دنیا کے ایک سو اٹھائیس ممالک کے ڈیٹا پر مشتمل اس ادارے
نے پیچھلے سال اپنی جو تفصیلات جاری کی ہیں، ان میں قانون کی بالا دستی یا
رول آف لاء ایک انتہائی اہم انڈکس ہے۔
اس تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیا کے کئی ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی کی صورت
حال پاکستان کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ رول آف لاء انڈکس کے مطا بق نیپال
اپنی عدلیہ کی کارکردگی کے لحاظ سے 61 ویں، سری لنکا 66 ویں اور بھارت 69
ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان اس وقت انصاف کی فراہمی کے حوالے سے دنیا کے ایک سو اٹھائیس ممالک
کی فہرست میں ایک سو اٹھارہویں نمبر پر ہے۔
اس رینکنک میں پاکستان سے نیچے افغانستان ہے، جس کا 122 واں نمبر بنتا ہے۔
ہمارے بہت سے قوانین انگریز دور کے بنائے ہوئے ہیں، جو موجودہ دور سے
مطابقت نہیں رکھتے۔ مقدمے سول ہوں یا فوجداری کے، ان میں بہت زیادہ وقت لگ
جاتا ہے۔ ججوں کی تعداد کم ہے، جس کے باعث زیر التوا مقدمات کا انبار لگا
رہتا ہے۔‘
انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔ پاکستان میں عام آدمی کے
لیے انصاف کا حصول خواب ہی ہے، جہاں مقدمے کا فیصلہ آنے میں پندرہ سے بیس
سال لگ جاتے ہیں۔ مدعی انصاف مانگتا ہی مر جاتا ہے۔ ملک میں لاکھوں مقدمات
زیر التوا ہیں۔‘
ہماری عدلیہ آزاد نہیں کیونکہ آزاد اور خود مختار فیصلے نظر نہیں آ رہے۔
قاضی فائز عیسیٰ کیس کو ہی لے لیں، سب سمجھ آ جائے گا کہ کیا ہو رہا ہے؟ سچ
تو یہ ہے کہ ہم عالمی رینکنگ میں ابھی کہیں بھی نہیں۔
پاکستانی نظام عدل تب کہیں کھڑا ہوگا، جب اس میں وسیع تر اصلاحات اور
ترامیم لائی جائیں گی، شفافیت ہو گی، عدلیہ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا
جائے گا۔
ہمارے ہاں عدالتی نظام میں اصلاحات کی صرف بات کی جاتی ہے، اس پر عمل نہیں
کیا جاتا۔ اب تو یہ شعبہ بہت اچھا بزنس بن گیا ہے۔ اس سنگین صورتحال کا
تدارک آسان کام نہیں۔
عوام کے لیے عدلیہ کی پرفارمنس اچھی ہے۔ مگر بعض قوتیں ایسی ہیں، جنہوں نے
عدلیہ کو مسلسل اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا ہے اور دنیا کو یہ تاثر دینے
کی کوشش کی ہے کہ ہمارا عدالتی نظام بیکار ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے عدلیہ
کی ساکھ خراب کی گئی، اس کا مذاق اڑایا گیا۔
پوری دنیا میں عدلیہ اپنے ملک کے حالات کے مطابق ہی کام کرتی ہے۔ یعنی
عدلیہ کا نظام وہی ہوتا ہے، جو ملکی نظام چلانے والے بناتے ہیں۔ اس میں
عدلیہ کا اپنا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ عدلیہ کی کامیابی یا ناکامی کا
انحصار اس کے فیصلوں پر عملدرآمد کروانے والوں اور قوانین بنانے والوں پر
بھی ہوتا ہے۔‘
پاکستان میں 1947 سے لے کر سیاسی نظام مضبوط نہیں ہونے دیا گیا جس کی وجہ
سے عدلیہ بھی ایک مضبوط نہیں ہو سکی۔
بار بار آمریتیں آئیں اور سیاسی جماعتوں کی پختگی کا عمل بھی متاثر ہوتا
رہا۔ ان حالات میں سیاسی پارٹیوں اور عوام کا ایک دوسرے پر اعتماد بھی ختم
ہوتا گیا۔ پھر جب بھی اقتدار سیاسی پارٹیوں کو ملا، تو عدلیہ کو ان کے خلاف
استعمال کیا گیا۔ وہ دور پاکستانی عدلیہ کا سیاہ دور کہلایا۔
یورپ اور امریکا کو دیکھیں تو وہاں حکومت کی طرف سے کوئی نوٹیفیکیشن جاری
ہوتا ہے، تو اسی وقت اس پر عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عدلیہ میں
بہتری کی صورت صرف یہ ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام، پارلیمنٹ کو مضبوط
بنانا، عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری اور امیر اور غریب ہر کسی کی طرف
سے ہر سطح پر قانون کی پاسداری ہو۔
“بہتری کیسے آئے گی”؟
1/ اس کے لیے عدالتی نظام کو وسائل کی ضرورت ہے۔ ججوں کی تعداد بڑھائی
جائے۔ قوانین اور ضوابط میں ترامیم کی جائیں۔
۲/ پارلیمنٹ کی کوشش یہ ہونی چاہیے ایک اسمبلی سے قانون پاس کرائے کہ چھوٹے
مقدمات ضلعی سطح پر ہی نمٹا دیے جائیں کیونکہ جب کیسز ڈسٹرکٹ کورٹ سے ہائی
کورٹ میں جاتے ہیں اور تو یہ سلسلہ طویل ہوتا جاتا ہے۔
۳/ عدالتی نظام میں اصلاحات صرف عدلیہ کی نہیں بلکہ پارلیمان کی بھی ذمہ
داری ہے۔
٤/عدالتی نظام کا مقصد صرف تنازعات کو حل کرنا ہی نہیں ہے بلکہ انصاف کو
برقرار رکھنا ہے.
