دہشت گردی ، آئینی اضطراب اور سیاسی انتشار کے ساتھ2022ء کی رخصتی

در حقیقت 2022 ء پاکستان کے لیے سیاسی انتشار ، معاشی ابتری اور بڑھتی دہشت گردی کے حوالے سے خوفناک سال ثابت ہوا۔ ان گزرے 75برسوں پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے کہ نئے سال 2023ء کاا ستقبال مہنگائی، معیشت کی زبوں حالی، بیرونی قرضوں، ڈینگی و کرونا کی وباء ، انتہا پسندی ، بم دھماکوں ، آئینی اضطراب اور سیاسی انتشار کے ساتھ کیا ہے۔ 2022 ء کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ جب سیاسی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعظم کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے معزول کیا گیا تھا، اور اس نے ملک کو سیاسی عدم استحکام کی دلدل میں دھکیل دیا ۔ اس کے بعد امریکی سازش ، انتخابات کی کشا کش ، ہتک عزت کے مقدمات، آڈیو لیکس، سائفر ،خونی انقلاب جیسے نعرے لگائے اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف مذموم مہم چھیڑ تے ہوئے سپہ سالار جیسے اہم ترین عہدے کو بھی تضحیک کا نشانہ بنایا گیا دوسری جانب ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کی بدولت یکے بعد دیگرے آئی ایم ایف کے پروگرام غیر معینہ مدت کے لیے موخر ہوئے، جس نے ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر دھکیل دیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر اب تک کی کم ترین سطح پر ہیں، اقتصادی پیداوار کی بجائے درآمدات پر انحصار بڑھ گیا ہے، افراط زر برقرار ہے اور قرض میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ہم ادائیگیوں کی خاطر قرض لیتے رہتے ہیں۔ مزید برآں، کاروبار و بزنس کرنے کی لاگت بہت زیادہ ہو گئی ، جس سے مالکان کو اپنی کمپنی کا سائز بند کرنے یا کم کرنے پر اکسایا جا رہا ہے۔ اس سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا ، جو پہلے سے پسماندہ آبادی کو محرومیوں کے گڑھے میں دھکیل دیا گیاہے۔ بدترین سیلاب نے قیامت صغریٰ کا منظر پیش کیاجس سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا اور زراعت کو مکمل طور پر برباد کر دیا ۔ اس کے نتیجے میں، ہنوز سرد ترین موسم میں سیلاب سے متاثرہ لوگ نہ صرف خطرناک ماحول میں رہ رہے ہیں بلکہ وہ بھوکے اور ٹا ئیفائیڈ، تپ دق، ایچ آئی وی/ایڈز اور ڈینگی جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ سال 2022 ء پاکستان کی معیشت کے لیے بدترین سال قراررہا۔ ڈالر کے مقابلے روپیہ 49.31 روپے تک گر گیا۔مالیاتی خسارہ مسلسل بڑھتے رہنے سے ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے ۔جبکہ قوم کو وزرائے خزانہ کے تجربات کی بھینٹ چڑھایا دیا گیا ۔یہ انتہائی تشویشناک اعداد و شمار ہیں اور جب تک ہم اپنی معیشت میں بہتری لانے کیلئے حقیقی تبدیلیوں پر غور نہیں کریں گے تب تک صورتحال تاریک ہی رہے گی۔ گزشتہ برس کے آخری تین ماہ میں دہشت گردی نے کے پی کے اور سابق فاٹا میں دوبارہ سر اٹھا لیاکی کیونکہ ٹی ٹی پی نے از خود سیز فائر معاہدہ منسوخ کر کے ملک بھر میں حملوں کا الٹی میٹم دیا تھا ۔ کے پی کے ، بلو چستان اور اسلام آباد میں ہونے والی دہشت گردی کالعدم ٹی ٹی پی کی کھلم کھلا اعلان جنگ کا ہی شاخسانہ ہے ۔پاک فوج نے جان ہتھیلی پر رکھ کر بنوں میں25 دہشت گردوں کو جہنم واصل کرتے ہوئے یرغمال بنائے گئے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو بازیاب کروایا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ حکومت اور پاک افواج کو خطے میں قیام امن کیلئے بے پناہ جانی و مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑا ۔ دہشت گردی کیخلاف عالمی جنگ میں پاکستان کی کارکردگی کو بیرونی ممالک نے بھی سراہا ہے اور یہ بھی قابل تحسین امر ہے کہ خطے میں سکیورٹی اور استحکام کیلئے چین بھی ایک مؤثر کردار ادا کر رہاہے لیکن مقام افسوس ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کئے جا رہے ہیں دیگر ملک دشمن عناصر کی طرح بھارت بھی ہمیشہ سے ہی پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے سازشیں کرتا چلا آرہاہے ۔پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کیخلاف عالمی گٹھ جوڑ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا مقابلہ قومی اتفاق رائے اور یکجہتی کے ساتھ ہی کیا جاسکتا ہے ۔