2018کے اوائل میں رافیل بدعنوانی کی دھمک سنائی دینے لگی
تھی اور مودی جی اس کی تپش محسوس کرنے لگے تھے ۔ اس زمانے میں وزیر اعظم نے
عوام کی توجہ ہٹانے کی خاطر ایک تقریر میں فرمایا کہ زراعت ایسا موضوع ہے
جس نے ہزاروں سال قبل سے ہماری تہذیب کی آبیاری کی ہے، اسے بچایا ہے ، اسے
مستحکم کیا ہے۔ یہ بات شاستروں میں لکھی ہے کہ زراعت ہی انسانی زندگی کی
بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا اس موضوع پر ماضی ، حال اور مستقبل تینوں کو ذہن
میں رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بعد ماضی سے متعلق اوٹ پٹانگ دعووں کے بعد
کہا کہ آزادی کے بعد ہمارے کسان نے اپنا خون پسینہ بہاکر دانے دانے کو
محتاج ملک کو اناج کے معاملے میں خود کفیل بنادیا ہے۔ اس کے بعد مستقبل سے
متعلق یہ پیشنگوئی بھی کردی کہ 2022تک کسانوں کی آمدنی دوگنا ہوجائے گی ۔
اس بات کو انہوں نے 2020 میں بھی دوہرایا لیکن اب تو 2022گزر چکا ہے نیز ان
کے دیگر وعدوں کی مانند یہ بھی ایک کھوکھلا جملہ ثابت ہوا ہے ۔
اس وعدہ خلافی نے سیاست کے عجائب خانے میں ایک ایسا منظر دکھایا جس پر یقین
کرنا مشکل ہوگیا ۔ بی جے پی کی زبردست انتخابی کامیابی کے دس دن بعد گجرات
سےپرفل پٹیل نامی کسان کادہلی کے رام لیلا میدان میں احتجاج کےلیے آکر یہ
کہنا کہ وہ مرکزی حکومت سے کچھ مطالبات کرنے کے لیے آیا ہے نیز دھمکی دینا
کہ اگر انہیں مانا نہیں گیا تو2024کےقومی انتخاب میں سبق سکھا دےگا ۔مذکورہ
مظاہرے میں اسٹیج سے اس کی اس طرح تائید کا ہونا کہ ’ہم اپنا حق مانگ رہے
ہیں کسی سے بھیک نہیں مانگ رہے ہیں‘۔ راکیش ٹکیت کی بھارتیہ کسان یونین کے
احتجاج میں اگر یہ بات کہی جاتی تو کسی کو حیرت نہ ہوتی لیکن اس ریلی کا
اہتمام تو بھارتیہ کسان سنگھ یعنی سنگھ پریوار کی ایک تنظیم نے کیا تھا ۔
اس لیے یہ سوال اہم ہوجاتا ہے کہ آخر یہ رام بھگت کسان اپنے رام راجیہ کے
خلاف رام لیلا میدان میں احتجاج کرنے پر کیوں مجبور ہوگئے ؟ کیا اب پانی سر
سے اونچا ہو چکا ہے؟ کیا بی کے ایس کے لیے مودی سرکار پر تنقید کیے بغیر
اپنے حواریوں کو ساتھ رکھنا مشکل ہورہا ہے؟ سنگھی کسانوں کی حالت راحیل
فاروق کے اس شعر کی مانندہے؎
راحیلؔ تری بات پہ حیرت نہیں ہم کو
اس بات پہ حیرت ہے کہ تو بول پڑا ہے
کسان قانون کی واپسی سے قبل بی کے ایس نے قومی سطح پر احتجاج کرنے کا فیصلہ
کیا تھا۔ اس وقت وہ ایم ایس پی کی ادائیگی یا کسان قانون کی واپسی کا
مطالبہ کررہی تھی۔ پچھلے سال ماہِ ستمبر میں کسان سنگھ کے یوگل کمار مشرا
نے کہا تھا کہ ’’ نریندر مودی کی سرکار آر ایس ایس نہیں چلاتی ورنہ ہمیں
احتجاج کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ مودی یا اٹل سمیت کوئی حکومت بھی کسانوں
کی بابت سنجیدہ نہیں ہے۔ سرکار کو تین ہفتوں کا وقت دے کر ملک بھر میں
دھرنے کیے گئے مگر معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا۔ان احمقوں کو اس وقت اندازہ
نہیں تھا حکومت کسان قانون واپس بھی لے سکتی ہے اس لیے یہ سرکار کی حمایت
میں کہہ رہے تھے وہ قانون میں ترمیم کے لیے تیار ہے مگر دیگر کاشتکار
تنظیمیں اس کے خاتمہ پر اصرار کرکے معاملہ بگاڑ رہی ہیں۔مودی سرکار نے بی
