یوم جمہوریہ اور جمہوری قدروں کی پامالی

بڑی جد و جہد اور قربانیوں کے بعد ہم نے اپنے ملک کو انگریزوں کی برسہا برس کی غلامی سے آزادی کرایا ہے ۔ آزادی کے بعد ہمارے سامنے سب سے بڑا مسئلہ دستور سازی کا تھا ۔ اس کے لئے طویل بحث و مباحثہ اور بڑے غور و خوض کے بعد26؍ نومبر1949ء کو دستور بنا کر اسے قانونی شکل دی گئی اور26؍ جنوری 1950ء کو اسے نافذ کیا گیا ۔ اس نافذ کردہ دستور میں ملک کے شہریوں کو سات بنیادی حقوق دئے گئے، جو اس طرح ہیں ․․․․․․

(۱) حق مساوات (۲) حق آزادی (۳) استحصال سے حفاظت کا حق (۴) مذہبی آزادی کا حق (۵) تعلیمی اور ثقافتی حقوق (۶) دستوری معاملات میں محافظت کے حقوق (۷) جائداد کے حقوق دئے گئے۔ گویا ان تمام دستور میں عوام الناس کوسماجی ، معاشی اور سیا سی انصاف کے حقوق ملے۔ان سات حقوق میں ایک جائداد کے حق کو 1978 ء میں جنتا پارٹی کی حکومت نے ختم کرتے ہوئے اسے عام حقوق میں شامل کر دیا تھا ۔ ان تمام حقوق میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ ملک کے لوگوں کو اظہار خیال ، یقین و اعتماد ، اعتقاد اور مذہب کی آزادی ہو۔ ہرشخص کو مساوی مقام حاصل ہو ۔دستور کے مطابق قوم کے اتحاد اور ہر فرد کی عزّت و توقیر کا خیال رکھا جائے ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ دستور ہند نے ہمیں جو جمہوری حقوق دئے ہیں ، ان پر کتنا عمل ہو رہا ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ جمہوری قدروں کے منافی ایسا کوئی ہمارا عمل تو نہیں ، جن سے یہ قدریں مجروح و پامال ہو ری ہیں۔

دستور ہند میں حق مساوات کو اولّیت حاصل ہے ، لیکن آج ہم نے اپنے ارد گرد ، ذات پات ، امیری غریبی اور اونچ نیچ کی اتنی اونچی اونچی دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں کہ ہمارے اس عمل سے بلا شبہہ ہماری جمہوری قدر یں نہ صرف پامال ہو رہی ہیں ، بلکہ ہمیں شرمسار بھی کر رہی ہیں۔

آج گاؤں اور شہروں میں حقِ مساوات کا خوب خوب مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ آج لوگ اتنے خانوں میں منقسم ہو گئے ہیں کہ گاندھی، نہرو اور آزاد کے خواب ہی نہیں بلکہ ان کے تفکرات اوران کی شخصیت کی اہمیت کو بھی ختم کیا جا رہا ہے ۔ ہم اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد ذات پات، اونچ نیچ اور امیری غریبی کی خلیج کو اپنے مفاد کے لئے سیاست داں بڑھاتے جا رہے ہیں ۔ جس کے سدّ باب کے لئے اگر سنجیدگی سے غور و فکر نہیں کیا جا تا ہے تو مستقبل میں قوم و ملک کو بہت زیادہ نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔

اب دوسری جمہوری قدر یعنی حق آزادی کو دیکھیں ۔ اس دستور میں دی گئی مراعات بظاہر سبھوں کو میسر ہے ۔ لیکن عملی شکل اس کی بہت زیادہ خوش آئندنہیں بلکہ ان دنوں تو بہت ہی ہیبتناک ہو گئی ہے۔ جس طرح سے ہمارے جمہوری حق کی پامالی ہو رہی ہے، وہ لمحۂ فکریہ ہے ۔ جس پر ہر مکتبٔہ فکر کے دانشوروں کو بہت سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن معاملہ تو یہ بھی ہے کہ اب تو ملک کے دانشوروں کی بھی کردار کشی کی جا رہی ہے ۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا، کلبرگی، پنسارے، دابھولکر ، گوری لنکیش وغیرہ کے سانحات ہمارے سامنے ہیں ۔ ردّ عمل اور احتجاج میں دانشوروں کے ذریعہ ایوارڈ لوٹائے جانے اور مسلسل ملک کے دانشوروں ، فنکاروں ، سابق فوجیوں ، سابق نوکر شاہوں کے اعتراض اور احتجاج پر بھی کیسی کیسی سیاست کی جا رہی ہے ۔ ایسے سارے منظر نامے ہمارے سامنے ہیں ۔

دستور میں دئے گئے تیسرے حق یعنی’ استحصال سے حفاظت‘ ۔ یہ ایسا حق ہے جس سے اب تک بہت لوگ محروم ہیں ۔آج ہمارے سامنے مختلف قسم کے استحصال ظہور پزیر ہیں ۔ خواہ وہ مزدوروں ، کسانوں کو کم اجرت کی شکل میں ہو، یا پھر ذات پات کی بنیاد پرظلم و استبداد ہو ، یہ تمام استحصال بڑے پیمانے پران دنوں دیکھنے کو مل میں رہے ہیں ۔ ایسے استحصال سے حفاظت کی ذمّہ داری نہ صرف حکومت وقت کی ہے ، بلکہ سماجی تنظیموں کی بھی ہے ۔ بعض سیاسی اور سماجی تنظیمیں ان استحصال کے خلاف آواز ضرور بلند کر رہی ہیں ، لیکن آواز بلند کرنے کی پاداش میں ان کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے ، وہ بھی سامنے ہے۔ یہ استحصا ل آج کے زمانے کی ایسی بدّت ہے ، جو عام ہوتی جا رہی ہے ۔ ہمیں کامیابی اسی وقت مل سکتی ، جب حکومت سخت قدم اٹھائے اورسماجی برائیوں کو ختم کرنے کا عہد کرے۔ لیکن افسوس کہ حکومت وقت ایسے استحصال پر قد غن لگانے کی بجائے ، نہ صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ ایسے فرقہ پرست عناصر اور تنظیموں کو حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے ۔

