پھولوں کے روڈ شو سےچھالوں کی یاترا تک

وزیر اعظم نریندر مودی نے دہلی میں ایک روڈ شو کیا۔ دہلی کے بلدیاتی انتخاب سے قبل اگر یہ تماشا ہوتا تو کسی کوحیرت نہیں ہوتی کیونکہ گجرات اور ہماچل پردیش کی انتخابی مہمات میں یہ ہوتا رہا ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ کے مطابق یہ گجرات کی جیت کا جشن ہے۔ یہ دعویٰ اگر درست ہے تو اسے احمد آباد میں ہونا چاہیے تھا ۔ اس کی کیا تُک ہے کہ گجرات کی جیت کا جشن دہلی میں منایا جائے اور دہلی کی ہار کا ماتم گجرات میں کیا جائے ؟ بی جے پی کی اس حرکت پر وزیر اعظم کی ایوان پارلیمان میں دی جانے والی ایک پرانی تقریر یاد آتی ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مرکزی حکومت کے خلاف ملک کا کسان دہلی کی سرحد پر ڈیرہ ڈال کر بیٹھا ہوا تھا ۔ وہ ایک کالے قانون کی مخالفت کررہا تھا اور حکومت اس تحریک کو توڑنے کی خاطر نت نئے ہتھکنڈے استعمال کررہی تھی۔ ان میں یوم جمہوریہ کے موقع پر لال قلعہ پر ترنگا کے بجائے نشان صاحب لہرانا بھی شامل تھا۔ خیر اس دوران وزیر اعظم نے ایوان پارلیمان میں جو کچھ کہا تھا وہ ان کی دہلی کے روڈ شو کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔

وزیر اعظم نے فرمایا تھا ملک کی جمہوریت کے فروغ میں تحریکات کی اہمیت ہے۔ اس کو یوں سمجھیں کہ ملک کی ترقی کے لیے روڈ شوز اور یاترائیں اہم ہیں۔ ان کے خیال میں کسان تحریک پوتر(پاک) تھی لیکن آندولن جیوی (تحریک پر گزارہ کرنے والے) لوگوں نے اس مقدس تحریک کو اغواء کرکے اس میں ایسے لوگوں کی تصاویر لگا کر جو خطرناک جرائم میں جیل کے اندر بند ہیں تحریک کو ناپاک کردیا تھا ۔ روڈ شو کو بھی اگر تحریک سمجھا جائے تو یہی کام وزیر اعظم کررہے ہیں۔ انہوں نے اس کو انتخاب جیتنے کا آلۂٔ کار بنا رکھا ہے۔ ان کے روڈ شوز کا عوامی فلاح و بہبود سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ان میں جو سیاسی رہنما یا امیدوار ہمراہ ہوتے ہیں وہ خود اپنے حلف نامہ میں قتل و غارتگری سے لے کر عصمت دری تک کے الزامات کا اعتراف کرتے ہیں ۔ ابھی حال میں ایسے ہی ایک مجرم اور اترپردیش میں بی جے پی کے سابق رکن اسمبلی کلدیپ سینگر دہلی کی ایک عدالت نے ضمانت دی ہے۔ اس طرح کے لوگوں کو کامیاب کرنے کے لیے روڈ شو کرنا مقدس تحریک کا اغوا کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟

ایوانِ پارلیمان کے اندر اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ آندولن کاری اور آندولن جیوی کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔ آندولن کاری تو کسی اہم مقصد کی خاطر جدوجہد کرنے والے مظاہرین ہیں مگر آندولن جیوی کی اصطلاح ان کاتمسخر اڑانے کی خاطر ایجاد کی گئی ہے۔ اس کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ ایسے لوگ ہیں جنہووں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اور جیل میں بند مجرمین کو چھڑانے کے لیے کسان تحریک کو یرغمال بنالیا ہے۔ اول تو یہ الزام غلط تھا لیکن اگر درست مان لیا جائے تو یہی بات وزیر اعظم کے روڈ شوز پر بھی صادق آتی ہے۔فی زمانہ قوم کی خدمت کے جذبے سے نہ انتخاب لڑا جاتا ہے اور نہ جیتا جاتا ہے۔ انتخاب لڑنے کا اولین ہدف اقتدار میں آکر سرکاری خزانے پر عیش و عشرت کی زندگی گزارنا ہوتا ہے(الا ماشاءاللہ) ۔ اس لیے یہ بھی ایک ذاتی مفاد کے حصول کی خاطر لڑی جانے والی جنگ ہی ہےجس کو ایک مقدس چولہ اوڑھا دیا گیا ہے۔ الیکشن کی بدولت کئی مجرم پیشہ لوگ ایوان پارلیمان میں براجمان ہیں اور زیڈ پلس سیکیورٹی سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