٥/ اگر پاکستان میں انٹرنیٹ کے زریعے ای۔عدالتوں، ویڈیو۔کانفرنسنگ،
ای۔کارروائی، ای۔فائلنگ اور ای۔خدمات مراکز کی مدد سے عدالتی انتظامیہ کے
لئے انصاف کی فراہم کی جائے تو اس میں عدالتی نظام میں بھی بہت آسانی
ہوئیگی اس تکنیکی مداخلت کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ان اقدامات کی وجہ سے،
کاغذات کا استعمال کم ہوئیگا جو قدرتی وسائل کے تحفظ کے ساتھ وقت کی بچت
میں بھی معاون ثابت ہوگا.
۶/ خصوصا ضلعی عدالتوں میں التوا میں پڑے مقدمات کو جلد از جلد فیصلہ کرنے
کے لئے ایک ٹائم فریم میں مقدمے کو نمٹانے کا اصول اپنانا پڑئیگا اس کے لیے
ججوں کے ساتھ ساتھ دیگر عدالتی اور نیم جوڈیشل افسران کی تربیت کا دائرہ
بڑھانے کی ضرورت ہے۔
۷/ پاکستانی عوام عدلیہ سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں۔ اور معاشرہ بھی یہی
توقع کرتا ہے کہ جج باشعور ، سمجھدار ، جذبہ حب وطن سے سرشار ، باوقار اور
غیر جانبدار ہوں عدالتی نظام میں مقدار کی نسبت معیار کو زیادہ اہمیت دی
جاتی چاہیے اور ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تربیت کے طریقہ کار ، علم ،
ٹکنالوجی اور عدالتی مہارت کو اپ ڈیٹ کرتے رہنا بہت ضروری ہے.
۸/ ہائی کورٹس وہ سپریم کورٹ سرکاری زبان میں عوامی زندگی کے اہم پہلوؤں سے
متعلق اپنے فیصلوں کے مصدقہ ترجمہ مرتب کرکے وکلا و جج لائبریری میں مرتب
کرکے رکھے.
۹/ اسی ہی طرح ثالثی، مصالحت، لوک عدالتوں جیسے متبادل نظامِ عدل کے دائرہ
کار کو ہم کیسے بڑھا سکتے ہیں اس پر غور کریں اور اس پر جتنی جلدی ہو اس پر
عملدرآمد کرایں.
۱۰/ اعلی عدالتوں اور ضلعی عدالتوں کی کارروائی میں سرکاری زبان کے استعمال
کی مزید حوصلہ افزائی کی جائے کہ مدعی اور دوسرے فریقین بھی سمجھ سکیں کیس
میں کیا پیشرفت ہورہی ہے
۱۱/ عدالتی نظام میں مقصد صرف تنازعات کو حل کرنا نہیں ہے بلکہ انصاف کو
برقرار رکھنا ہے اور انصاف کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ انصاف کی فراہمی
میں تاخیر جیسی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ صرف عدالت کے کام یا نظام کی کمی
کی وجہ سے انصاف میں تاخیر نہیں ہوتی۔ بہت سے مواقع پر مدعی اور مدعا علیہ
اس کو حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ مسلسل مقدمات کی کاروائیوں کو
ملتوی کرانے کا سہارا لے کر قوانین اور طریقہ کار وغیرہ میں موجود کمیوں کی
بنیاد پر مقدمے کی طوالت جاری رکھتے ہیں۔ عدلیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ
عدالتی کارروائی اور طریقہ کار میں موجود ان کمیوں کو دور کرنے میں چوکس
رہتے ہوئے فعال کردار ادا کرے۔
۱۲/ عدالتی نظام قومی اور بین اقوامی سطح پر کی جانے والی جدت طرازیوں کو
اپنا کر اور بہترین طریقوں کے اشتراک سے حاصل کیا جاسکتا ہے اس پر عدالت
اور پارلیمان مل بیٹھ کر بہترین طریقوں کو نافذ کرنے میں اپنا موثر کردار
ادا کریں
|