یلغار پریشد سے شرمسار کون اور کیوں ؟

مہاراشٹر میں پونے سے قریب بھیما کورے گاوں کے اندر جئے استمبھ پر اس سال بھی 31؍ دسمبر کو لاکھوں لوگوں نے مہار ریجمنٹ کی دلیری کو خراجِ عقیدت پیش کیا ۔ اس طرح یہ بات ثابت ہو گئی کہ دیویندر فڈنویس کے دوبارہ وزیر داخلہ بن جانے کے باوجودان کی پانچ برس قبل رچی جانے والی خوفزدہ کرنے کی ناپاک سازش بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ فسطائی طاقتوں نے اقتدار کے بل بوتے پر اپنی تاریخی ناکامی کو چھپانے کی خاطر تشدد بھڑکا کر بے قصور لوگوں کو گرفتار تو کر لیا مگر وہ حریت پسند عوام کو ڈرانے دھمکانے کے اپنے منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔آگے بڑھنے سے قبل اس تاریخ پر ایک نظر ڈال لینا ضروری ہے جس کی پردہ پوشی کے لیے سنگھ پریوار نے اتنا بڑا کھڑاگ رچا۔ مہاراشٹرکے اندر بھیما ندی کےشمالی کنارے پر کورے گاؤں بھیما نام کا ایک گاوں واقع ہے۔ یکم جنوری 1818ء میں اس گاوں کے اندر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا تصور بھی کرنا ہندوستان کے برہمنوں کے لیے محال تھا۔ اس واقعہ کا جشن منانے کی خاطر نسلی امتیاز کے دشمن وہاں ہر سال جمع ہوتے ہوکر برہمنوں کو شرمسار کرتے ہیں ۔

مشرق وسطیٰ سے گنگا کی وادی میں آنے والے آریہ نسل کے حملہ آوروں نے اس ملک کے اصلی باشندوں کو پہلے تو جنوبی ہندوستان میں ڈھکیلنے کی کوشش کی لیکن جن لوگوں نے اپنی زمین چھوڑنے سے انکار کیا انہیں ورن آشرم کا ظالمانہ نظام قائم کرکے شودر اور اچھوت بنادیا ۔ نسلی امتیاز کے اس نظام کو قائم کرنے والے برہمن بغیر محنت و مشقت کے کشتریوں کی تلوار کے بل بوتے پر عیش کرنے لگے۔ ویش تجارت کرتے اور کشتری ان سے محصول وصول کرکے فوج کشی کرتے۔ برہمن ان بکھیڑوں سے دور پوجا پاٹ کرکے مزے اڑاتا ۔ یہ تینوں نام نہاد اونچی ذات کے طبقات مل جل کر محنت کش شودروں کا استحصال کرتے اور ان سے اپنی خدمت کرواتے ۔ تقریباً پانچ ہزار سالوں تک یہ ظالمانہ رواج جاری و ساری رہا ۔ گوتم بدھ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی تو ان کے ماننے والوں کوملک بدر کرکے ان کی عبادتگاہوں کو مسمار کردیا گیا ۔ گاندھی جی نے اصلاح کی کوشش کی تو ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اب تو انہیں در پردہ ملک کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا جارہا ہے۔