عسکری قیادت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی پالیسی کو ازسر نو حکمت عملی بنائے، حکومت اور سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ یہ اہداف کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ کور کمانڈر کانفرنس سمیت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردوں کو پاکستان کا دشمن قرار دیا گیا اور ملک کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف "پوری طاقت سے" جواب دینے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کو بہت زیادہ توقعات تھیں کہ طالبان نہ صرف خود کو ٹی ٹی پی جیسے گروپوں سے الگ کر لیں گے بلکہ ان تنظیموں کو ختم کرنے میں بھی مدد کریں گے۔ 2023 ء ثابت کرے گا کہ کیا ہم دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف اکٹھے ہونے کے لیے دانشمندی اور پختگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، یا نہیں؟ 2017 ء کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب ملک کو 300 سے زیادہ عسکریت پسندوں کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (CRSS) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023 ء میں پاکستان میں مزید تخریبی کارروائیوں کا خدشہ ہے ۔سیکیورٹی فورسز نے 2022 ء میں کم از کم 282 اہلکار شہید ہوئے، جن میں صرف دسمبر میں 40 شہادتیں ہوئیں ہوئیں، 2022 ء میں وطن عزیز کو 376 دہشت گرد حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے کالعدم دہشت گرد تنظیموں جیسے ٹی ٹی پی، داعش اور بی ایل اے نے ان حملوں میں سے 57 کی ذمہ داری قبول کی۔مجموعی طور پر، خیبر پختونخواہ (کے پی) میں ہلاکتوں میں 108 فیصد اضافہ ہوا۔بلوچستان میں دہشت گردی سے متعلق 26 فیصد اموات ہوئیں۔بلوچستان میں، بی ایل اے اور بی این اے (بلوچ نیشنلسٹ آرمی) جیسے باغی گروپوں نے کم از کم 14 بڑے حملوں میں ملوث پائے گئے ۔، سیکیورٹی فورسز ان کے اہداف پر رہیں، پہلی بار بلوچستان سے باہر ، بی ایل اے کی ایک خاتون دہشت گرد نے اپریل میں کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملہ کیا جس میں تین چینی اساتذہ اور ایک پاکستانی ڈرائیور ہلاک ہوا۔ بلوچ مزاحمت کاروں نے اپنی کارروائیوں کا دائرہ پنجاب تک بڑھاتے ہوئے 21 جنوری 2022 ء کو انارکلی بازار پر حملہ کیا۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی خطے میں دہشت گردی کا جو ایک نیا سلسلہ شروع ہوا اس میں حقائق اور شواہد کے مطابق بدنام زمانہ ایجنسی ’’را‘‘ اور طالبان کے مختلف گروہ ہی ملوث ہیں۔ کابل انتظامیہ کے مخاصمانہ طرز عمل کے باوجود پاکستان کی سول اور عسکری قیادتیں افغانستان میں امن کی مستقل بحالی کیلئے فکرمند ہیں ۔پاکستان نے 80ہزار سے زائد قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر جس طرح دہشت گردی کے عفریت پر قابو پایا اس قدرچابکدستی سے کرۂ ارض پرموجود کوئی بھی ملک اپنا دامن کو محفوظ نہیں کرسکا ۔پاکستان کی بہادر افواج آج بھی بڑی خوش اسلوبی سے محدودوسائل،معاشی ناہمواریوں اور ازلی دشمن بھارت کی بزدلانہ کارروائیوں کے باوجود عالمی استعمارکی آنکھ میں کھٹکتے سی پیک منصوبے سمیت خطے میں قیام امن کیلئے دجالی قوتوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملارہی ہیں ۔کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے افغان حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے ہی پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی سرگرمیاں شروع کررکھی ہیں۔ بے شک بھارت اور افغانستان کو پاکستان کے اندر دہشت گردی کے ذریعے بدامنی پھیلانے کا موقع ملک میں جاری سیاسی و معاشی بحران کے باعث ہی مل رہا ہے ۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سول اور عسکری قیادت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سکیورٹی پالیسیوں کا ازسر نو جائزہ لے کر ٹھوس حکمت عملی وضع کرے۔
Naseem Ul Haq Zahidi
About the Author: Naseem Ul Haq Zahidi Read More Articles by Naseem Ul Haq Zahidi: 193 Articles with 139299 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.