آئین پاکستان اور ٹیکنوکریٹ حکومت

گذشتہ چند دنوں سے پاکستان میں ٹیکنوکریٹ حکومت کی بازگشت سنائی دی۔یہ سوچے سمجھے بغیر کہ آیا پاکستان کا آئین ٹیکنوکریٹ نظام حکومت کی اجازت دیتا بھی ہے یا نہیں ۔ہمیشہ کی طرح من گھڑت خبروں اور تجزیوں کی کمائی کھانے والے یوٹیوبرزاور ٹی وی چینلز پر بیٹھے نام نہاد تجزیہ کارآسمان سر پر اُٹھانے کی ناکام کوشش کرتے دیکھائی دئیے۔ٹیکنوکریسی کیا ہے؟پاکستان میں کبھی ٹیکنوکریٹ نظام حکومت قائم بھی ہوا اور کیا یہ نظام حکومت کامیاب بھی رہا؟اور کیا پاکستان کا آئین ٹیکنوکریسی کی اجازت بھی دیتا ہے ؟ آئیے ان تما م سوالات کے جوابات حاصل کرنےکی کوشش کریں۔

ٹیکنوکریسی کیا ہے؟
ٹیکنوکریسی ایک سیاسی نظریہ ہے جہاں ریاست کی فیصلہ سازی تکنیکی ماہرین کے ذریعہ کی جاتی ہے ۔ٹیکنوکریسی کا لفظ یونانی زبان سے نکلا ہے techne جس کا مطلب ہے آرٹ یا تکنیک اور kratos کا مطلب غلبہ یا طاقت کی نشاندہی کرنا۔ اس لحاظ سے ، ٹیکنوکریسی کی تعریف "ان لوگوں کی حکومت" کے طور پر کی جاسکتی ہے ، جو ایک ایسے نظام پر مشتمل ہے جس میں وزارتوں یا کابینہ کے اندر مختلف شعبہ ہات کے ماہرین کے ذریعہ سرکاری عہدوں کو پُر کیا جاتا ہے۔ٹیکنوکریسی حکومت کی ایک شکل ہے جو ریاست ٹیکنوکریٹس کے ذریعہ حکمرانی اور رہنمائی کرتی ہے۔دراصل ٹیکنوکریٹ حکومت میں سیاستدانوں /غیر منتخب افراد کی بجائے ان لوگوں کو رکھا جاتا ہے جو اپنے شعبے کے ماہر ہوتے ہیں ۔مثال کے طور پر اس نظام میں وزیرصحت ایسے شخص کو بنایا جاتا ہے جو ڈاکٹر ہویا سرجن اور مریضوں کی صحت کے مسائل کو سمجھتا ہو (چاہے اسے انتظامی امور میں مہارت حاصل نہ ہو)۔

ٹیکنوکریسی کی ضرورت کیوں؟
ایسے نظام کو لانے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب یا تو کسی ملک میں پارلیمان پر سے بھروسہ اٹھ گیا ہو یا پھر عام انتخابات کروانے میں وقت درکار ہو اور اس مختصر دورانیے میں حکومت بھی چلانی ہو۔ایسی صورتحال میں مختلف شعبوں سے ماہرین کو لایا جاتا ہے اور کچھ عرصے کے لیے سیاسی یا معاشی مسائل کے حل کے لیے حکومت ان کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے۔ دنیا میں ٹیکنوکریسی کی مثالیں میکسیکو کے صدور کارلوس سالیناس ڈی گورٹری اور ارنسٹو زیدیلو کی کابینہ 1988 اور 2000 کے درمیان اور 2011 میں ماریو مونٹی (اٹلی) اور لوکاس پاپیڈیموس (یونان) کی عارضی حکومتیں ہیں۔