دستور کا چوتھا حق مذہبی آزادی کا ہے، اس میں ہر فرد کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کا حق حاصل ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب کی عزت و احترام کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ لیکن آج حالات اس کے ٹھیک بر عکس ہیں ۔ دوسرے مذاہب کی تضحیک، دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی دل آزاری ، نفرت انگیز نعرے لگانا ، آج فیشن سا بن گیاہے۔ اس سے جہاں منافرت ، بد دلی، عدم رواداری اور فرقہ واریت کو فروغ حاصل ہوتاہے ، وہیں ہماری تہذیبی اور یکجہتی کی روایات بھی بہت شدّت سے مجروح ہورہی ہیں ۔ ان امور پر نہایت سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پہلے وزیراعظم اور معمار ہند پنڈت جواہر لال نہرو نے ایسی ہی صورت حال کے پیش نظر کبھی کہا تھا ․․․․․

’’ ہم کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے ، ہم سب مادر وطن کے فرزند ہیں ۔ ہم عملاََ اور قولاََ تنگدلی اور مذہبی جنون کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے ۔ ‘‘

بابائے قوم مہاتما گاندھی نے بھی اپنی کئی تقاریر میں منافرت اور فرقہ واریت کو ختم کرنے کی تلقین کی ہے۔ لیکن عجب اتفاق ہے کہ ایسے مذہبی جنون دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔جس سے ہمارے جمہوری نظام کا بہت ہی اہم ستون کمزور ہو رہا ہے۔

دستور کا پانچواں حق ’ تعلیمی اور ثقافتی حق ‘ کے تعلق سے ہے۔ جس میں ہم نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن افسوس کہ آج بھی ہمارے درمیان ایسا طبقہ موجود ہے جو ناخواندہ ہے ۔ خاص طور پر غر بت زدہ افراد کے بچے، تعلیم سے بہت دور ہیں ۔ عام طور پر غر یبوں کے بچے دس سال کی عمر میں ہی روزگار میں لگ جاتے ہیں ، تاکہ ان کے گھر والوں کی دو وقت کی روٹی نصیب ہو ۔ یہ مسئلہ ان سے کہیں زیادہ ہمارے ملک کا المیہ ہے۔ اس اہم مسئلہ پر بھی حکومت وقت کو خصوصی توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔

دستور ہند نے اپنے عوام کو جائداد کا حق بھی دیا تھا ۔ لیکن 1978ء میں جنتا پارٹی کی حکومت نے ختم کرتے ہوئے اسے عام حقوق میں شامل کر دیا تھا ۔لیکن افسوس کہ موجودہ عہد میں ایسا طبقہ بڑی تیزی سے ابھر رہا ہے ، جو لوگوں کے اس جمہوری حق کو سلب کرنے کی کوشش میں لگا ہے ۔ یعنی بزور طاقت اس حق سے محروم کیا جا رہا ہے ۔ ایسی طاقت کے خلاف حکومت کو سخت تدابیر کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ لوگ اپنے اس جمہوری حق سے محروم نہ رہیں ۔

جمہوری دستور کے آخر میں جو حق دیا گیا ہے ، وہ ہے ’ دستوری معاملات میں محافظت ‘ یہ حق بھی بے حد اہم ہے ۔ اس پر ان دنوں کس طرح عمل کیا جا رہا ہے ، اس تعلق سے خبریں اورتجزیہ آئے دن اخبارات ، سوشل میڈیااور ٹی وی چینلوں پر چھائی رہتی ہیں۔ ایسے افسوسناک حالات سے ہماری جمہوری قدریں پامال اور مجروح ہو رہی ہیں۔ ہزاروں سال کی ہماری گنگا جمنی تہذیب ، جس کی دوسرے ممالک میں مثالیں دی جاتی رہی ہیں، انھیں ختم کرنے کی دانستہ کوششیں ہو رہی ہیں ۔ ایسے لوگ جو ہمارے جمہوری حقوق اور قدروں کو پامال کر رہے ہیں وہ ملک کی سا لمیت ، یکجہتی اور اس کی شاندار روایات کے دشمن ہیں ۔ ایسے لوگوں سے نہ صرف حکومت کو بلکہ مختلف تنظیموں اور اداروں کو سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اس یوم جمہوریہ کے موقع پر یہی ہمارا عہد اور نصب العین ہونا چاہیے، جو یقینی طور پر قوم و ملک کے مفاد میں ہے ۔

٭٭٭٭٭
 

Syed Ahmad Quadri
About the Author: Syed Ahmad Quadri Read More Articles by Syed Ahmad Quadri: 146 Articles with 122249 views An Introduction of Syed Ahmad Quadri
by: ABDUL QADIR (Times of India)

Through sheer imagination,
.. View More