ایک ماہ سے زیادہ عرصے کی غیر حاضری کی وجہ کچھ نجی
مصروفیات پھر پریس کلب کے الیکشن ا لحمداﷲ جیت کے بعد پھر دوستوں کی پریس
کلب آمد کئی روز کا مبارک باد کاسلسلہ چل پڑا جو ابھی تک جاری ہے سوچا تھا
مذید چند روز تک چھٹی رہے لیکن ایک واقعے نے قلم اٹھانے پر مجبور کیا ہے جس
کا میں ذکر کرہاہوں ۔ا س کا تقریبا ہم سب شکارہوتے آرہے ہیں ۔میں نے اپنے
گھر کے ساتھ ایک کریانہ کی دوکان کھولی ہوئی ہے روز کا میرا معمول ہے کہ
فجر نمازکی ادائیگی کے بعد جاکر دوکان کھولتا ہوں ۔آج اعلیٰ صبح جونہی میں
نے دوکان کھولا تو تین افراد دوکان میں داخل ہوئے جو شکل و صورت سے محنت کش
لگ رہے تھے ان میں ایک نے کہا کہ بھائی ایک نہانے والا ایک کپڑے دھونے والا
صابن اور ایک پاو سرسوں کا تیل دو۔دوسرے نے بھی کہا مجھے بھی صابن تیل دے
دو ۔تیسرے شخص نے بھی یہی کہا تینوں نے ایک جیسا سودا لیا ۔تو میں نے ان سے
پوچھا بھائی کیا آپ لوگ مزدور ہو اور مزدوری کی غرض سے کچھ دنوں کیلئے شہر
سے باہر جارہے یا یہاں عدالت میں پیشی پر آئے ہوئے قیدیوں کو یہ چیزیں دینے
ہیں عدالت کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کیوں کہ جوڈیشنل کمپلیکس میرے دوکان کے
قریب ہے ۔تو انھوں نے جو بات کہی اس بات نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا
۔انھوں نے کہا کہ ہم صوبہ سندھ کے رہنے والے ہیں یہاں اسی کالونی میں ہمارے
ایک رشتہ دار کا انتقال ہو گیا ہے رسم رواج کے مطابق برادری کے وہ تمام
افراد جو شادی شدہ ہیں ہر ایک فرد لازمی طور پر فوتگی والے گھر اسی طرح کا
سامان پہچانے کا پابند ہے سامان دینے والا چاہئے کتنا غریب ہو اور لینے
والا چاہئے کتنے پیسے والا ہو ۔برادری سسٹم میں اسی طرح ہوتا رہتا ہے ۔اسی
طرح ہم نے دیکھا ہے کہ کئی برادریوں میں اس طرح ہوتا ہے فوت گئی کے تین دن
کا خرچہ برادری والے دیتے ہیں لیکن یہاں پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ برادری
میں اگر کسی پیسے والے کی فوت گی ہوجائے تو وہ اپنے حساب سے دل کھول کر
خرچہ کرتا ہے ۔لیکن تین دن کے خرچے کا حصہ اپنے غریب رشتہ داروں سے برابر
کا لیتا ہے جبکہ اگر غریب رشتہ دار کی فوت گی ہوجائے تو وہ بچارہ اپنی
حیثیت کے مطابق کرتا ہے اس کا تین دن کا خرچہ چند ہزار روپے بنتے ہیں جوکہ
فی نفر چند سو دینے پڑتے ہیں دوسری جانب برادری کا وہ سرمایہ دار طبقہ فوت
گی پر اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتا ہے پھر تین دن کا بل لاکھوں میں آجاتا
ہے جس میں برادری کے غریب افراد کو بھی اپنا برابر کا حصہ دینا پڑتا ہے میں
نے دیکھا کہ مجھ جیسے کئی افراد ،اس وجہ سے برادری سسٹم سے نکلنے پر مجبور
ہوگئے ہیں ۔ہم ہمیشہ یہ جملہ سنتے آتے ہیں بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے بھی
آرہے ہیں ۔دولت ہوتو پردیس میں بھی دیس ہے غربت ہو تو دیس میں بھی پردیس ہے
کہتے ہیں غربت تو انسان کو اپنے ہی شہر میں اجنبی بنادیتی ہے ۔لیکن میں
کہتا ہوں کہ غریبی تو اپنوں میں بھی اجنبی بنادیتی ہے ۔زیادہ تر اس غریبی
کے ہم خود اور ہمارا معاشرہ ذمہ دار ہے ۔یہ کام کیا یا ایسا نہیں کیا تو
لوگ کیا کہیں گئے مشہور امریکی فلاسفر ڈیل کارنیگی نے کہا کہ دنیا کی نصف
آبادی صرف اس لئے بھوک کاٹنے پر مجبور ہے کہ لوگ کیا کہیں گئے یہ وہ جملہ
ہے جس نے بہت سے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے ساتھ میں نمودنمائش اور بے
جا رسومات نے لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا اس کا شوآف کرنے میں خواتین
زیادہ پیش پیش نظر آتی ہیں شادی ولیمہ کی حد تک ٹھیک ہے لیکن فوتگی کے