پاکستان میں ٹیکنوکریسی کے تجربات:
پاکستان میں ہر نگران حکومت زیادہ تر ٹیکنوکریٹس پر ہی مشتمل رہی ہیں۔سیاسی اور آئینی ماہرین سابق جنرل ایوب خان کے دور کو پاکستان میں ٹیکنوکریٹ حکومت کی بہترین مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایوب خان نے اپنی کابینہ میںسیاستدانوں کی نسبت چُن چُن کر ٹیکنوکریٹس کو شامل کیا ۔ بظاہر ایوبی دور حکومت کو پاکستان کا سنہری دور کہا جاتا ہے مگر سیاسی و آئینی ماہرین ایوبی دور کو پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ قرار دیتے ہیں۔ ایوبی دور حکومت ہی میں پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ نام نہاد 22 خاندانوں کے ہاتھوں آگیا تھا۔ جسکے بعد پاکستان کا ایک بڑا طبقہ معاشی محرومی کا شکار ہوگیا۔ایوبی دور ہی میں مشرقی پاکستان کے باسی جوکہ مغربی پاکستان کے باسیوں سے عددی تعداد میں زیادہ تھے مگر عدم مساوات تقسیم وسائل نے مشرقی پاکستان کے باسیوں کو احساس محرومی کا شکار کردیا۔ یہ کہنے میں کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیش کی بنیادیں ایوبی دور ہی میں قائم ہوگئی تھیں۔کیونکہ جب سیاسی مسائل پارلیمنٹ کی بجائے بند کمروں میں حل کرنے کی کوشش کی جائے تو اسکے نتائج پھر بنگلہ دیش کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔ضیاءالحق اور مشرف کے ادوار بھی ٹیکنوکریسی کی بہترین مثالیں ہیں اور ان دونوں ادوار نے ریاست پاکستان کو کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔فرقہ پرستی، دہشت گردی اور تباہ کن ملکی معیشت انہی ادوارکے تحائف ہیں۔شوکت عزیز ، معین قریشی، حفیظ شیخ جیسے افراد کو بیرونی ممالک سے درآمد کیا گیا، جن کو نہ توملکی سیاست و معیشت معلوم تھی۔ ان جیسے افراد کو اپنے والدین کی قبروں بارے معلومات نہ تھیں چونکہ یہ افراد دہائیوں تک اپنی مادروطن سے دور بیرون ممالک میں مقیم تھے۔ کسی نامعلوم قبر پر معین قریشی کے والد کا کتبہ لگواکر موصوف کو فاتحہ خوانی کروائی گئی۔

آئین پاکستان اور ٹیکنوکریسی:
آئین پاکستان کے آرٹیکل 50 کے تحت پاکستان کی ایک پارلیمنٹ جو صدر اور دو ایوانوں (قومی اسمبلی اور سینیٹ)پر مشتمل ہوگی ۔آرٹیکل 91(1) کے تحت وزراء کی ایک کابینہ ہوگی، جس کے سربراہ وزیراعظم ہوں گے، جو صدر کو اس کے کاموں کی انجام دہی میں مدد اور مشورہ دے گی۔آرٹیکل91(4) کے تحت وزیر اعظم کا انتخاب قومی اسمبلی کی کل اراکین کی اکثریت کے ووٹوں سے کیا جائے گا۔آرٹیکل 92(1) کے تحت صدر مملکت وزیر اعظم کے مشورے پر پارلیمنٹ کے ارکان میں سے وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کا تقرر کرے گا۔ آئین پاکستان کے تحت نظام حکومت چلانے کے لئے درج بالا ایگزیکٹو صرف منتخب اراکین پارلیمنٹ ہی ہوسکتے ہیں ۔ اور سربراہ حکومت یعنی وزیراعظم اور وفاقی وزراء پارلیمینٹ کو جواب دہ ہوتے ہیں۔

مذکورہ کالم میں درج معروضات کی بناء پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آئین پاکستان کسی صورت ٹیکنوکریٹ حکومت کی اجازت نہیں دیتا ہے۔یاد رہے پاکستان میں ایوب خان ، یحییٰ خان، ضیاءالحق اور مشرف کے ادوارمیںبراہ راست یا بالاواسطہ ٹیکنوکریسی کے تجربات کئے گئے۔جسکے نتائج ابھی تک ریاست پاکستان بھگت رہی ہے۔ان تجربات کی بناء پر یہ بات بہت واضح ہے کہ پاکستان اب کسی صورت غیر جمہوری نظام حکومت مارشل لاء یا ٹیکنوکریسی کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ آج سابقہ وزیراعظم شوکت عزیز، حفیظ شیخ کہاں مقیم ہیں؟ ان غیر سیاسی افرادکو نہ تو عوام کی پروا ہ ہوتی ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کو جوابدہی کا خوف۔ چونکہ ٹیکنوکریسی نظام حکومت میں ٹیکنوکریٹ پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں ہوتے اسلئے ان ٹیکنوکریٹس اور بیوروکریٹس کے نزدیک ملکی سلامتی اور عوام کی تکالیف کی دادرسی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جدید دنیا میں رائج جمہوری نظام حکومت ہی کسی ریاست کی معاشی و معاشرتی ترقی کی ضمانت سمجھتا جاتا ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز جمہوریت ہی میں پوشیدہ ہے۔

 
Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 181 Articles with 115829 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.