وطن عزیز میں شودروں کو صدیوں تک تعلیم اور فوج سے دور رکھا گیا ۔ مسلم بادشاہوں کی ملک میں آمد کے بعد ان کے لیے تعلیم کے دروازے کھولے گئے ۔ ان مظلوم طبقات میں سے ایک بڑی تعداد مشرف بہ اسلام ہوگئی ۔ اسلام کے سبب ذات پات کے نظام سے نجات پانے کے بعد ان پر فوج اور دیگر فنی مہارت کے دروازے بھی اپنے آپ کھل گئے۔ انگریزوں نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا ۔ مسلمان چونکہ انگریزی سامراج کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے میں پیش پیش تھے اس لیے انہوں نے شودروں کو اپنی فوج میں شامل کرکے مہار رجمنٹ کو منظم کیا۔ بھیما کورے گاوں کے اندر انگریزی فوج کے 500 سپاہیوں کا پیشوا باجی راؤ دوم کے 28000 فوجیوں کے سا تھ معرکہ پیش آیا ۔ انگریزوں کےمحض 500 فوجیوں میں 450 مہار (اچھوت) تھے اورا ن لوگوں نے پیشوا کی طاقتور فوج کو شکست د ے دی۔ان فوجیوں کو ان کی بہادری اور جرأت پر اعزاز دیا گیا۔برطانوی ریزیڈینٹ کی سرکاری رپورٹ میں ان فوجیوں کے نظم و ضبط اور ان کی ہمت و ثابت قدمی کی تعریف کی گئی۔ اس جنگ کی اہمیت یہ تھی کہ اس نے نہ صرف پیشوا سلطنت کے خاتمہ میں مدد کی بلکہ اچھوت مہاروں کو اپنی بہادری دکھانے اور ذات پات کی پابندی کو توڑنے کا موقع دیا۔

مہاراشٹر کا برہمن اس شرمسار کرنے والی تاریخ کو بھلا دینا چاہتا ہے مگر دلت فخر سے اسے یاد رکھتا ہے اور اسی لیے ہرسال 31؍ دسمبر کو یلغار پریشد کا اہتمام کیا جاتا ہے۔2017 میں اس لڑائی کی 200 ویں سالگرہ کا اہتما م بڑے زور و شور سے کیا گیا ۔ اس وقت چونکہ دیویندر فڈنویس جیسا برہمن وزیر اعلیٰ مہاراشٹر پر حکومت کررہا تھا اس کی شئے پر پونے شہر کے مراٹھوں نے اگلے دن فساد برپا کردیا ۔ اس کے بعد فسادیوں کو سبق سکھانے کے بجائے اس کا فائدہ اٹھاکر سنگھ پریوار نے اپنے نظریاتی حریفوں سے انتقام لینا شروع کر دیا ۔ ان بے قصور لوگوں کے لیے ’اربن نکسل ‘ کی اصطلاح گھڑی گئی ۔ ان پر فساد بھڑکانے کے علاوہ راجیو گاندھی کے طرز پر وزیر اعظم نریندر مودی کے قتل کی سازش کا الزام بھی لگا دیا گیا۔ آگے چل کر ا سی حکمت عملی کا دہلی میں اعادہ کیا گیا ۔ شمال مشرقی دہلی میں کپل شرما کی مدد سے فساد بھڑکاکر اس کی آڑ میں این آر سی اور سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے والے عمر خالد اور خالد سیفی جیسے بے شمار نوجوانوں کو ملک سے بغاوت کے الزام میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار کرلیا گیا ۔

31؍ دسمبر2017 کی یلغار پریشد کے بعد بھیماکورے گاؤں میں تشدد کے واقعات کی جانچ کے بہانے جون2018 میں دلت کارکن سدھیر دھاؤلے کو ممبئی میں ان کے گھر سے جبکہ وکیل سریندر گاڈلنگ، سماجی کارکن مہیش راؤت اور شوما سین کو ناگپور سے اور رونا ولسن کو دہلی میں ان کے فلیٹ سے گرفتار کیا گیا ۔ اس کے بعد اگست میں پونے پولیس نے دہلی میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے صحافی گوتم نولکھا اور سدھا بھاردواج کو حراست میں لیا۔ ان کے علاوہ حیدر آباد میں قلمکار اور سماجی کارکن پی وراورا راؤ، ممبئی میں سماجی کارکن ویرنان گونزلویس ، سزین ابراہم، صحافی کرانتی ٹیکولہ اور ارون فریرا، رانچی میں سماجی کارکن فادر اسٹین سوامی کے گھروں کی تلاشی لی ہے۔گوا میں سماجی کارکن اور قلمکار آنند تیلتمبڈے کے گھر پر بھی پولیس تلاشی کے لئے پہنچی ۔ آگے چل کر ان سب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا گیا ۔ پنچ نامہ کے مطابق ان پر آئی پی سی کی دفعہ153اے ،117,505اور120 کے ساتھ ہی غیرقانونی سرگرمی (روک تھام) قانون یعنی یو اے پی اے کی مختلف دفعات کے تحت بھی معاملہ درج کیا گیا ۔