آندولن جیویوں کے بارے کہی جانے واالی یہ بات کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ایک تحریک سے دوسری تحریک میں کودتے رہتے ہیں موجودہ سیاستدانوں پر پوری طرح صادق آتی ہے۔ ایسے لوگ تمام جماعتوں میں ہیں ۔ ان کی سب سے بڑی تعداد بی جے پی میں یا اس کے حامیوں کے اندر موجود ہے۔ یہ کھیل انتخاب سے قبل اور بعد میں کھیلا جاتا ہے۔ بی جے پی جب یہ محسوس کرتی ہے کہ اپنے لنگڑے گھوڑوں کی مدد سے الیکشن نہیں جیتنا مشکل ہے تو مخالفین کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر اپنی پارٹی میں شامل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وزیر اعظم بلا تفریق و امتیاز ایسے ابن الوقتوں کے لیے بھی روڈ شوز کرکے انہیں کامیاب کرنے کی سعی فرماتے ہیں۔ اس حربے کی نا کامی کے بعد مخالف جماعتوں کے موقع پرستوں کو خریدا جاتا ہے۔ اس بدنام زمانہ کھیل کا خوبصورت نام آپریشن لوٹس ہے۔ اس کے ذریعہ مدھیہ پردیش، کرناٹک اورمہاراشٹر جیسی کئی ریاستوں میں بی جے پی نے اپنی حکومت قائم کررکھی ہے۔ کیا ذاتی مفاد کی خاطر اپنی وفاداری فروخت کرنا کوئی خیر کا کام ہے؟ اور کیا اس کے لیےخود کو فروخت کرنے والے کے ساتھ اسے خریدنے والا برابر کا حصے دار نہیں ہے؟ اس سوال پر وزیر اعظم اور ان کے اندھ بھگتوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں آندولن کاری اور آندولن جیوی کے درمیان فرق کرنے کی تلقین فرمائی تھی ۔ اب وقت آگیا ہے کہ راہل گاندھی کی پدیاترا اور وزیر اعظم کے روڈ شو میں فرق کیا جائے۔ وزیر اعظم کا روڈ شو تو چند منٹوں کا تھا کیونکہ انہیں پٹیل چوک سے سنسد مارگ پر واقع جئے سنگھ روڈ جنکشن تک جانا تھا مگر اس کے لیے دوپہر سے لے کر شام پانچ بجے تک یہ سڑک بند کردی گئی۔ اس سڑک کے علاوہ آس پاس کی سڑکوں مثلاً بابا کھڑک سنگھ مارگ، آوٹر سرکل کناٹ پلیس ، شنکر روڈ ، منٹو روڈ کے ساتھ ساتھ مندر مارگ جانے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ اس کے علاوہ بارہ کھمبا روڈ، پنچکونیاں روڈ، رائےسینا روڈ، ٹالسٹائی روڈ ، جن پتھ، فیروز شاہ روڈ ، رفیع مارگ ، رانی جھانسی روڈ، چیلمس فورڈ روڈ، بھائی ویر سنگھ مارگ، ڈی ڈی یو مارگ ، فلائی اوور تالکٹورہ روڈ اور پنڈت روڈ کے استعمال سے گریز کرنے کا مشورہ دیا گیا ا۔ جن پتھ سے پارلیمنٹ اسٹریٹ ، ریل بھون سے پارلیمنٹ اسٹریٹ کے علاوہ جنتر منتر روڈ اور بنگلہ صاحب لین پر آمدو رفت پوری طرح بھی بند کردیا گیا نیزریل بھون، گردوارہ رکاب گنج ، گول ڈاک خانہ، جنتر منتر روڈجنکشن، سنسد مارگ جنکشن ، کے جی مارگ جنکشن پر بھی ٹرافک موڑ دیا گیا۔

