جھونکا تھا۔ بھارت جوڑو یاترا کو بار بار انتخاب کے ترازو میں تولنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ’ اور بھی غم ہیں زمانے میں الیکشن کے سوا‘۔ فی الحال یہ بیداری مہم جگر مراد آبادی کے اس شعر کی عکاس بن گئی ہےجو 2022کا سیاسی پیغام ہے اور اس کے اندر 2023 کے امید کی کرن موجود ہے؎
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450974 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.