مہاراشٹر پولیس کی بائیں بازو کے کارکنان کی گرفتاری کو کئی وکیلوں، مفکروں اور قلمکاروں نے خوف وہراس میں مبتلا کرنے والی کارروائی قرار دے کر ایمرجنسی کی یاددلانے والا واقعہ بتایا ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزی کیٹیو ڈائرکٹر آکار پٹیل نے کہاکہ یہ گرفتاریاں ہیومن رائٹس کارکن ، وکیلوں ، صحافیوں اورحکومت کے ناقد ین کے خلاف کارروائی ہے ۔ یہ تمام لوگ ہندوستان کے غریب اور حاشیہ برداروں کے حقوق کی حفاظت کرنے والے لوگ ہیں ۔ ان کی گرفتاریوں سے بے چین کرنے والے سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا انہیں ان کے کام کے لئے نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ ‘آکسفیم انڈیا کے سی ای او امیتابھ بیہر نے کہاکہ یہ گرفتاریاں معمول سے ہٹ کر ہیں ۔ حکومت کو ڈر کا ماحول بنانے کے بجائے اظہار کی آزادی اور پر امن طورسے جمع ہونے والے لوگوں کے حقوق کی حفاظت کرنی چاہیے۔ حکومت پر برملا تنقید کا یہ نتیجہ نکلا کہ ایمنسٹی کو اپنا دفتر بند کرنے کے لیے مجبور کردیا گیا اور آکسفیم کی ہر رپورٹ کو حکومتِ وقت نے غیر حقیقی یا ملک کو بدنام کرنے والی کارروائی قرار دے کر جھٹلا دیا۔
ملک بھر میں ان گرفتاریوں کے خلاف مختلف سماجی تنظیموں کی جانب سے زبردست مظاہرے اور پرزور احتجاج ہوا ۔ اس میں گرفتار کارکنوں کو بغیر کسی شرط کے جلد از جلدرہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔ دہلی میں مہاراشٹر بھون کے سامنے مظاہرین نے الزام لگایا کہ ان لوگوں کوغلط مقدمہ میں پھنسایا گیا ہے اور یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے۔اس احتجاج میں سماجی کارکنوں کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی شرکت کی ۔اس موقع پر مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کی خدمت میں میمورنڈم بھی پیش کیا گیا مگر حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔ اس اثناء میں گودی میڈیا نے گرفتار شدگان کو بدنام کرنے کی خاطر نت نئے جھوٹ گھڑ کر انہیں مرچ مسالہ کے ساتھ پیش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا تو اس نے 5؍انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاری کے معاملے میں ٹرانزٹ ریمانڈ پر روک لگاتے ہوئے انہیں اگلے حکم تک گھر میں نظربند رکھنے کی ہدایت دی اورمہاراشٹرا حکومت سے جواب بھی طلب کیا ۔سپریم کورٹ نے ان گرفتاریوں پر تلخ تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اختلاف جمہوریت کیلئے سیفٹی والو کی طرح ہے ۔اگر اسے دبایا گیا تو کوکر پھٹ بھی سکتا ہے لیکن آگے چل عدالتِ عظمیٰ نے بھی گھٹنے ٹیک دیئے اور گرفتار شدگان میں سے بیشتر لوگ ہنوز جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ عدلیہ کی سرد مہری پر ان بے قصور قیدیوں کی زبان پر امیر قزلباش کا یہ شعر ہے؎
اسی کا شہر ، وہی مدعی ، وہی منصف
ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا
(جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1453405 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.