ایک کلومیٹر کے روڈ شو کی خاطر جتنی سڑکیں بند کی گئیں اتنی تو راہل گاندھی کے تین ہزار کلومیٹر کی یاترا کے لیے بھی نہیں ہوئی ہوں گی۔ بی جے پی والے راہل کو شہزادہ یا یووراج کہہ کر پکارتے تھے لیکن اس اہتمام نے بتادیا کہ خود چوکیدار کہلانے والے سمراٹ کی خاطر کیسا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اتوار کے دن اس دفتری علاقہ میں آمدو رفت بہت کم ہوتی ہے اس لیے اگر یہی رو ڈ شو ایک دن قبل کیا جاتا تو عوام کو بہت کم دقت ہوتی لیکن اسے ہفتے کےپہلے دن ر کھا گیا۔ اس دن سب سے زیادہ لوگ اپنے دفاتر اور کاروبار کے لیے نکلتے ہیں۔ سیاستدانوں کے لیے تو ہر دن اتوار ہے اور وزیر اعظم کے پاس بھی فرصت ہی فرصت ہے۔ عوام کو اس میں ویسے بھی شریک ہونا نہیں تھا اور بھگتوں کا کیا ہے وہ تو مودی جی کے لیے کسی بھی دن ماونٹ ایورسٹ پر چڑھ سکتے ہیں۔ دن کا غلط انتخاب ظاہر کرتا ہے کہ اس سرکار کو عوامی مشقت کی کوئی پروا نہیں ہے ۔ اس روڈ شو کے لیے جیوتش نے اگر یہی مہورت نکالا تھا تو اسے قلبِ دہلی کے بجائے کسی سنسان علاقہ میں کیا جاتا کیونکہ اس کے بعد بی جے پی کی مجلس انتظامیہ کہیں بھی ہوسکتی تھی۔

وزیر اعظم کو اس روڈ شو کا مشورہ دینے والے سے یہ غلطی ہوگئی کہ اس کا اہتمام ایک ایسے موقع پر کیا گیا جس سے لوگوں نے اس کا راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے موازہ کرنا شروع کردیا ۔ مودی جی کی علامتی چہل قدمی کے تعلق سے ہر کوئی جانتا ہے کہ اس کا تعلق دہلی سے نہیں تھا بلکہ سارے ملک کو یہ بتانا تھا کہ وہ بھی راہل گاندھی کی مانند سڑک پر اتر کر چل سکتے ہیں ۔ اسی لیے سارے ٹیلی ویژن چینلس نے اسے لائف (براہ راست) دکھایا ۔ راہل کی ہزاروں کلومیٹر کے سفر سے زیادہ اس کی پذیرائی ہوئی ۔ اس کو دیکھ کر مشہور قوالی کا یہ مصرع یاد آتا ہے’سنسار میں باجے ڈھول یہ دنیا میری طرح ہے گول یہ پیسا بولتا ہے‘۔ راہل اور مودی کے سڑک پر چلنے میں بنیادی فرق مقصد کا ہے۔ بی جے پی ایکزیکٹیو میٹنگ عوامی مسائل جیسے مہنگائی،بیروزگاری اور عدل وانصاف وغیرہ پر غوروخوض کے لیے نہیں بلکہ اس سال منعقد ہونے والے صوبائی انتخابات کی حکمت عملی بنانے کے لیے تھی ۔ ایک الیکشن جیوی پارٹی سے یہی توقع ہے کہ اس کی نشست میں نفرت اور خوف پھیلا کر اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے پر سب سے زیادہ غوروخوض ہوا ہوگا۔ اس کے برعکس بھارت جوڑو یاترا کا مقصد ملک سے نفرت مٹاناہے۔ ایک فرق یہ بھی ہے کہ ہر روڈ شو میں اقتدار کی دیوی مودی جی کے سر پر پھول برساتی ہے جبکہ راہل کی یاترا پیروں کے چھالوں سے پھول کھلاتی ہےلیکن نفرت کے خلاف محبت کا یہ سفر طویل اور دشوار گزار ہے ۔ اس لیے بھارت جوڑو یاترا کے عازمین کو اعجاز رحمانی کا یہ شعر یاد رکھنا چاہیے؎
ابھی سے پاؤں کے چھالے نہ دیکھو
ابھی یارو سفر کی ابتدا ہے


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1218433 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.