ڈاکٹرز۔۔۔۔خدا نہ بنیں

ہسپتال سے واپس آتے ہی وہ بسترسے ایسے لگے کہ پھرکبھی اٹھ ہی نہ سکے۔اسے ایک دودن یاہفتوں اورمہینوں نہیں سالوں سے کوئی خطرناک بیماری تھی لیکن وہ عام اورصحت مندانسانوں کی طرح زندگی کے سارے اموربخوبی وآسانی کے ساتھ سرانجام دے رہے تھے لیکن جس دن اسے ڈاکٹرنے اس کے جسم میں چھپی اس خطرناک بیماری کے بارے میں بتایاوہ چنددنوں میں اس قدرکمزورہوگئے کہ پھراٹھنابیٹھنااورچلناپھرناتودورجگہ سے ہلنابھی اس کے لئے ممکن نہ رہا۔بالآخراسی بسترپرمہینے،ہفتے اورگھنٹے گنتے گنتے وہ اس دنیاسے رخصت ہوگئے۔ہمیں ڈاکٹروں کی صلاحیتوں،علم،تجربے اورپیشہ ورانہ مہارت پرکوئی اعتراض ہے اورنہ کوئی شک لیکن جوڈاکٹرزندگی بچانے اورصحت کی بھیک مانگنے کے لئے اپنے ہسپتالوں اورکلینک پر آنے والے مریضوں کوڈائریکٹ موت کی ڈیڈلائن دیتے یابتاتے ہیں ہمیں ان پراعتراض بھی ہے اوران کے انسان ہونے پرشک بھی۔کہتے ہیں جوگڑسے مررہاہواسے زہرسے مارنے کی کوشش نہ کیاجائے۔جوبندہ کینسر،ٹی بی،ایڈزیاکسی اور خطرناک بیماری اورموذی مرض کے باعث مررہاہواسے اضافی ٹینشن،پریشانی اورتکلیف میں مبتلاکرکے مارنے کی کیاضرورت ہے۔؟موت اٹل حقیقت ہے اوراس سے کوئی انکارنہیں۔ہرانسان پیداہی مرنے کے لئے ہوتاہے۔مرناہم سب نے ہے لیکن کب ۔؟کہاں۔؟ اورکیسے مرناہے۔؟ اس کاعلم صرف اورصرف خداکے پاس ہے اورکسی کے پاس نہیں۔ماناکہ بعض نہیں بلکہ اکثرڈاکٹربڑے باصلاحیت،ماہراورتجربہ کارہوتے ہیں وہ مریض کودیکھتے ہی فائنل نتیجے پرپہنچ جاتے ہیں اوربعض ڈاکٹرجیساکہتے ہیں ویساہوتابھی ہے لیکن اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ڈاکٹرمسیحاکی بجائے نعوذبااﷲ خدابن کرلوگوں کوموت کی ڈیڈلائنیں دیتے پھریں۔ڈاکٹرمسیحاہوتے ہیں اﷲ نے ان کے ہاتھوں میں شفاء ضروررکھی ہے لیکن ڈاکٹروں کے ہاتھوں اورزبان میں کسی کومارنے یازندہ کرنے کاکوئی اختیارنہیں ۔یہ اختیارپہلے بھی صرف اﷲ کے پاس تھا،اب بھی اﷲ کے پاس ہے اورتاقیامت اﷲ صرف اﷲ ہی کے پاس رہے گا۔ہم نے اس مٹی پرایسے ایک دونہیں ہزاروں مریضوں کوسالوں جیتے دیکھاہے جن کوڈاکٹروں نے مرنے کے لئے چنددنوں ،ہفتوں یامہینوں کی ڈیڈلائنیں دے رکھی تھیں۔ایسے کئی لوگ اورمریض بھی ہماری نظروں سے گزرے ہیں کہ جنہیں درداورتکلیف پرڈاکٹروں نے عام دوائیاں دے کراپنے ہسپتالوں اورکلینک سے یہ کہتے ہوئے واپس کیاکہ کوئی خاص بیماری یامسئلہ نہیں اوروہ پھرچندگھنٹوں یادنوں میں دنیاسے ہی رخصت ہوئے۔اس لئے یہ کہنایاسمجھناکہ موت کے بارے میں ڈاکٹرجوکہیں گے وہی سچ اورآخری ہوگایہ غلط بہت غلط ہے ۔جوڈاکٹرمہارت ،قابلیت اورتجربے کی روشنی میں ڈیڈلائنوں کایہ چورن بیچ رہے ہیں وہ نہ صرف غلط بلکہ دکھی انسانیت پربہت بڑاظلم بھی کررہے ہیں۔ڈاکٹرزمسیحاہوتے ہیں ۔لوگ اپنے رستے زخموں پرمرہم رکھنے و لگانے کی خاطران کے پاس جاتے ہیں۔مسیحاوہی ہوتاہے جوزخموں پرمرہم رکھے،زخموں پرنمک چھڑکنے والے کولوگ قصائی کہتے ہیں مسیحانہیں ۔ڈاکٹرزتوسارے مسیحاہوتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت اس ملک اورمعاشرے میں بہت سے ڈاکٹروں نے قصائیوں والاروپ دھاراہواہے۔یہ ڈاکٹرعوام کولوٹنے،کنگالنے اورجیتے جی مارنے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ان ڈاکٹروں کومریض اورانسانیت کی کوئی فکرنہیں ہوتی ان کاکام بس صرف پیہ ہی لوٹناہوتاہے۔مریض مرتاہے یاجیتا۔؟ٹھیک ہوتاہے یانہیں۔؟سکون میں رہتاہے یاپریشانیوں میں ایڑھیاں رگڑکرشب وروزگزارتاہے۔؟