ابھی حال ہی میں ایک عالمی سروے کے نتائج میں عالمی
برادری نےکووڈ 19 کی روک تھام اور کنٹرول میں چین کی کامیابیوں کو زبردست
سراہا ہے۔عالمی سروے میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی سمیت 21
ممالک کا احاطہ کیا گیا۔سروے میں شامل 88.1 فیصد جواب دہندگان نے گزشتہ تین
سالوں کے دوران انسداد وبا میں چین کی کامیابیوں کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ
بھرپور تعریف کی، جبکہ ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکی ممالک کے جواب
دہندگان میں یہ شرح 93.4 فیصد تھی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ چین وبا کے خلاف اپنی تین سالہ جنگ میں "لوگوں اور ان
کی زندگیوں کو اولیت دینے" اور وبائی ردعمل کو بہتر بنانے کے اصول پر قائم
رہا ہے۔ گزشتہ تین سالوں کے دوران، چینی حکومت نے ہر ایک فرد کی زندگی اور
صحت کے تحفظ کے لئے ہر ممکن کوششیں کی ہیں. اس کے ساتھ ہی چین نے بدلتی
صورتحال کے عین مطابق وبا کی روک تھام کے اپنے اقدامات کو بھی ایڈجسٹ کیا
ہے۔دنیا مانتی ہے کہ چین کی جانب سے انسداد وبا کی پالیسیوں کو بہتر بنانے
اور حالیہ ایڈجسٹمنٹ سے عالمی معاشی ترقی اور اقتصادی بحالی میں مدد ملے
گی۔
اس تین سالہ عرصے میں چین نے دنیا کی سب سے بڑی ویکسی نیشن مہم کا آغاز کیا
اور اہم گروہوں کو تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب رہا۔تا حال ، دنیا بھر میں
کووڈ 19 کی وجہ سے 6.63 ملین سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں جبکہ چین میں سنگین
کیسز اور اموات کی شرح سب سے کم ہے۔اسی باعث سروے میں شامل71.6 فیصد جواب
دہندگان نے کووڈ 19 پالیسیوں میں چین کی متحرک ایڈجسٹمنٹ کو تسلیم کیا۔چین
کی جانب سے اپنے انسداد وبا ردعمل اور انتظام کو کلاس اے سے کلاس بی تک کم
کرنے کے حوالے سے ، 76.2 فیصد جواب دہندگان نے متعلقہ اقدامات کو مثبت اور
مؤثر قرار دیا۔ ان اقدامات میں طبی خدمات کی عوامی طلب کو پورا کرنے کے لئے
زیادہ سے زیادہ فیور کلینک کھولنا، آئی سی یو بستروں کی تعداد میں اضافہ
کرنا اور شدید اور تشویش ناک مریضوں کے لئے بروقت داخلے کو یقینی بنانا
شامل ہیں۔ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکی جواب دہندگان میں 82.5 فیصد نے
چین کے مذکورہ اقدامات کی بھرپور تحسین کی۔
چین کی یہ کامیابیاں اپنی جگہ، مگر دوسری جانب یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ
گزشتہ تین برسوں کے دوران چین نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ کھلے اور
شفاف طریقے سے وبائی صورتحال سے متعلق معلومات کا تبادلہ کیا ہے، وبا کی
روک تھام و کنٹرول اور ویکسین کی تحقیق اور ریجنٹس کی دریافت کے لئے سائنسی
بنیاد فراہم کی ہے۔چین نے گزشتہ تین سالوں میں ڈبلیو ایچ او کے ساتھ 60 سے
زائد تکنیکی تبادلے کیے ہیں اور اس وقت بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔یہی وجہ ہے کہ
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈاہانوم گیبریسس نے حال ہی میں وبا
سے نمٹنے میں چینی حکومت کی کوششوں کی تعریف کی اور ڈبلیو ایچ او کے ساتھ
طویل مدتی تکنیکی تبادلے اور وبائی معلومات اور اعداد و شمار کے تبادلے پر
چین کا شکریہ ادا کیا۔
انسداد وبا کے عالمی تعاون میں چین کی گراں قدر خدمات کا تذکرہ کیا جائے تو
تاحال چین نے 150 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو ویکسین کی 2.2
ارب سے زائد خوراکیں فراہم کی ہیں، 153 ممالک اور 15 بین الاقوامی تنظیموں
کو حفاظتی سوٹس، وینٹی لیٹرز، ماسک اور دیگر سامان فراہم کیا ہے اور 34
ممالک میں انسدادِ وبائی امراض کے طبی ماہرین کی 38 ٹیمیں بھیجی ہیں۔ یہ
انسداد وبا کےعالمی تعاون میں مدد اور انسانی صحت کےہم نصیب معاشرے کے لئے
چین کا عملی اقدام ہے۔ سروے میں شامل، 85 فیصد سے زیادہ جواب دہندگان نے
کووڈ 19 کے خلاف عالمی دفاع میں چین کے کردار کی تعریف کی۔نائجیریا اور
پاکستان میں، جہاں چینی ویکسین عطیہ کی گئی ہیں، 88 فیصد جواب دہندگان کا
خیال ہے کہ چینی ویکسین محفوظ اور مؤثر ہیں۔ سروے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ
96.6 فیصد جواب دہندگان نے چین مخالف ممالک پر زور دیا کہ وہ تعصب کو
بالائے طاق رکھیں اور وبا جیسے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مل کر کام
کریں۔کہا جا سکتا ہے کہ وبا کے خلاف عالمی جنگ میں ، چین کی جانب سےبین
الاقوامی برادری کو وبا سے لڑنے کا قیمتی اعتماد فراہم کیا گیا ہے جو
انسانیت کی ایک بڑی خدمت اور قیمتی انسانی جانوں کے تحفظ میں نمایاں شراکت
ہے۔
|