کے ایس کے بجائے سنیوکت کسان مورچہ سے معاہدہ کرکے اپنی ہی تنظیم کی پیٹھ
میں چھرا گھونپ دیا۔ اس کے بعد اپنا وقار بحال کرنے کے لیے امسال جنوری میں
دس دنوں تک احتجاج کرنے کا اعلان کیاگیا لیکن اس پر بھی کسی نے توجہ نہیں
دی اور اب رام لیلا میدان کا تماشا بھی ناکام ہوگیا۔
ملک کے اندر کسانوں بے شمار مسائل ہیں۔ ان کی جانب بی کے ایس کی کسان ریلی
میں حکومت توجہ مبذول کرائی گئی مثلاً پی ایم کسان نِدھی میں اضافہ ، تمام
زرعی پیداوار کو جی ایس ٹی سے استثناء کرنا اور جی ایم نامی بین الاقوامی
بیج فراہم کرنے والی کمپنی کے لائسنس کی منسوخی، گنے کی قیمت ، پی ایم
سینچائی اسکیم کی ناکامی اورکاشتکاروں کو براہ راست سرکاری امداد کی
ادائیگی وغیرہ ۔ اس کے علاوہ مشرقی اترپردیش یعنی پوروانچل سے آنے والے
ہری کمار سنگھ نے مودی سرکار کو یاد دلایا ’’ آپ نے انتخاب سے قبل آوارہ
مویشیوں کا مسئلہ حل کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ہنوز کچھ نہیں ہوا۔ آوارہ
مویشی کھیتوں کی فصل تباہ کررہے ہیں۔ ہمیں پوری رات چوکیداری کرنی پڑ رہی
ہے۔ ہمیں گئوماتا کا خیال رکھنے کے لیے جھوٹے وعدوں کے بجائے روپیہ دیں۔
ارونا چل پردیش سے آنے والے گورنگ تڑپا کو شکایت ہے کہ ان کے بہترین سنترے
بازار تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے سڑ جاتے ہیں ۔2019 کے بعد سے کسی نئے
کسان کا سرکاری اسکیم میں اندراج نہیں ہوسکا کیونکہ صوبائی حکومت ضروری
دستاویز فراہم نہیں کرتی ۔ اس طرح گویا ارونا چل پر دیش کی ڈبل انجن سرکار
کے بھی ٹربل(trouble) انجن سرکار ہونے کی تصدیق ہوگئی ۔
ایم ایس پی کسانوں کا نہایت اہم مطالبہ ہے مگر بی کے ایس اس سے مطمئن نہیں
ہے۔ وہ خرچ کے مطابق معاوضے پر زور دیتی ہے۔ زرعی مراعات کو وہ صنعتوں کے
بجائے براہِ راست کسانوں کو دینے کے حق میں ہے۔ وہ بدعنوان منڈیوں کسان
بازار سے بدلنا چاہتی ہے۔ اس کا اعتراض ہے کہ دیگر لوگ جب جی ایس ٹی ادا
کرتے ہیں تو انہیں اس کا کریڈٹ ملتا ہے لیکن جب کسان پائپ وغیرہ پر اٹھارہ
فیصد جی ایس ٹی دے کر بھی محروم رہ جاتا ہے۔ بی کے ایس کے خیال میں قرض
معافی سے کسانوں کا نہیں بلکہ بنکوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ وہ مہنگائی کے لحاظ
کسان اسکیم کے اعادہ کامطالبہ کرتاہے کیونکہ اب 6,000 کافی نہیں ہے۔ بی کے
ایس کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے پر مُصر ہے۔ سرکار کے اہم ادارے ایف ایس
ایس اے آئی کی معتبریت پر سوال اٹھاتے ہوئے وہ پوچھتا ہے اس کا کام ملاوٹ
کرنا ہے یا اس کا خاتمہ کرنا؟
کسانوں کی خستہ حالی پر مودی حکومت کے بخیے ادھیڑتے ہوئے یوپی کے سابق وزیر
اعلیٰ اکھلیش یادو نے کہا کہ جب سے بی جے پی حکومت تشکیل پائی ہے، کسانوں
کے برے دن شروع ہو گئے ہیں۔ قرض معافی کے نام پر انھیں بہکایا گیا، سمان
ندھی دے کر جبراً وصولی شروع کر دی گئی، بجلی بل معافی کا خواب دکھا کر ووٹ
بٹورے گئے لیکن کوئی رعایت نہیں دی گئی، کسانوں کو مفت آبپاشی کی سہولت
بھی نہیں ملی۔ گنا کسانوں کی بقایہ ادائیگی بھی نہیں ہو رہی ہے۔ کسان کی
آمدنی دوگنی کرنے میں اتر پردیش حکومت پوری طرح ناکام رہی ہے۔ اکھلیش یادو