مواقعوں پر بھی ناک اونچی رکھنے اور برادری میں نمایا ں ہونے کیلئے فوتگی
کا کھانا بھی ولیمے جیسا ہونا لازمی سمجھاجاتا ہے ۔جن جن علاقوں میں شادی
غمی کو نمود نمائش سے دور رکھ کر اسلامی طرز پر ان رسومات کی ادائیگی کی
جاتی ہے وہاں پر بسنے والے لوگوں کی زندگیاں آسان ہیں اور وہ لوگ سماج
معاشرے سے جوڑے رہتے ہیں کیونکہ اسلام نے نمودونمائش اور فضول خرچی سے سختی
سے منع فرمایا ہے یہی وجہ ہے کہ فضول خرچ کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیاہے
۔آپ میں سے اکثر نے دیکھا کہ ہمارے یہاں ولیمہ کا کھانا کھاتے جونہی باہر
نکلنے کیلئے گیٹ پر پہنچتے ہیں تو اسی گیٹ کے ساتھ آپ کودوچار افراد کاپی
لئے بیٹھے نظر آتے ہیں جن کا مقصد ہے کہ کھانا کھایا تو بل بھی ادا کرتے
جاو کاپی اسلئے کہ میں دیکھ سکوں جو میں نے اسکے ولیمے میں پیسے دیئے ہیں
واپس اس کو اتنے ہی پیسے دینے ہیں یا میں نے اس کے ولیمے پر اتنے پیسے دیئے
تھے اب چیک کروں کہ اس نے پورے پیسے بھی دیئے یا نہیں دیکھا گیا لوگ ولیمہ
شادی کی خوشی کیلئے نہیں بلکہ وصولی کیلئے کرتے ہیں ۔ایسے موقعوں پر جو سب
سے زیادہ تکلیف والی بات نظر آتی ہے وہ یہ ہے ولیمے کے موقعہ پر مہمانوں کو
ایک جیسا پرٹرکول نہیں دی جاتی ہے دیکھا جائے جس کو آپ نے ولیمے کی دعوت کے
کارڈ دیئے ہیں وہ سب آپ کے لئے وی آئی پی کا درجہ رکھتے ہیں لیکن اکثر لوگ
نہیں کرتے ہیں ،اسی طرح ہماری فوت گئی بھی لوگوں کیلئے پریشانی کا باعث بنے
ہوئے ہیں وہاں پر بھی یہی کاپی لئے ایک دو اشخاص بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں جو
تعزیت کرنے والوں سے پیسے لے کر ان کا نام لکھتے ہیں میں نے دیکھا کہ ہمارے
اس طرح کے عمل سے سینکڑوں لوگ تعزیت کرنے سے صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ
تعزیت کرنے جائیں تو ایک ہزار نہیں تو کم از کم پانچ سو تو دینے پڑہیں گئے
جبکہ مجھ جیسا ایک عام لوئر مڈل کلاس کا بندہ ایک ہزار یا پانچ سو روپے
دینا افورڈ نہیں کرتا جہاں پر لوگ ہزار دوہزار دیتے ہیں اس جگہ پر مجھ جیسے
بہت سے لوگ دو روپے دیتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور پھر یہی ہوتا ہے
ایسے موقعوں پر جانا ہی چھوڑ دیتے ہیں کیوں نہ چھوڑیں آپ خود اندازہ کریں
غریب مزدور کی بات نہیں کرتا ہوں بلکہ یہاں بات ہورہی ہے لوئر مڈل کلاس کی
پچاس ساٹھ ہزار روپے ماہانہ کمانے والا کس طرح اس مہنگائی کے دور میں ہر
مہینے تیس چالیس فوتگیوں پر تعزیت کیلئے جاسکتا ہے آخر ولیموں پر بھی جانا
ہے جبکہ رشتہ دار دوست احباب پڑوسیوں کی بیماری میں مزاج پرسی کیلئے بھی تو
جانا ہے ظاہرہے خالی ہاتھ تو نہیں جانا ہے اس کیلئے بھی تو پانچ سو یاہزار
تک کوئی فروٹ مٹھائی تو لے کر جانی ہے آپ ان سے اندازہ کریں کہ ہم کس طرف
جارہے ہیں لوگوں کی زندگیوں کو مشکل سے مشکل تر بناتے جارہے ہیں جو بے چارے
پہلے ہی بے پناہ مشکلات سے دو چار ہیں ۔ آیئے آج ہم ایک احد کریں کہ ہم نے
صراط مستقیم پر زندگی گزارنی ہے ۔صراط مستقیم والی زندگی یہی ہے ۔زندگی کو
ضرورت سمجھ کر گزارنا ہے خواہش سمجھ کر نہیں ۔کیونکہ ضرورت تو فقیروں کی
بھی پوری ہوجاتی ہے خواہش تو بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوئی ہے ہم نے اﷲ
اور اس کے رسول اﷲﷺ کو راضی کرنا ہے ان کے احکامات پر ہر حال میں عمل کرنا
ہے پھر جس نے کچھ کہنا ہے تو کہنے دیں ہمیں کیا پرواہ ہے لوگ کیا کہیں گئے
۔بس ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺکیا کہتے ہیں یہی ہمارے لئے
سب کچھ ہونا چاہئے پھر دیکھنا نہ صرف ہماری زندگی آسان ہوگئی بلکہ ہم لوگوں
کیلئے بھی آسانی کا باعث بن سکتے ہیں۔
|