سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی نہ ہونے کی باتیں
غلط ہیں ٹھپے لگانے کی واضح ویڈیوز موجود ہونے کے باوجود کسی قسم کی
کاروائی نہیں کی گئی ہیں مگر اسکے باوجود سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا
انعقاد انتہائی خوشگوار رہا اور اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن مبارکباد کا
مستحق ہے رہی بات دھاندلی اور غنڈہ گردی کی وہ ہماری ریت اور روایت بن چکی
ہے جس الیکشن میں مار کٹائی اور ٹھپے نہ لگیں وہ الیکشن ہی نہیں سمجھا جاتا
ویسے تو ہمارا کوئی بھی الیکشن جعل سازی سے پاک نہیں ہوتا جھوٹ کی بنیاد پر
لڑا جانے والا الیکشن کبھی بھی خوشحالی اور ترقی نہیں لاتا بلکہ لوٹ مار کا
ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کیونکہ ہر امیدوار لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں
روپے الیکشن میں جھونک دیتا ہے اور پھر گوشواروں میں ہیراپھیری کرتے ہوئے
سب کا کھاتا برابر کردیتا ہے الیکشن کمیشن کو بھی معلوم ہوتا ہے اور باقی
سب اداروں کو بھی ایک ایک بات کا علم ہوتا ہے مگر اس پر کاروائی کسی طرف سے
اس لیے نہیں ہوتی کہ یہ سلسلہ کونسا نیا ہے خیر سے الیکشن ہو گئے یہی کافی
ہے اب نئے اور پرانے لوگ ایک نیا اتحاد بنا کر مقامی حکومت کا کنٹرول
سنبھالیں گے اگر تو جماعت اسلالمی پیلز پارٹی کے ساتھ ملکر حکومت میں آتی
ہے تو پھر کچھ نہ کچھ اختیارات مل جائیں گے اگر جماعت اسلامی پی ٹی آئی کے
ساتھ ملکر مقامی حکومت کا حصہ بنتی ہے تو پھر وہی کل کلیان پڑی رہے گی جو
آج سے پہلے تھی سندھ میں اگر بلدیاتی الیکشن کے بعد بننے والی صورتحال کا
جائزہ لیا جائے تو کراچی کے 7 اور حیدرآباد کے 9 اضلاع میں بلدیاتی
انتخابات ہوئے ان انتخابات میں چند مقامات کے علاوہ پولنگ کا عمل پرامن رہا
کہیں بھی کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا اس دوسرے فیز میں سندھ کے 16اضلاع
شامل تھے جن میں کراچی ڈویژن میں 17اضلاع حیدر آباد ڈویژن میں 19اضلاع تھے
اس میں 3600کانسٹیٹیویز ہیں جن میں یونین کمیٹیز ، میونسپل کمیٹیز ، ٹاؤن
کمیٹیز شامل ہیں کراچی میں 246یونین کمیٹیز ہیں ہر یونین کمیٹی میں 5حلقے
بنائے گئے ہیں یعنی 4ورارڈ اور ایک چیئرمین اور وائس چیئرمین کا جوائنٹ
پینل ہے اس طرح کل کا نسٹیٹیوسیز 1230کراچی میں بن رہی ہیں صوبائی اسمبلی
کی 130نشستیں ہیں ، قومی اسمبلی کی 61نشستیں ہیں، ٹوٹل حلقے 191ہیں، 17اضلع
میں ڈسٹرکٹ ریٹینل اپائنٹ کیا ہے باقی فیز میں مختلف ڈیپارٹمنٹس میں اسسٹنٹ
کمشنر اور مختلف وفاقی وصوبائی اداروں میں مختلف افسران لئے گئے بلا شبہ
لوکل گورنمنٹ الیکشن بڑی ایکسرسائز ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے احسن
طریقے سے اپنی آئینی ذمہ داری نبائی نتائج میں تاخیر پر وضاحت کی گئی کہ
آراوز کے پاس رزلٹ تیارہورہے ہیں سب سے پہلے فارم 11اور12بنتا ہے آراوز کے
پاس تقریباً5سے 6یونین کونسل تھیں الیکشن کے بعد تازہ ترین صورتحال کے
مطابق شہر قائد میں بلدیاتی انتخابات میں پیپلزپارٹی کو 93 یو سیز پر
کامیابی پر 32 خواتین کی نوجوانوں کی 5، لیبر کی 5 اقلیت کی 5 ایک معذور
ایک خواجہ سرا کی مخصوص نشست ملے گی جسکے بعد پیپلز پارٹی 235 الیکشن کے