کے مطابق یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ 80 کروڑ لوگوں کو اناج تقسیم کرنے
کا ڈھنڈھورا پیٹنے والی بی جے پی حکومت اناج پیدا کرنے والے کسانوں کے ساتھ
دھوکے پر دھوکہ کرنے میں نہیں جھجک رہی ہے۔مودی سرکار 2022 تک کسانوں کی
آمدنی دوگناکرنا چاہتی تھی لیکن یہ ہدف محض بھاشن بازی اور انتخابی مہمات
سے تو حاصل نہیں ہوسکتا تھا ۔ اس لیے مہلت تو تمام ہوگئی مگر آمدنی
مہنگائی کے لحاظ سے بھی نہیں بڑھی۔
یہ حسنِ اتفاق ہے زرعی محاذ پرحکومت کی ناکامی پر اس کا حامی سنگھ پریوار
اور مخالف سماجوادی پارٹی یا کانگریس سبھی متفق ہیں۔ اس معاملے میں مکمل
ناکامی کے بعد اب کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے لیے مودی سرکار نے فرانس
کے اینوٹیرا ایجی فرم کے ساتھ ایم او یو ( معاہدہ) کرکے انہیں بے وقوف
بنانے کا نیا شگوفہ چھوڑا ہے۔ یہ دراصل حکومت کا کسانوں کے ساتھ ایک اور
جھانسہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈیزل، پٹرول، کھاد، بیج، جراثیم کش دوا جیسی زرعی
استعمال کی چیزیں مسلسل مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ ایسے میں اگر کسی چمتکار سے
کسانوں کی آمدنی دوگنی بھی ہو جائے تو ان بچت نہیں بڑھے گی؟ ایسے میں یہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ سرکار ان کو نظر انداز کیوں کررہی ہے۔ موجودہ
حکومت کو یہ یقین کیوں ہے ان مسائل کو حل کیے بغیر بھی وہ بڑے آرام سے
اگلا انتخاب جیت جائے گی؟ اس کے پاس ایسا کون سا زندہ طلسمات ہے جس کے
لگاتے ہی کسان اپنا سارا دکھ درد (عارضی طور پر) بھول بھال کر انتخاب میں
کامیاب کردیں گے ؟ یہ میڈیا پر فرقہ پرستی کی مفت شراب ہے جسے پلا کر مدہوش
عوام کے ووٹ پرڈاکہ ڈالا جارہا ہے۔
راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا میں دہلی پہنچ کر لال قلعہ سے اس موضوع پر
تفصیل سے گفتگو کی ۔ انہوں نےکہا ’’ آپ نے کبھی پوچھا کہ میڈیا چوبیس
گھنٹے نفرت کی بات کیوں کرتا ہے؟یہ آپ کا دھیان ہٹانے اور جیب کاٹنے کے
لیے کیا جا رہا ہے۔ چوبیس گھنٹہ ہندو مسلم، ہندو مسلم، کرکے اس کی آڑ میں
عوام ، کسانوں اور مزدوروں کا پیشہ سرمایہ داروں کی تجوری میں پہنچا دیا
جاتا ہے۔ ہوائی اڈے اور سڑکیں سیدھے ان (سرکار) کے مالک کی جیب میں(بھیج دی
جاتی ہیں )۔ راہل نے کہا کہ "اگر اس ملک کو کوئی روزگار دے سکتا ہے تو وہ
کسان اور چھوٹے کاروباری ہی دے سکتے ہیں، کیونکہ یہ لاکھوں کی تعداد میں
ہیں۔ یہ لوگ چوبیس گھنٹے لگے رہتے ہیں۔ ان کے لیے بینک کے دروازے بند رہتے
ہیں۔ ہندوستان کے دو یا تین ارب پتی ہیں جن کو ایک لاکھ کروڑ، دو لاکھ
کروڑ، تین لاکھ کروڑ آسانی سے دے دیا جاتا ہے، لیکن کسان اور چھوٹے
کاروباریوں کو بینک سے دھکیل کر نکال دیا جاتا ہے‘‘۔ اس کی وجہ راہل گاندھی
نے یہ بتائی کہ "بھائیو! پورا ہندوستان جانتا ہے کہ یہ نریندر مودی کی
سرکار نہیں ہے، یہ اڈانی امبانی کی سرکار ہے۔" یہ بات جس دن بھارتیہ کسان
سنگھ کی سمجھ میں آجائے گی وہ مودی سرکار کے بجائے اڈانی اور امبانی کے
خلاف محاذ چھیڑ دے گا اور جب یہ ہوگا تو دنیا دیکھے گی ؎
برداشت کی حدوں سے مرا دل گزر گیا
آندھی اٹھی تو ریت کا ٹیلہ بکھر گیا
|