سندھ کے دوسرے بڑے شہر، حیدرآباد میں 2014 میں یونیورسٹی
قائم کرنے کے اعلان کیا گیا تھا سب نے ہی خیر مقدم کیا تھا اور کرنا بھی
چاہئے تھا۔ اس شہر کی یہ ضرورت بھی تھی اور دیرینہ مطالبہ بھی تھا اور اس
شہر کے یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ ضیاء کے دور سے ہی اُٹھتا رہا مگر آج
2023 کی شروعات ہوگئی مگر کسی حکمراں کے ادوار میں یونیورسٹی و میڈیکل و
انجینیرنگ کالج کی افتتاح کی بازگشت تو سنائی دیں مگر کسی حکمران اور کسی
سیاسی جماعت نے اس خواب کو اور حیدرآباد کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ آج تلک
پورا نہ کیا سننے والا کوئی نہیں تھا۔ نظرانداز کرنے والے وہ سب جو صاحبان
اقتدار و اختیار ہیں۔ کسی کا ارشاد تھا کہ یونیورسٹی ان کی لاش پر ہی بن
سکتی ہے۔ تعلیم سے اتنا بغض، اور اس کا بے محابہ اظہار، ناطقہ سر بگریباں
ہے اسے کیا کہیے۔ ایسے میں یہ اعلان ہواکہ حیدرآباد میں یونیورسٹی قائم کی
جائے گی۔ بہت سے دلوں میں امید کی کونپلیں پھوٹیں، بہت سے دل جلوں کے
ارمانوں پہ اوس پڑ گئی۔ اور پھر یہ اُمیدیں مایوسی میں بدل گیں اور ارمانوں
کی روشنی مدہم ہوگیں جبکہ یونیورسٹیاں جو درس وتدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق
جامعات کی بنیادی ذمہ داری اورمیدانِ خاص ہے۔ تحقیق کا اظہار جدت
اوراختراعات کے لیے ہوتا ہے، جامعات اس میں نمایاں کردارادا کرتی ہیں۔
عموماً یہ طنزسننے میں آتا ہے کہ جب برصغیرمیں تاج محل بن رہا تھا اس وقت
انگلستان میں جامعات کی بنیاد ڈالی جا رہی تھی۔ بے شک حقیقت یہی تھی لیکن
ہماراعلم درس گاہوں سے نکل کر اس سطح پر آچکا تھا کہ اس کا اظہار دنیا کے
منفرد عجوبے تاج محل کی صورت میں رونما ہو رہا تھا.اسہی طرح کا حال
حیدرآباد شہر کے ساتھ پیچھلے اور حالیہ حکمرانوں کی توسط سے جاری و ساری ہے
جبکہ سندھ کے بعض دوسرے شہروں و دیہاتوں میں یہ اچھا کام کیا گیا کہ وہاں
یونیورسٹیاں و میڈیکل اور انجینیرنگ کالج قائم کردی گئے ہیں اور ان میں درس
و تدریس کا کام بھی شروع ہوگیا ہے.افسوس کی بات بھی قابل ذکر ہے کہ سندھ کے
دوسرے بڑے اور تاریخی شہر حیدرآباد سے ایم کیوایم تین دہائیوں سے مسلسل
انتخابات جیت کر صوبائی اور قومی اسمبلی میں پہنچ رہی ہے ۔ اس کے علاوہ شہر
میں اسی جماعت کا میئر منتخب ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اس کے باوجود متحدہ قومی
موومنٹ حیدآباد میں اعلی تعلیم کی درسگاہ بنانے میں ناکام رہی ۔ ایم کیوایم
نے اپنے انتخابی منشور میں ہمیشہ یونیورسٹی کی تعمیر کرنے کا اعلان کیا اور
اس کو اپنی سیاست کا محور بھی بنایا حیدرآباد کے باسیوں نے ان کو ایوانوں
تک ان ہی نعروں سے انہیں پہنچایا تاہم حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے. جنرل
پرویزمشرف کے دور میں متحدہ قومی موومنٹ کو جتنے اختیارات اور وسائل مہیا
