ذمہ دار کون؟

آج صبح سے بچوں کے پیچھے لگی اس کی بیوی کچھ دنوں کے لیے سزا کے طور پر بورڈنگ سکول بھیجنے کا کہہ رہی تھی جنہوں نے اپنی شرارتوں اور من مانیوں سے ان کے ناک میں دم کر رکھا تھاشعیب سنے جارہا تھا۔

حبیب صاحب بڑا سخت آدمی تھا وہ ہر معاملے کو پرفیکٹ چاہتا تھا۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی اپنے بیٹے کو ہاسٹل سے لے آیا تھا۔ جس کے بارے میں حبیب صاحب نے کہا تھا "سدھارنے کے لیے بچوں پر تھوڑی سی سختی ضروری ہے"مگر شعیب صاحب بیوی کو سنے جارہا تھا بولا کچھ نہیں۔

شعیب کے آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھاگیا۔ سوچ کے گوشے میں ایک تاریک منظر دھندلا گیا ۔ دو بچے روتے بلکتے ٹھنڈے یخ بستہ شام میں فرش پر ایک کونے میں چھپ کر بیٹھے تھےآہستہ آہستہ ان کے رونے میں کمی آئی۔ خوف سے ان کی سرخ آنکھیں باہر تک آرہی تھی مگر چشم اپنے حصے کا اشک بہا کر خشک ہو چکا تھا۔ خشک آنکھوں کے نیچے آنسؤوں کی لکیر سی گالوں پہٹھری ہوئی تھی۔ بارش اپنے آب وتاب سے برس رہا تھا کبھی بجلی کڑکنے کی آواز پر دونوں سہم کر ایک دوسرے سے لپٹ پڑتے پھر الگ ہو کر زمیں پر لکیریں کھینچتے اور اپنوں کو یاد کیے جاتے رہے۔ وہ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے جانے کب سوگئے تھے۔ رونے کی وجہ سے کبھی ایک کی ہچکی کی آواز کمرے میں گونجتی کبھی دوسرے کی۔ وہ سو چکے تھے۔

آج ان کے باپ نے انہیں لینے آنا تھا سب بچے اپنے گھروں کو جا چکے تھے چند ایک ان کی طرح والدین یا کسی غیبی مدد کے آسرے کے منتظر تھے جو انہیں اس قیدو بند سے لی چلے۔وہ ان کے لیے صرف ہاسٹل نہیں تھا ایک کال کھوٹڑی تھی جہاں بہت سے ان چاہے بچے پل رہے تھے۔ جن سے ان کے والدین نے چھٹکارا پا لیا تھا۔وہ کچی ذہنوں پر بوجھ لادے روز اجلے کپڑے پہن کر اندر سے میل پکڑ رہے تھے۔صاف بستر اچھے کھانے کچھ بھی تو انہیں نہ"بھا"رہے تھےبظاہر ننھے مگر وقت سے پہلے بڑے ہو رہے تھے۔ سر پر شفقت کا ہاتھ نہ پاکر وہ احساس سے عاری ہو رہے تھے۔

باپ کیا بھائی کیا اور کیا بہن ؟وہ سب سے متنفر ہو رہے تھے ۔
رات کو اس کے بچپن کے دوست شاہد کا فون آیا جو ہاسٹل میں اسکے ساتھ تھا۔وہ اپنے ماں باپ کی وجہ سے بڑا پریشان تھا ۔
"جنہوں نے اس کے بیوی بچوں کی زندگی عذاب بنا رکھی تھی وہ صبح جلدی اٹھ کر ان کی نیند خراب کرتے ہے۔ باہر آنے جانے پر ہزاروں سوال کرتے ہے۔ہر بات میں اپنی مداخلت کرتے اور نمک مصالحہ زیادہ لگنے پر واویلہ مچا دیتے ہے۔ دیرسے آنے پر بچوں کے سامنے ڈانٹ دیتےہے۔ فارغ وقت پاس بیٹھنے پر اصرار کرتے ہے اپنے دواؤں کے لیے فرمائشوں پہ فرمائشیں کرتے ہے۔ اپنے جوانی کے قصے سناسنا کر کوفت میں مبتلا کرتے ہے۔"
وہ اور بھی بہت کچھ سوچ رہا تھا ۔تب ہی ان کے دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ خاموشی سے عینی کے پاس سے اٹھ کر باہر آنے لگا۔ آنے والا بہت عجلت میں تھا ۔ مسلسل دروازہ پیٹ رہا تھا۔ ۔ دروازہ کھولا ہی تھا کہ رومی بنا توقف کے اندر داخل ہوا جسے اس کے پیچھے کوئی فوج لگی ہو۔ وہ بیٹے پرغصے کا اظہار بھی نہ کر پایا تھا کہ ایک بڑا سا پتھر ان کے گیٹ سے ٹکرایا اور اس کے سامنے سے سرکتا دور جا کے رکا۔۔اس نے بیٹے سے نظر ہٹا کر باہر حملہ کرنے والے کو دیکھا۔ اس کے سامنے حبیب صاحب لڑکاتھا جس کو شاید گلی کے لڑکوں نے چھیڑا تھا۔ وہ ساری دنیا سے لاتعلق بچہ تھا۔ اپنے کام سے کام رکھنے والا۔ وہ ہفتہ پہلے آیا تھا وہ کبھی کسی پر پتھر کسی پر کوئی کچرا کسی پر مٹی کسی پر شیشہ جو ہاتھ آرہا تھا پھینک رہا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے غیض و غضب ڈھائے۔اپنے ہاتھوں کو کاٹتے ہوئے کسی بچے پر لپک پڑا۔ کوئی اسے چھڑانے تو کوئی دوسرے کو بچانے کے لیے درمیان میں کھود پڑا۔ وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگا۔
قریب ہی لوگ کھڑے تھےجو ان پر تبصرے میں لگے۔
یہ وہی حبیب صاحب کا ہاسٹل سےآنے والا بیٹا ہے؟
دوسرے نے افسوس کرتے ہوئے کہا
کیا ہوا ہے یہ کیوں ایسے پاگلوں کی طرح بےہیو کر رہا ہے؟۔ ہاسٹل میں رہنے والے بچے کتنے سینس ایبل نکلتے ہے۔ یہ کیوں اسے بن گیا ہے۔؟؟؟
حد سے زیادہ حساس بچے ماں باپ سے دور ہو کر ایسے ہی بنتے ہے۔ وہ اپناتبصرہ کر کے نکل گئے۔
شعیب کے زہن میں فوراً شاہد کا باپ آیا۔
اس نے اپنا فون نکالا اور شاہد کو کال ملایا حال احوال کے بعد اس کے باپ کے بارے میں پوچھا۔
یار جب ہمیں سہارے کی ضرورت تھی ان کو تنہائی کی ضرورت تھی۔آج ہم تنہائی چاہتے ہے تو انہیں سہارا چاہیئے۔

بنت جبار
 

Ramsha Khan
About the Author: Ramsha Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.