ایوان میں 142 ارکان کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہوگی جماعت اسلامی کو 86
نشستیں جیتنے پر خواتین کی 32، لیبر کی 5، اقلیت کی 5، نوجوانوں کی 5 ایک
خواجہ سرا اور ایک معذور کی نشست ملے گی جماعت اسلامی 133 ارکان کے ساتھ کے
ایم سی میں دوسرے بڑی جماعت ہوگی اسی طرح پاکستان تحریک کو 40 نشستوں پر
خواتین کی 14، نوجوانوں کی 2، لیبر کی 2 اقلیت کی 2 جبکہ ایک مخصوص نشستیں
ملے گی۔ تحریک انصاف مخصوص نشستوں کے ایوان 60 کے ساتھ تیسری بڑی جماعت
ہوگی کے ایم سی قائد ایوان کے لئے 184 نمبرز درکار ہیں جماعت اسلامی اور پی
ٹی آئی دونوں جماعتوں کی اراکین کی تعداد ملکر 193 بنتی ہے اس الیکشن کی
صورتحال پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ
جماعت اسلامی کے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکے کے خلاف خلاف شدید مزاحمت کی جائے گی
ہم سادہ اکثریت کی جانب جا چکے ہیں لیکن ہماری واضح اکثریت کو کم کرنے کے
لیے آر اوز کے دفاتر میں نتائج تبدیل کیے گئے 95 یوسی میں ہمارے امیدواروں
کے فارم 11 اور 12 ہمارے پاس موجود ہیں لیکن ان میں سے 9یوسیز کے نتائج میں
آر او آفس میں سازش کے ذریعے غلط اعلان کر کے ہمیں ہارا ہوا ظاہر کیا گیا
ہے ان یوسیز میں اورنگی ٹاؤن کے یوسی نمبر 8,7,6,3 منگوپیر معمار یوسی 12،
گلشن اقبال یوسی 1، مومن آباد یوسی 3اورماڈل کالونی یوسی 8،یوسی 1
صفوراٹاؤن شامل ہیں اس کے علاوہ 10یوسیز میں ہم نے دوبارہ گنتی کی درخواست
بھی الیکشن کمیشن میں جمع کرا دی ہے اسکے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن آف
پاکستان نے مالیاتی گوشوارے جمع نہ کرانے پر 271اراکین پارلیمنٹ و صوبائی
اسمبلیوں کی رکنیت معطل کر دی جن میں قومی اسمبلی کے 136 اور سینیٹ کے
21سینیٹرز شامل ہیں سندھ اسمبلی کے 48، خیبرپختونخوا اسمبلی 54جبکہ
بلوچستان اسمبلی کے 12 ارکان کی رکنیت معطل کی گئی،سینیٹر شوکت
ترین،عبدالغفور حیدری، سینیٹر احمد خان بھی رکنیت معطل ہونے والوں میں شامل
ہیں وفاقی وزیر ساجد طوری، پی اے سی چیئرمین نور عالم خان اور ڈاکٹر فہمیدہ
مرزا کی رکنیت بھی معطل ہے یہ تو ہمارے سیاستدانوں کا حال ہے کہ انہوں نے
وقت پر اپنے گوشوارے تک جمع نہیں کروائے اور جس طریقے سے جھوٹے سچے گوشوارے
جمع ہونگے انکا بھی سبکو علم ہے مگر ہمارا نظام سیاست ہی ایسا ہے اس لیے اس
پر بحث مباحثہ ہی فضول ہے کیونکہ ہمارے پاس اہل قیادت ہے اور نہ ہی کوئی
اہلیت والی بیوروکریسی مگر اہل اوردیانتدار قیادت کا بحران تمام بحرانوں سے
زیادہ خطرناک ہے کرپٹ بیوروکریسی اور سیاستدانوں نے عوام کا معاشی قتل کرکے
ان سے جینے کا حق چھین لیا ہے دنیا کا بڑا زرعی ملک ہونے کے باوجود عوام
غذائی قلت کا شکارہو کر سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہے گذشتہ دنوں آٹے
کے ایک تھیلے کے حصول کے لیے میرپور میں ایک غریب شہری جان کی بازی ہار
گیااور غریب نے بچوں سمیت خودکشی کر لی ایسے گھمبیر حالات میں حکمران خواب
خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں خواہش ہے کہ سندھ کے بلدیاتی الیکشن میں نئے آنے
والے لوٹ مار کی سیاست پر لات زرور ماریں تاکہ آنے والا مستقبل سنہری ہو
سکے ۔ |