کیے گئے اس میں ایک عالمی سطح کی بہترین جامعہ کا قیام کوئی مشکل کام نہیں
تھا ، حیدرآباد کے شہری بالعموم اور طلبہ و طالبات با لخصوص کا ماننا ہے کہ
ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی ، کنور نوید ، انیس قائم خانی پیپلز پارٹی
کے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نوید قمر، مولا بخش چانڈیو، شہلا رضا ،
ان گنت سیاسی ، مذہبی و سماجی لیجینڈ افراد کا بیشتر کا تعلق ان کا اس ہی
شہر سے کسی بھی حوالے قائم رہا مگر انہوں نے کبھی سنجیدگی سے حیدرآباد میں
یونیورسٹی ، میڈیکل و انجینیرینگ کالج کی تعمیر کی جانب حکمرانوں پر کبھی
سنجیدگی سے اس طرف لانے کبھی کوشش ہی نہیں کی اور اس کی تعمیرات کے لیے ایک
ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا
اس ہی طرح جب 23 فروری 2013 کو گورنمنٹ کالج حیدراآباد میں ایک پر وقار
تقریب منقعد کی گئی جس کے مہمان خصوصی اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف
تھے۔ راجہ پرویز اشرف نے خود بھی اسی کالج سے تعلیم حاصل کی ہے۔ تالیوں کی
گونج میں راجہ پرویز اشرف نے کالج کی تعمیروترقی کے لیے کروڑوں روپے کا
اعلان کیا تو طلباء نے نعرے لگانا شروع کر دیے پرنسپل نے وزیر اعظم کو
بتایا کہ طلبہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے جوں ہی یونیورسٹی کا اعلان کرنے کے لیے ڈائس کے جانب بڑھے تو
اس وقت کے پیپلز پارٹی کے متعصب صوبائی وزیرتعلیم پیر مظہرالحق نے ڈائس پر
جا کر وزیراعظم کے کان میں کچھ کہا ۔ جس کے بعد راجہ پرویز اشرف خاموشی سے
اپنی نشست پر آکر بیٹھ گئے ۔ یوں حیدرآباد کے شہریوں اور طلبہ کے دیرینہ
مطالبہ پھر سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا.
افسوس کی بات یہ ہے یونیورسٹی کی مخالفت کرنے والوں کا "مائنڈ سیٹ " کوئی
نہیں سمجھ سکا، یہ کون سی بدبودار ذہنیت ہے جو یونیورسٹی بنانے کی مخالفت
کر رہی ہے اور وہ بھی اس کمپیوٹر دور میں جب ایتھوپیا ، کانگو، صومالیہ،
اریٹیریا ، کینیا جیسے پسماندہ ان افریقن ممالک میں بھی جو دہشت گردگی و
سیاسی چپقلش سے درسگاؤں کو نشانہ بنا کہ کئی دہائیوں اندرونی خانہ جنگی ملک
سے اور دنیا بھر سے بھی کنارہ کش رہے کئ دہائی خانہ جنگی کے بعد اب ان کی
اسٹیبلیشمنٹ اور سیاسی و سماجی تنظیمیں اس نتیجے پر پہنچی کے درسگاؤں اور
جامعات کو تعصب کی نظر سے دیکھنے پر یہ ملک جہالت، غربت ، مفلسی ،
پسماندگی، کثرت سے آبادی کا بڑھنا ، بیروزگاری اور خانہ جنگی سے یہ دوچار
مُلک تعلیم سے تعصبات کی بنا پر یہ ملک آج اس مقام پر پہنچے اب جو نقصان
ہوا اس کا ازالہ کے لیے اب تمام اسنیک ہولڈر ہر شہر میں درسگاؤں اور جامعات
کا جال بیچھارہے ہیں اور یہ ایک ہمارا ایٹمی ریکٹر ملک چند متعصب لوگوں ملک
دشمن سیاسی جماعتوں کے چنگل کی بلیک میکنگ سے نکلنا ہوئیگا اور حیدرآباد
میں پروفیشنل اداروں کا قیام لازم پایہ تکمیل کی جانب گا گامزن ہوئیگا. |