ان چیزوں اورباتوں سے اس قبیل سے تعلق رکھنے والے ان ڈاکٹروں کاکوئی لینادینانہیں۔ان کاکام توبس بھاری فیسیں لیکرسارے ہسپتال اورپورے کلینک میں یہ اعلان کرواناہے کہ اس مریض کے دن اب تھوڑے رہ گئے ہیں یہ بس چنددنوں کامہمان ہے۔ڈاکٹروں کاایک ایک لفظ قیمتی ہونے کے ساتھ بھاری بہت بھاری بھی ہوتاہے۔ڈاکٹرکے منہ اورزبان سے جب ،،آپ کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں،،یا،،آپ چنددنوں کے مہمان ہیں،،جیسے الفاظ اورجملے ایک صحت مند،موٹاکٹااورپہلوان قسم کاانسان بھی سنتاہے توپھرچین اورسکون سے وہ بھی نہیں رہتا۔اسی لئے توکہاجاتاہے کہ ڈاکٹرکے دوپیارے بول سے مریض کی آدھی بیماری خودبخوددوراورختم ہوجاتی ہے۔ڈاکٹرنثارہمارے قریبی رشتہ دارہیں یہ خیبرپختونخواکے ایک پسماندہ ضلع بٹگرام میں اس وقت دکھی انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی مریض کے علاج کے لئے سب سے پہلے اسے ہمت اورحوصلے کے ڈوزدینے ضروری ہیں،آپ اگر مریض کواس کولاحق ہونے والے مرض کے خلاف ہمت وحوصلہ دینے کی بجائے صرف اس بیماری سے ڈرائیں گے توپھرآپ دنیاجہان کی قیمتی اورمہنگی دوائیاں اس پراستعمال کیوں نہ کرائیں وہ آسانی کے ساتھ کبھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ڈاکٹرنثارسے ہٹ کربھی ہم نے بارہادیکھاہے کہ حقیقی معنوں میں دل کے اندر انسانیت کی تڑپ رکھنے والے ڈاکٹرمریضوں کے لئے دوائیوں سے زیادہ ہمت اورحوصلے پرزوردیتے ہیں ویسے بھی ڈاکٹرکافرض ہے کہ وہ ادویات سے زیادہ مریض کواپنی باتوں اورقیمتی مشوروں سے اس قدرہمت وحوصلہ دیں کہ چارپائی پر آنے والامریض بھی پھراپنے پاؤں پرجانے کی ضدکریں۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہرشعبے اورمیدان کی طرح ہماراصحت سے متعلق اہم شعبہ وپیشہ بھی قصائی نماڈاکٹروں کے ہتھے چڑھنے لگاہے۔چنددن پہلے ایک قاری نے واٹس ایپ پربتایاکہ میرے والدصاحب ایک ڈاکٹرسے چیک اپ کے لئے گئے جس نے اس کوڈائریکٹ بتایاکہ آپ کوکینسرہے اوراس کااب کوئی علاج نہیں۔اس کے بعدسے والدصاحب کی طبیعت اورحالت ٹھیک نہیں۔یہ کونساطریقہ ہے کہ آپ گڑسے مرنے والے کوزہرسے مارنے پرتل جائیں۔؟آپ اگرکسی کاعلاج نہیں کراسکتے۔؟کسی کے رستے زخم پرمرہم رکھ نہیں سکتے۔؟توخدارااس زخم پرنمک تونہ چھڑکیں۔ایک ڈاکٹرکے لئے کسی کویہ کہناکہ آپ کامرض لاعلاج ہے یاآپ کابچناممکن نہیں بہت آسان ہے لیکن کیا۔؟کسی ڈاکٹرنے کبھی یہ سوچاہے کہ ان کے اس طرح کے دوکالے بول سے سننے والے پرپھرمرتے دم تک کیاگزرتی اورکیابیتی ہے۔؟ماناکہ کینسر،ٹی بی ،ایڈزاوردیگرکچھ مہلک بیماریوں میں مبتلا ایسے بہت سے مریض ہونگے جولاعلاج ہوں گے،میڈیکل کی دنیامیں ان کاکوئی علاج نہیں ہوگااورڈاکٹرکے علم وتجربے کے مطابق ان کابچنابھی ممکن نہیں ہوگالیکن یہ کوئی طریقہ نہیں کہ ڈاکٹراپنامنہ شریف ایسے مریضوں کے کان کے قریب کرکے انہیں یہ خوشخبری سنائیں کہ آپ کاٹائم پوراہوچکاہے، بس اب آپ اس دنیاسے جانے والے ہیں۔ہم پھرکہتے ہیں کہ انسانوں کایہ آنااورجانایہ اﷲ کی قدرت اوراختیارمیں ہے کسی ڈاکٹراورحکیم کے بس اوروس میں نہیں۔اس لئے ڈاکٹرمسیحاہیں تومسیحاہی رہیں خدا نہ بنیں۔کیونکہ ڈاکٹروں کے اس طرزعمل سے پھر دکھ اوردرد کے مارے انسانوں کوتکلیف بہت تکلیف پہنچتی ہے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 223 Articles with 161412 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.