الخدمت اور جے ڈی سی کی خدمات کو سلام


میڈیسن اور سائنس کے جریدوں میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق اگر کوئی بھی شخص اپنے دوستوں، جاننے والوں یا اجنبیوں کو وقعتا فوقعتا مدد فراہم کرتا رہے تو ایسا شخص جذباتی طور پر ہی نہیں بلکہ ذہنی اور جسمانی طور پر بھی صحت مند رہتا ہے۔ ایسا شخص ذہنی تناؤ، ڈپریشن اور منفی سوچ سے بھی محفوظ رہتا ہے اور ایک خوش و خرم زندگی گزارتا ہے۔

فلاح و بہبود اور مدد فراہم کرنے والے رویے اور جذبات رکھنے والی شخصیات ہر معاشرے میں موجود ہیں۔ تعلیم یافتہ، تہذیب یافتہ اور امیر ممالک میں تقریباً ہر شخص فلاح و بہبود اور مدد پر ایمان رکھتا ہے۔ ایسی قوموں اور اُن افراد کیلئے انسانیت سب سے اوپر ہے۔ عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر رتھ فاؤ ایسی ہی کرشماتی شخصیات تھیں،جنہوں نے انسانیت کو ہی اپنا مذہب سمجھا اور بہت سے بھٹکے ہوؤں کو ایک وژن اور راستہ دکھایا۔

پاکستان کا حالیہ سیلاب بھی بہت سوں کو راستہ دکھانے کیلئے کافی ہے۔ جب ملک کا ایک تہائی حصہ سیلابی پانیوں میں ڈوب چکا ہو۔ جب تین کروڑ تیس لاکھ لوگ متاثر ہوں۔ جب 64لاکھ افرادکو انسانی مدد کی فوری ضرورت ہو۔ جب لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہوں۔ جب ملک کے 888مراکز صحت کو نقصان پہنچ چکا ہو۔ جب ملک بھر کے 154اضلاع میں سے 116متاثر ہوں۔ جب ہر سات میں سے ایک شخص سیلاب کا شکا ر ہو۔ تو پھر الخدمت اور جے ڈی سی جیسے فلاحی اداروں کو راہ دکھانے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ پھر یہ ادارے لاکھوں کروڑوں انسانوں کیلئے خودمشعل راہ بن جاتے ہیں۔

پاکستان کا حالیہ سیلاب، پاکستانی تاریخ کا بہت بڑا انسانی المیہ اور بحران ہے۔ مصیبت، دکھ اور تکلیف کی اس گھڑی میں سیلاب متاثرین تک فوری پہنچنا اور اُن کی عزت اور احترام کو بحال رکھتے ہوئے اُن تک امداد پہنچانا صرف حکومت کے بس کی بات نہیں تھی۔ اِن کٹھن اور آزمائش کے حالات میں بہت سی رفاحی اور فلاحی تنظیمیں مشکل میں پھنسے اپنے ہم وطنوں تک پہنچنے کا بیڑا اُٹھائے ہوئے ہیں۔ خیمے، راشن، ڈاکٹرز ادویات اور جس چیز کی اُنہیں ضرورت ہے۔ یہ فلاحی تنظیمیں وہ چیز اُن سیلاب زدگان تک پہنچانے کا نہ صرف عزم لیے ہوئے ہیں بلکہ عمل پیرا بھی ہے۔ یہ غالباً اس لیے بھی ضروری ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا مداوا کرنا یا سیلاب زدگان کو فاقوں سے بچانا صرف حکومت کے بس کی بات نہیں۔ لہٰذا پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی فلاحی تنظیمیں سیلاب متاثرین کی مدد کا کارنامہ سرانجام دے رہی ہیں۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اِن تمام فلاحی تنظیموں کو پاکستانی دل کھول کر چندہ، خوراک اور ضروریات زندگی کی اشیاء دے رہے ہیں یہ تمام پاکستانی عزم، ہمت اور ایثار کی داستان رقم کر رہے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر داد و تحسین کے حق دار ہیں فلاحی تنظیموں کے اراکین۔

حالیہ سیلاب میں الخدمت اور جے ڈی سی کے اراکین اور ورکرز جس طرح سماجی خدمت میں پیش پیش دکھائی دے رہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔

سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پانی کی سرکشی کی تصاویر پورا پاکستان دیکھ چکا ہے۔ خلق خدا تکلیف اور مصیبت میں ہے۔ ایسے میں کچھ مذہبی صاحبان پانی کی بے رحمی کو خدا کی ناراضگی سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔ اِسے پاکستانیوں کے گناہوں کی سزا قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ پاکستان کی حالیہ بارشیں اور سیلاب گلوبل وارمنگ کی سیدھی سادی مثال ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسے مناظر دیکھنے کو ملیں ہیں کہ کرینوں سے مٹی میں دھنسی ہوئی جانوروں اور انسانوں کی لاشوں کو نکالا گیا ہے۔

ہمیں یہ چیز نہیں بھولنی چاہیے کہ سیلاب کا پانی متاثرہ لوگوں کو نفسیاتی طور پر مفلوج کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا نے سیلاب زدگان کے بچوں کو خالی پلیٹوں اور خالی برتنوں سے نوالے بنا کر کھانے والے جو مناظر دکھائے ہیں وہ دل چیر دینے والے ہیں۔ کہیں میری مٹی کی ماں ایک سوکھی روٹی کے آٹھ ٹکڑے کر کے بچوں میں بانٹ رہی ہے تو کہیں میرے وطن کی ماں کہہ رہی ہے کہ ہم تو کھلانے والوں میں سے تھے، آج خود محتاج ہو کر اس خیمے میں پڑے ہیں۔ کہیں میرے پاکستان کی حاملہ بیٹیاں پریشانیوں میں گھری ہوئی ہیں۔ کہیں میرے ملک کے بچے سکول جانے کے منتظر ہیں تو کہیں کوئی بچی اپنی گیلی کتابوں کے پھٹے ہوئے ورک اُٹھا رہی ہے۔ ہم نے یہ سارے مناظر ٹیلی ویژن یا موبائل فونوں پر دیکھے ہیں۔ذرا سوچیں کہ اس سے بھی زیادہ دل دہلا دینے والے مناظر الخدمت، جے ڈی سی، ایدھی فاؤنڈیشن، ہلال احمر کے ورکرز سیلاب زدگان میں موجود رہ کر دیکھ رہے ہیں۔

وہ کس طرح آنسوؤں کو ضبط کئے ہوئے ہیں۔ وہ کس طرح دلوں کو پتھر کئے ہوئے ہیں۔ اُنہیں نیند کس طرح آتی ہوگی۔ روٹی پر جھپٹتے سیلاب متاثرین کو دیکھ کر اُن کے منہ سے نوالہ کس طرح اُترتا ہوگا۔ بلاشبہ دکھی انسانیت کیلئے جو کارہائے نمایاں یہ ہیرو سرانجام دے رہے ہیں۔ اُس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میں صوبائی حکومتوں سمیت وفاقی حکومت سے درخواست کروں گا کہ الخدمت فاؤنڈیشن کے سربراہ محمد عبدالشکور، اخوت فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب، جے ڈی سی فاؤنڈیشن کے سربراہ سید ظفر عباس سمیت ان فلاحی اداروں کے تمام کارکنان کو حکومتوں کی جانب سے تعارفی اسناد پیش کی جانی چاہیے۔

پاکستان کو دہائیوں میں اپنی طرز کے بدترین قدرتی آفت سے نکلنے کیلئے بہت جدوجہد کرنا ہوگی۔ ملکی اور بین الاقوامی خیراتی اور مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان کی مدد کی جارہی ہے۔ پاکستان کے مخیر حضرات کو بھی دل کھول کر سیلاب زدگان کیلئے مالی عطیات میں حصہ ڈالنا ہوگا۔ کیونکہ آسمان سے برستا اور پہاڑوں سے اُترتا پانی تو رک گیا ہے مگر سیلاب زدگان کی آزمائش ختم ہونے اور اُن کی آباد کاری شروع ہونے میں مہینوں لگے گئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم چند ہفتوں بعد کسی نئی سیاسی ہلچل میں پھنس کر ان بے بسوں، مجبورو ں اور مصیبت کے ماروں سے توجہ ہٹا بیٹھیں۔
وہ جو پیاسا لگتا تھا، سیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے ڈوب گیا ہے

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ahmed Naveed
About the Author: Ahmed Naveed Read More Articles by Ahmed Naveed: 47 Articles with 23865 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.